Home نقدوتبصرہ رفتگانِ نارفتہ:۲۴؍نامورانِ عصر کا ذکرِ خیر – نایاب حسن

رفتگانِ نارفتہ:۲۴؍نامورانِ عصر کا ذکرِ خیر – نایاب حسن

by قندیل

’’رفتگانِ نارفتہ‘‘ عربی و اردو کے شستہ نگار ادیب ،استاذ محترم مولانا نور عالم خلیل امینی( استاذ ادب عربی و مدیر اعلیٰ ماہنامہ ’’الداعی‘‘ عربی) کی شخصیات و سوانح کے سلسلے کی تیسری کتاب ہے۔ اس حوالے سے ان کی پہلی کتاب’’وہ کوہ کن کی بات‘‘ تھی،جو عربی زبان کے بافیض استاذ مولانا وحید الزماں کیرانوی کے احوال و سوانح کا احاطہ کرتی ہے اور اب تک اس کے دسیوں ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ دوسری کتاب’’پس مرگ زندہ‘‘ہے،جس کی اشاعت 2010 میں عمل میں آئی تھی ، اس میں 37 علمی و فکری شخصیات کا تذکرہ ہے ، اسے بھی بے پناہ پذیرائی حاصل ہوئی اور اب تک کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ اب اس سلسلے کی زیرِ تذکرہ تیسری کتاب عن قریب منظرِ عام پر آیا چاہتی ہے۔
مولانا امینی کی دیگر کتابوں کی طرح یہ کتاب بھی ان کے خوب صورت طرزِ نگارش،دلنشیں اندازِ بیان،شخصیات کی صورت گری و تذکرہ نویسی میں غیر معمولی مہارت کا حسین و جمیل نمونہ ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ انھوں نے زیادہ تر ان شخصیات پر قلم اٹھایا ہے،جنھیں انھوں نے بذاتِ خود دیکھا،برتا اور ان سے ان کے راست تعلقات رہے ہیں،اسی وجہ سے ان کے سوانحی مضامین میں بھی زبان و بیان کے لطف کے ساتھ معلومات کا جہان آباد رہتا ہے۔ وہ نہ صرف اپنی تحریروں میں لفظوں کی تراش خراش،جملوں کی ترکیب و تہذیب اور املا و رموزِ املا کی باریکیوں کا بھر پور خیال رکھتے ہیں ؛بلکہ ساتھ ہی ان کی کوشش یہ بھی ہوتی ہے کہ متعلقہ موضوع پر اولی معلومات جمع کردی جائیں،جو قاری کی ادبی لطف اندوزی کے ساتھ علمی افادیت کی بھی حامل ہوں۔ ان کا تاثراتی مضمون بھی محض تاثراتی نہیں ہوتا؛بلکہ دستاویزی و حوالہ جاتی نوعیت کا ہوتا ہے،وہ شخصیات جن پر بہت زیادہ لکھا گیا یا لکھا جاتا ہے،ان پر بھی اگر مولانا امینی قلم اٹھائیں تو اپنی آپ بیتی اور مشاہدات کی روشنی میں ان کے حوالے سے بالکل تازہ اور فرسٹ ہینڈ معلومات فراہم کرتے ہیں۔ مثلاً مولانا علی میاں ندوی یا قاری محمد طیب یا دیگر اکابر علما پر مولانا امینی کے مضامین پڑھیے تو بہت سی ایسی باتیں معلوم ہوتی ہیں،جو صرف انہی مضامین میں لکھی ہوئی ہیں ،دوسرے کسی مضمون یا کتاب میں نہیں مل سکتیں۔ ہر شخصیت سے جڑی یادوں اور اہم واقعات واحوال پر سیر حاصل تحریر سپردِ قرطاس کرنے کے بعد اخیر میں سوانحی خاکہ دینے کا اہتمام بھی میں نے اردو سوانح نویسوں میں صرف مولانا کے یہاں دیکھا۔ یہ سوانحی خاکہ متعلقہ شخصیت کی زندگی کے تمام اہم پہلووں کا ایسی جامعیت کے ساتھ احاطہ کرتا ہے کہ محض اس خاکے کو پڑھ کر بھی اس شخصیت کا مکمل سراپا اپنے تمام خصائص و اوصاف کے ساتھ نگاہوں کے سامنے آ جاتا ہے۔ اسی طرح مولانا امینی کی تحریروں کو پڑھ کر لفظوں کے مزاج و مذاق کے ساتھ ان کے درست املا و صحیح محلِ استعمال سے بھی آگاہی ہوتی ہے؛کیوں کہ ان کی طبعِ نازک زندگی کے دیگر معاملات کی طرح زبان و الفاظ کو برتنے کے معاملے میں بھی نہایت حساس ہے،وہ ہر جملے؛بلکہ ہر لفظ کو صحیح قاعدۂ تحریر کے مطابق لکھتے اور اس پر زور دیتے ہیں، وہ اپنی تحریروں میں مشکل الفاظ پر اعراب لگانے کا بھی اہتمام کرتے ہیں۔ اسی طرح صحیح رموزِ املا کو برتنے کے سلسلے میں ان کی شخصیت منفرد ہے،اس حوالے سے وہ آخری حد تک محتاط و بیدار ہیں،ذرا سی غفلت بھی برداشت نہیں کرتے۔ یہ خصوصیات ان کی ہر تصنیف (اردو یا عربی) میں پائی جاتی ہیں۔
رفتگانِ نارفتہ میں کل چوبیس شخصیات پر مضامین شامل ہیں،یہ سبھی شخصیات علم و فکر کی دنیا میں بلند مقام کی حامل ہیں اور انھوں نے امت کی ذہنی،فکری و علمی تربیت و فیض رسانی میں اپنی عمریں صرف کی ہیں۔ ان میں مفتی ظفیرالدین مفتاحی،مولانا محمد سالم قاسمی،مولانا اسلم قاسمی،مولانا ریاست علی بجنوری،مولانا عبدالحق اعظمی،مولانا اعجاز احمد اعظمی،مولانا یونس جونپوری،مولانا زبیر الحسن کاندھلوی،مفتی سعید احمد پالنپوری ،مولانا برہان الدین سنبھلی،مولانا محمد اویس القاسمی رائے پوری،مولانا واضح رشید ندوی،مولانا عبداللہ حسنی ندوی اور مولانا محمد قاسم مظفرپوری وغیرہ شامل ہیں۔ان میں سے زیادہ تر مضامین پہلے عربی میں لکھے گئے،ماہنامہ’’الداعی‘‘میں شائع ہوئے، پھر خود مولانا نے ہی انھیں اردو کے قالب میں ڈھالا ہے،جبکہ کچھ مضامین براہِ راست اردو میں لکھے گئے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ مولانا کے سحر انگیز طرزِ تحریر،دلکش نثر اور علم ریز و معلومات افزا انشا پردازی کے شائقین ان کی دوسری کتابوں کے مانند اسے بھی ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔ ابھی یہ کتاب پریس میں ہے،ان شاء اللہ چند دنوں میں منظرِ عام پر آ جائے گی۔ پیشگی آرڈر دینے کے لیے ادارۂ علم و ادب دیوبند سے اس نمبر9520255550 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

You may also like

Leave a Comment