نایاب حسن
قرآن کریم کاایک پہلو علمی ہے کہ اس کے ظاہری الفاظ و تعبیرات سے علوم و فنون کے مختلف پہلووں پر استدلال کیا جائے اور اس کا دوسرا پہلو خالص عملی اور انسان کی اجتماعی و انفرادی زندگی سے وابستہ ہے،قرآن کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ یہ ایک دائمی معجزہ ہے،جو ہمارے نبی پاکﷺکو دیاگیا تھااورتب کی فصیح و بلیغ عربی قوم سے لے کر آج تک کوئی بھی انسانی فردیا جماعت اس کی ایک آیت کا بھی مقابل ومماثل نہ پیش کر سکی۔آپ ؐسے پہلے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو لاٹھی کا معجزہ دیا گیا تھا ،کہ اس کو پتھر پر مارنے سے نہر جاری ہوجاتی یا اسے زمین پر پٹکتے تو وہ سانپ کی شکل اختیار کرلیتی،اسی طرح حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھوں میں لوہا موم ہوجایاکرتاتھا ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو یہ معجزہ عطا کیا گیا تھا کہ وہ بیماروں پر ہاتھ پھیردیتے ،تو وہ صحت مند ہوجاتے یا مردہ ان کے حکم سے زندہ ہوجاتا؛ لیکن آخری پیغمبر حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن کریم کاخالص علمی معجزہ دیا گیا ، یہ معجزہ قیامت تک کے لیے ہے ؛کیونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر انبیا کا سلسلہ ختم کردیا گیا،آپ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے، آپؐ کے ذریعے لایاگیا دین قیامت تک کے لیے ہے؛اس لیے آپ کا یہ معجزہ بھی قیامت تک کے لیے ہے، یہی وجہ ہے کہ آج چودہ صدی کے بعد بھی قرآن کی تعلیمات تازہ ہیں اور قرآن نے جوحقائق بیان کردیے ہیں، وہ حرف بہ حرف سچ ہیں۔ سائنس داں اورمحققین صدیوں کی ریسرچ اور کھوج کے بعد آج جو باتیں بیان کررہے ہیں ، ان میں سے بہت سی باتیں قرآن چودہ صدی قبل ہی بیان کرچکاہے ۔
قرآن پاک کی اسی ابدیت وجامعیت کے پیش نظر اس کے معارف و نکات کی تشریح و تفسیر پر اب تک دنیا بھرکی سیکڑوں زبانوں میں ہزاروں کتابیں لکھی جاچکی ہیں اوریہ سلسلہ تاہنوز جاری و ساری ہے،ماہرینِ علوم و فنون نے مختلف حوالوں سے قرآن کو اپنی تحقیق کا موضوع بنایا اور اس سمندر سے علم و فکر کے رنگا رنگ موتی نکالے ہیں۔ہندوستان کو اس حوالے سے ایک طرح کا امتیاز حاصل ہے کہ یہاں مختلف زمانوں میں بے شمار تراجمِ قرآن لکھے گئے،تفسیریں لکھی گئیں اور قرآن پاک کی توضیح و تبیین پر علماومفکرین کی ایک بڑی جماعت نے اپنا علمی،ذہنی و فکری سرمایہ صرف کیا۔
اِس وقت ہمارے پیش نظر پروفیسر غلام یحیٰ انجم صاحب کی مرتب کردہ کتاب’’قرآن کریم کے ہندوستانی تراجم و تفاسیر کا اجمالی جائزہ‘‘ہے، جس میں شروع سے لے کر اب تک ہندوستان بھر میں قرآنیات پر ہونے والے کام کا تحقیقی جائزہ لینے کی قابلِ قدر کوشش کی گئی ہے۔پروفیسر صاحب معاصر علمی حلقے میں خاصے متعارف ہیں ،جامعہ ہمدرددہلی میں شعبۂ اسلامک اسٹڈیز کے سربراہ اور بیس سے زائد مختلف علمی و تحقیقی کتابو ں کے مصنف و مرتب ہیں۔زیر نظر کتاب بھی ان کی غیر معمولی محنت و کاوش ، دقت نظری وبصیرت مندی کا نمونہ ہے،اس کتاب میں انھوں نے ہندوستان میں عربی و اردو کے علاوہ تیلگو، بنگلہ، سنسکرت، گورمکھی،کنڑ،سندھی،کشمیری،گجراتی،ہندی،انگریزی وغیرہ زبانوں میں ہونے والے قرآن کریم کے تراجم و تفاسیر کا تعارف پیش کیاہے،ان کے تعارف میں انھوں نے بلا تفریق تمام مسالک و مکاتبِ فکر کے علماکے ذریعے لکھی گئی کتابوں کو پیش نظررکھاہے،مسلمانوں کے علاوہ عیسائی اور قادیانی تراجم و تفاسیرِ قرآن بھی مؤلف کے زیر تذکرہ آئے ہیں۔کتاب کے مشمولات کی جامعیت و ہمہ گیریت کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے شروع سے اب تک قرآنیات پر ہونے والے کاموں کا تقریباً احاطہ کرلیا ہے اوران کی یہ کتاب ہندوستان میں قرآنیات کی تفہیم،تفسیر و تحقیق کے تعلق سے ایک بہترین انسائیکلوپیڈیا قراردیے جانے کے لائق ہے۔
کتاب کا آغازترتیب وار پانچ تقریظوں سے ہوا ہے،ان سے قبل مؤلف نے اپنے ابتدائیہ میں کتاب کی تالیف کے تعلق سے اپنی محنت،متعلقہ موضوع کی وقعت و گیرائی اور اس کتاب کے مشمولات پر مختصر گفتگو کی ہے۔مقدمہ میں مؤلف نے قرآن اور تفہیمِ قرآن کے تعلق سے مختلف علمی پہلووں پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے،سوصفحات میں پھیلا ہوا یہ مقدمہ علوم القرآن پر مؤلف کے درک و بصیرت کا آئینہ دار ہے اور قرآنِ کریم کے طالبِ علم کے لیے اس میں سیکھنے کے بہت سے پہلو ہیں،اس مقدمے میں فاضل مؤلف نے وحی کی اقسام،نزولِ قرآن کے مراحل،قرآن کریم کے نام،تلاوتِ قرآن کے آداب، ترجمہ، تفسیر، تاویل کی تعریف وتشریح،مفسرین کے طبقات ،مختلف زمانی مراحل میں لکھی جانے والی اہم تفاسیر کی نشان دہی اور ہندوستان میں تفسیر نویسی کے آغاز پر نہایت پر مغز اور علم ریز گفتگو کی ہے۔صفحہ نمبر۱۷۱؍سے اصل کتاب شروع ہوتی ہے،مختلف مرکزی عناوین کے تحت کتابوں کا تعارف پیش کیاگیا ہے،پہلا عنوان ہے ’’قرآن کریم کی ہندوستانی تفاسیر‘‘دوسرا عنوان ہے’’قرآن کریم کے بعض اجزاکی تفاسیر‘‘تیسراعنوان ہے ’’قرآن کریم کے اردوفارسی تراجم‘‘چوتھا عنوان ہے’’قرآن کریم کے منظوم تراجم و تفاسیر‘‘چھٹا عنوان ہے’’قرآن کریم کی آیاتِ احکام کی تفاسیر‘‘اس کے تحت بارہ کتابوں کا ذکر ہے،ساتواں عنوان ہے ’’تفاسیر قرآن کریم کی ہندوستانی شروح و حواشی اور تعلیقات‘‘اس کے تحت مختلف تفاسیر قرآن کی سو ہندوستانی شروح،حواشی وتعلیقات کا تعارف پیش کیا گیا ہے،آٹھواں عنوان ہے’’شیعی علماکے تراجم و تفاسیر‘‘اس کے تحت مختلف دور میں شیعی علماکے ذریعے کے کیے گئے ڈیڑھ سو سے زائد تراجم و تفاسیرِ قرآن کا ذکر ہے،نواں عنوان ہے’’قرآن کی موضوعی تفاسیر‘‘اس کے تحت آٹھ کتابوں کا تذکرہ ہے،دسواں عنوان ہے’’قرآن کریم کے قادیانی تراجم و تفاسیر‘‘اس کے تحت پندرہ کتابوں کا تعارف ہے،’’گیارہواں عنوان ہے’’عیسائی علماکے قرآنی تراجم‘‘اس کے تحت پانچ تراجمِ قرآنی اوران کے عیسائی مترجم کے نام نقل کیے گئے ہیں،بارہواں عنوان ہے’’قرآن کریم کے مختلف زبانوں میں تراجم‘‘جس میں مختلف زبانوں میں کیے گئے بہت سے تراجمِ قرآنی کا ذکر ہے ۔ تعارف میں عام طورپر زیر تذکرہ کتاب کا سن تالیف،مختصر تعارف،بعض مفسرین کے علمی مقام و مرتبہ کی تعیین اورکہیں کہیں نمونۂ ترجمہ و تفسیربھی درج کردیاگیا ہے، مؤلف نے حتی الامکان کوشش کی ہے کہ جس تفسیریا ترجمے کا ذکر کریں ،توساتھ میں کتاب اور صاحبِ کتاب کا مختصر تعارف بھی کرادیں،مگر اس کے باوجود بہت سی ایسی تفاسیر اور ترجمے رہ گئے،جن کے بارے میں مؤلف کوصرف کتاب اور مصنف کے نام کا پتا چل سکاہے،بہر کیف مجموعی طورپر یہ ایک غیر معمولی اہمیت کی حامل کتاب ہے اور اس سے ہندوستان میں(ماقبل ومابعدآزادی) گزشتہ سیکڑوں سال کے دوران قرآنیات پر ہونے والے کاموں کاایک خوب صورت خاکہ سامنے آجاتا ہے۔
بہت سی خوبیوں کے ساتھ اس کتاب میں بعض خامیاں بھی ہیں،حالاں کہ فی الجملہ کتاب کے اسلوب میں سلاست ووضاحت ہے،مگربعض جگہ زبان و بیان پیچیدہ ہوگیا ہے،کئی مقامات پر ایک کتاب کے تعارف کے دوران دوالگ الگ مراجع کے حوالے سے ایک ہی بات مکرر لکھی گئی ہے،صفحہ نمبر۲۸۵پر ’’اردوتفاسیر‘‘کے حوالے سے مولانایحی کاندھلوی سے منسوب تفسیر’’الکوکب الدری‘‘کا ذکرآیاہے،حالاں کہ ’’الکوکب الدری‘‘مولانا کی تفسیر نہیں ؛بلکہ عربی زبان میں سنن ترمذی کا نوٹ ہے،جسے بعد میں ان کے صاحبزادے مولانامحمد زکریاکاندھلوی نے اپنے حاشیے کے ساتھ دوجلدوں میں شائع کروایا ہے اور علم حدیث سے وابستگی رکھنے والے حلقوں میں مقبول و متداول ہے۔علی گڑھ سے ایک علمی و تحقیقی رسالہ’’تحقیقاتِ اسلامی‘‘کے نام سے جولائی ۱۹۸۲ء سے شائع ہورہاہے،اس کے موجودہ مدیر مولانا سید جلال الدین عمری اور معاون مدیرڈاکٹر رضی الاسلام ندوی ہیں،مؤلفِ محترم نے مولانا امین احسن اصلاحی کی تفسیر’’تدبرقرآن‘‘کا تعارف کراتے ہوئے اس رسالے میں شائع شدہ خورشید حسن رضوی کے مضمون کے حوالے سے تدبرقرآن کا تفسیری نمونہ پیش کیا ہے،مگر رسالے کانام وہ صفحہ نمبر۱۸۹؍پر’’تحقیقات‘‘اور اگلے صفحے پر’’سہ ماہی تعلیمات‘‘لکھ گئے ہیں،ظاہر ہے ایک تحقیقی تالیف میں اس قسم کی غلطی نظر انداز نہیں کی جاسکتی ،اسی طرح قرآن کریم کی آیتوں کی تعداد صفحہ نمبر۷۲؍پرچھ ہزار دوسوپچاسی لکھی ہے،جبکہ صفحہ نمبر۱۰۲؍پرچھ ہزار چھ سوچھیاسٹھ،حالاں کہ دوسری تعداد ہی زیادہ مشہور ہے،مگر فاضل مؤلف کو اپنی تحقیق کے مطابق کسی ایک ہی راجح تعداد کا ذکرکرنا تھا۔کئی جگہ عربی عبارتیں غلط املا میں لکھی گئی ہیں،جو یقیناً کمپوزنگ کی غلطیاں ہیں،مگر ان کی تصحیح ہونی چاہیے تھی،کئی اردو الفاظ بھی غلط کمپوزہوگئے ہیں،امید ہے کہ آیندہ ایڈیشن میں ان کی اصلاح کرلی جائے گی۔
بہر کیف پروفیسر غلام یحی انجم کی یہ کتاب ہندوستان میں علومِ قرآنی پر ہونے والے کاموں کا بھرپوراحاطہ کرتی ہے اور غالباً اردو زبان میں اپنی نوعیت کی یہ منفرد کتاب ہوگی،جس میں مختلف ادوارمیں مختلف طبقات ومکاتبِ فکر کے علماکے ذریعے کیے گئے قرآن پاک کے تراجم ،تفاسیرکا جامعیت کے ساتھ جائزہ پیش کیا گیاہے۔کتاب کی طباعت قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان کے ذریعے ۲۰۱۷ء میں ہوئی ہے ،طباعت معیاری،دیدہ زیب اور خوب صورت ہے، ۶۰۰؍سے زائد صفحات پر مشتمل اس گراں قدر کتاب کی قیمت۲۶۰؍روپے نہایت مناسب ہے۔ امید ہے کہ موصوف کی یہ کتاب قرآنیات سے دلچسپی رکھنے والوں کے لیے گنجِ گراں مایہ اور آیندہ اس موضوع پر کام کرنے والوں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوگی۔
قرآن کریم کے ہندوستانی تراجم و تفاسیر کا اجمالی جائزہ
previous post