(محمد صدیق المنشاوی کے 100 ویں یوم پیدائش پر خصوصی مضمون)
20 جنوری کا دن مجھ جیسوں کے لئے بہت اہم ہے۔مگراس سال 20 جنوری کی اہمیت اس لئے بڑھ جاتی ہے کہ تلاوتِ قرآن کی دنیامیں عالم اسلام کے مشہور قاری محمد صدیق المنشاوی کی پیدائش کو آج 100سال پورے ہوگئے ہیں۔
تلاوت قرآن کے ایک باذوق سامع کی حیثیت سے صدیق المنشاوی پر لکھنا میرے اوپر فرض تھا۔ایک عرصہ سے برادر خورد حافظ محفوظ محمد بھی اصرار کرتے آرہے ہیں کہ میں منشاوی مرحوم پر لکھوں۔پچھلے دنوں ان کی وفات کو 50سال پورے ہوئے تب بھی میں لکھ نہ سکا۔۔۔اب جب لکھ رہا ہوں تو ملک کے احوال اچھے نہیں ہیں اور ہر ذی شعور انسان اور خاص طورپر حساس قلم کار اس وقت ذہنی الجھنوں کے شکار ہیں۔۔۔ایسے میں صدیق منشاوی پر وہ تو شاید نہ لکھا جاسکے جس کی ان کی ذات مستحق ہے لیکن جو بھی لکھا جاسکے شاید اسی کی برکت سے موجودہ احوال میں جلد بہتری کی کوئی صورت نکل آئے۔
تجوید،مخارج اور صحت لفظی کی رعایت اور خوش الحانی کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کی معلوم ابتدا افریقی عرب ملک مصر سے ہی ہوئی۔مصر نے بڑے بڑے نامور قراء پیدا کئے۔ان میں مصطفی اسماعیل اور قاری عبدالباسط کے نام صف اول میں سب سے نمایاں مقام پر ہیں۔کہتے ہیں کہ قرائت قرآن کی موجودہ روش کے موجد مصطفی اسماعیل تھے۔وہ 17جون 1905کو پیدا ہوئے تھے۔جب وہ تلاوت کرتے تھے تو ان کے اردگرد جمع ہونے والے لوگ حیرت میں ڈوب جاتے تھے۔کیونکہ قرآن پاک کو اس طرح’ طرز اور غنائیت کے ساتھ پہلی بار وہ کسی کو پڑھتے ہوئے سن رہے تھے۔
اس فن کو مصطفی اسماعیل کے بعدشیخ محمد صدیق المنشاوی نے کمال کو پہنچا دیا۔گوکہ ان کے والد صدیق المنشاوی بھی اپنے وقت کے معروف قراء میں سے تھے لیکن جو شہرت وعظمت محمد صدیق المنشاوی کے حصہ میں آئی وہ قابل رشک تھی۔مصطفی اسماعیل کی طرز اب رائج نہیں ہے۔لیکن ان کی طرز منفرد تھی۔محمد صدیق المنشاوی نے جب قرائت قرآن شروع کی تو وہ لوگوں کے دلوں میں گھر کرتے چلے گئے۔واقعہ یہ ہے کہ بیسویں صدی میں منشاوی صاحب کا نام عالم اسلام کے باہر بھی گھر گھر میں زبان زد عام ہوگیا۔انہوں نے اپنے استاذ شیخ ابراہیم السعودی سے فن تجوید اور قرآئت کے اصول وضوابط سیکھے۔وہ سبعہ عشرہ کے ماہرین میں تھے۔سبعہ عشرہ در اصل عربی میں 17کے عدد کو کہتے ہیں۔لیکن فن تجوید وقرائت میں سبعہ عشرہ اس فن قرائت کا نام ہے جس میں آیات کے بعض حصوں کو اور خاص طورپراسماء اور صیغوں کو مختلف انداز میں پڑھاجاتا ہے۔لیکن اس سے معانی میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔
دراصل عربی زبان دنیا کی تمام زبانوں میں سب سے فصیح‘سب سے بلیغ اور سب سے وسیع زبان ہے۔یہ مسلم ملکوں میں زیادہ تر ممالک کی زبان ہے۔لیکن ہر ملک میں اس کا لہجہ اور انداز مختلف ہے۔مثال کے طورپر کہا جاتا ہے کہ سب سے فصیح عربی زبان ملک شام میں بولی جاتی ہے۔اسی طرح مختلف ملکوں کے اپنے لہجے بھی ہیں۔مثال کے طورپرافریقی عرب ممالک کا لہجہ قدرے ٹھیٹھ ہے۔لیکن خلیجی عرب ممالک کا لہجہ کچھ مہذب اور اشراف کا سا ہے۔۔۔ مصر میں عربی زبان کوئی بہت زیادہ فصیح نہیں ہے اور عام بول چال میں مصری لوگ جیم (ج) کی جگہ گاف (گ) کی آواز نکالتے ہیں۔عام شہری ہی نہیں پڑھے لکھے لوگ بھی عام گفتگو میں جیم کو گاف ہی ادا کرتے ہیں۔لیکن قرآن پاک کی تلاوت اور قرآئت کرتے ہوئے جیم کو جیم ہی پڑھتے ہیں۔ظاہر ہے کہ یہ قرآن کا ہی اعجاز ہے۔
ہم نے جس گھرانہ میں آنکھ کھولی وہاں کوئی گانا‘غزل نہیں سناجاتا تھا۔وہاں صرف قرائت قرآن پاک ہی سننے کو ملتی تھی۔شیخ مصطفی اسماعیل‘محمد صدیق المنشاوی اور قاری عبدالباسط کی تلاوت کی کیسٹیں الماری میں بھری پڑی تھیں۔فجر کے بعد تو بلا ناغہ ہر روز کا معمول تھا۔گھر کے سب لوگ بیٹھ کر منشاوی اور عبدالباسط صاحبان کو سنتے تھے۔اس سے بھی پہلے بڑا سا ریڈیو ہوتا تھا‘اس پر صبح کو مختلف قراء کی تلاوت آیا کرتی تھی۔ایران‘پاکستان‘بنگلہ دیش‘یہاں تک کہ مصر کے ریڈیو سے مختلف قراء کی تلاوت نشر کی جاتی تھی۔ریڈیو مکہ سے تو بہت بعد میں تلاوت شروع ہوئی۔بہر حال والد محترم تجوید کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کی اہمیت بتایا کرتے تھے۔اس لئے بچپن سے ہی یہ مزاج بن گیا تھا کہ اگر کوئی خلاف تجوید پڑھتا تھا تو بہت کوفت ہوتی تھی۔
ہر زبان کی اپنی حساسیت ہوتی ہے۔ عربی زبان سب سے زیادہ حساس زبان ہے۔وہ جتنی فصیح وبلیغ ہے اتنی ہی نزاکت سے مرصع بھی ہے۔ عربی میں تلفظ کا مسئلہ سب سے اہم ہے۔الف اور ع’ ہ ح اور ک اور ق کے فرق سے ترجمہ میں زمین وآسمان کا فرق پیدا ہوجاتا ہے۔ الحمد کا مطلب اگر تمام تعریف ہے تو الہمد کا مطلب لاش (نعش) ہے۔ آلمین اور عالمین کا ترجمہ بھی بہت مختلف ہے۔
جن لوگوں نے قرآن کو تجوید کے ساتھ نہیں پڑھا انہیں اس نزاکت اور حساسیت کا اندازہ تک نہیں ہو پاتا۔۔۔ لیکن جو لوگ تجوید سے واقف ہوتے ہیں انہیں مجہول قرائت سب سے زیادہ کھلتی اور اکھرتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ کوئی سر پر لٹھ مار رہا ہے اور دل پر چھری چلا رہا ہے۔
بہر حال قرآن پاک کو پڑھنے کے تین مختلف طریقے ہیں۔تجوید‘ترتیل اور حدر۔ترتیل وہ ہے جو عام طورپر قراء حضرات خوش الحانی اور تکلف کے ساتھ قرائت کرتے ہیں۔حدر بہت جلدی جلدی پڑھنے کو کہتے ہیں۔حالانکہ تجوید تو مستقل ایک فن کا نام ہے۔لیکن مذکورہ دونوں طریقوں کے درمیان کے فن کا نام بھی تجوید ہے۔
امام جزری فرماتے ہیں:
والاخذ بالتجوید حتم لازم_من لم یجود القرآن آثم۔ یعنی فن تجوید کا سیکھنا لازم ہے۔جو قرآن کو تجوید کے ساتھ نہ پڑھے وہ گناہ گار ہے۔
شیخ محمد صدیق المنشاوی ان چند قرامیں سرفہرست ہیں جنہوں نے قرآن پاک کو ان تینوں اصناف میں پڑھا ہے۔ان کی تجوید‘ترتیل اور حدر کی تلاوت کی کیسٹیں پوری دنیا میں فروخت ہوتی تھیں۔اب تو نئے زمانے اور نئی تکنیک نے کیسٹوں کی ضرورت ختم کردی ہے۔۔اب تو یوٹیوب پر اتنا مواد موجود ہے کہ شاید ہی کسی اور پلیٹ فارم پر اتنا مواد یکجا ملے۔منشاوی صاحب نے دنیا کے بہت سے ممالک کا سفر کیا اور اپنی تلاوت سے لوگوں کو مسحور کردیا۔اللہ کا کلام تو ہے ہی ایسا کہ جو سمجھ کر پڑھیں اور سن کر سمجھ لیں ان کی دنیا روشن ہوجاتی ہے لیکن جو سمجھ نہ سکیں ان پر بھی تلاوت کا اثر ہوتا ہے۔
مصر کے دو تین قراایسے ہوئے ہیں کہ جن کومصرکے کئی نامی حکمران اپنے غیر ملکی اسفار میں ساتھ لے گئے اور مہمان ملک کے حکمرانوں کے سامنے ان سے تلاوت کرائی۔ان قراء میں منشاوی صاحب کا بھی نام ہے۔انہوں نے مسجد اقصی اور حرمین شریفین میں بھی اپنی قرائت سے فرزندان توحید کو محظوظ کیا۔منشاوی صاحب کی ایک ممتاز صفت یہ تھی کہ انہوں نے قرآ ن پاک کو تجوید وقرائت سے پڑھنے کے سلسلہ میں بچوں پر بھی محنت کی۔لہذا آج بھی یوٹیوب پر ان کی ایسی آڈیوز موجود ہیں جن میں وہ بچوں کو تجوید وقرائت سے پڑھا رہے ہیں۔بعض بچوں نے تو ان کی تلاوت کی ہوبہو نقل کی اور ان کو سننے والے یہ سمجھنے لگے کہ شایدیہ آواز منشاوی صاحب کے بچپن کی آواز ہے۔
منشاوی صاحب کو مصر میں فن قرائت پر اتھارٹی مانا جاتا تھا اور اس سلسلہ میں ان کی آراء کو حرف آخر تسلیم کیا جاتا تھا۔انہوں نے فن قرائت‘ قرآنی علوم اور قرآن کے مختلف پہلوؤں پر بہت سی کتابیں بھی تحریر کیں۔ان کی تلاوت سن کر بہت سے عیسائیوں نے اسلام قبول کیا۔یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔امریکہ کی مشہور گلوکارہ جینفر گراؤٹ نے مراقش کی ایک فلم میں کام کیا تو وہ مراقشی عوام کے جذبہ خیر سگالی اور سخاوت وفیاضی سے بہت متاثر ہوئی۔
جینفر نے 2013 میں اسلام قبول کرلیا۔گوکہ یہ خبر 2014 میں ہی منظر عام پر آسکی۔لیکن جینفر پر قاری محمد صدیق المنشاوی کی تلاوت نے بہت زیادہ اثر کیا۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ آج جینفربھی ہوبہو منشاوی صاحب کی طرز میں تلاوت کرتی ہے۔اس کی ایک ویڈیو آج کل بہت گردش کر رہی ہے جس میں اس نے سورہ بقرہ کی آخری آیات—لایکلف اللہ نفسا الا وسعہا سے کافرین تک منشاوی صاحب کی ہی طرز میں قرائت کی ہے۔۔28دسمبر 2019 کو جینفر نے ایک جرنل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ قاری محمد صدیق المنشاوی میرے لئے دنیا کے سب سے ممتاز قاری ہیں۔
آج پوری دنیا میں شیخ منشاوی کی نقل کی جاتی ہے۔وہ محض خوش الحانی کے ساتھ قرائت ہی نہیں کرتے تھے بلکہ آیات کے مدوجزراور واقعات کے نشیب وفراز کو اپنے انداز میں بھی سموتے تھے۔جن آیات میں قیامت کا ذکر ہے منشاوی صاحب نے ان آیات کو مغموم انداز میں پڑھ کر ایمان کی حرارت تلاش کرنے والے سامعین کو ایک مستقل سامان فراہم کردیا ہے۔سورہ قاف (ق) کی وہ آیات جن میں قیامت کے دن کا ذکر ہے اور جس میں اللہ کے حضور بندوں اورشیطان کا مکالمہ ہوگا‘منشاوی صاحب نے اس انداز سے پڑھ دی ہیں کہ جو لوگ ترجمہ سمجھتے ہوں وہ روئے بغیر نہیں رہ سکتے۔شیطان کہے گا کہ اے اللہ میں نے اس کو(بندے کو) گمراہ نہیں کیااور وہ تو خود ہی گمراہ ہوگیا تھا۔ اللہ تعالی فرمائیں گے کہ میرے سامنے جھگڑو مت‘ میں نے تمہیں پہلے ہی انتباہ دیدیا تھا اور میری بات بدلتی نہیں۔۔۔اور نہ ہی میں اپنے بندوں پر ظلم کرتا ہوں۔
شیخ منشاوی کا انتقال محض 49 سال کی عمر میں ہوگیا تھا لیکن اتنی عمر میں ہی انہوں نے وہ تمام مقامات پڑھ دئے جو آج رائج ہیں ۔ آج بھی انہی کے حوالے دئے جاتے ہیں ۔
شیخ عبدالعزیز بن باز نے شیخ منشاوی کے تعلق سے کہا تھا کہ : اگر آپ قرآن کو اس طرح سننا چاہیں جس طرح وہ نازل ہوا تھا تو پوری توجہ کے ساتھ شیخ منشاوی کو سنیں۔ یہ ایک ایسی آواز ہے کہ جس سے آپ کبھی اکتائیں گے نہیں’ یہ آواز بالکل ایسی ہے جیسے صاف شفاف پانی کا بہتا ہوا چشمہ جو پیاسوں کی پیاس بجھا رہا ہے۔