Home نقدوتبصرہ سہ ماہی ادبی نشیمن کا تازہ شمارہ: ایک جائزہ- ایس معشوق احمد

سہ ماہی ادبی نشیمن کا تازہ شمارہ: ایک جائزہ- ایس معشوق احمد

by قندیل

رابطہ : 8493981240
لکھنؤ ابتدا سے ہی علم و ادب کا مرکز رہا ہے۔اس علمی گہوارے سے متعدد رسائل وجرائد شائع ہوتے رہے ہیںجن کی چمک سے ادبی دنیا ایک عرصہ تک روشن رہی۔آج بھی اس ادب نگری سے ایک علمی رسالہ ادبی نشیمن کے نام سے ڈاکٹر سلیم احمد کی ادارت میں شائع ہورہا ہے۔یہ سہ ماہی رسالہ لکھنؤ کے ساتھ ساتھ پوری ادبی دنیا سے وابستہ قارئین کی ذہنی آبیاری کررہا ہے۔ اس کا تازہ شمارہ (دسمبر تا فروری ۲۰۲۳ ) چند روز قبل موصول ہوا، اس خوبصورت تحفےکے لیے میں رسالے کے ایڈیٹر اور منتظمین کا ممنون ہوں۔ سرورق پر حجاب اوڑھے ایک نو عمر لڑکی کی الوسٹریٹدتصویر ہے۔یہ لڑکی کون ہے ؟ رواں سال کے فروری ماہ میں کرناٹک کے کئی کالجوں میں حجاب کو لے کر طلبہ اور انتظامیہ کے درمیان پیدا ہوئے اختلافات نے شدت اختیار کرلی اور ایک منصوبہ بند سازش کے تحت حجاب کا مقابلہ زعفرانی شالوں سے کیا جانے لگا۔ ۸/ فروری کو کرناٹک کے قصبہ ”منڈیا“ میں واقع پی ای ایس کالج آف آرٹس، سائنس اینڈ کامرس کی طالبہ” مسکان خان بنت محمد حسین خان“ کالج کے احاطے میں برقع پہنے داخل ہوئی تواسے سینکڑوں ہندوتواوادی کارکنوں نے روکنے کی کوشش کی اور زعفرانی شالیں لہراتے ہوئے جے شری رام کے نعرے لگائے جس کے جواب میں مسکان خان نے ہمت جرات اور دینی غیرت و حمیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دشمنانِ اسلام کے نرغے میں ”اللہ اکبر“ کا جوابی نعرہ بلند کیا۔ اس کارنامے پر اس بہادر طالبہ کو ”شیرنی“ کا خطاب دیا گیا۔ادبی نشیمن نے اس کی ہمت و جرات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئےمشہور خطاط اور مصور عبدالکریم(کالی کٹ) کے ذریعے بنائی گئی اس کی الوسٹریٹد تصویر شمارے کے سرورق پر شائع کی اور ساتھ ہی ” جلال حسن “کے عنوان سے ”سفر نقوی“ کی لکھی نظم کو بھی سرورق کا حصہ بنایا۔ ہمت و بے باکی کی نمائندگی کرتا یہ سرورق دیدہ زیب بھی ہے اوربہادر بیٹی مسکان کے لیے ادبی برادری کی طرف سے خوبصورت سا خراج تحسین بھی ۔
چونکہ ادبی نشیمن نے اپنے سفر کے پانچ سال مکمل کر لیے ہیں ، اس مناسبت سے رسالے کو موصول مشاہیر ادب کے تہنیتی پیغامات میں سے چند (پروفیسر شارب ردولوی، پروفیسر شمس الہدیٰ، پروفیسر اسلم جمشیدپوری اور ڈاکٹر مشتاق صدف) کےتاثرات اس شمارے کی زینت ہیں جس سے اس رسالے کی مقبولیت و افادیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ رسالے کے بیک کور میںدستاویز کے طور پر ڈاکٹر رضیہ حامد کی کتاب” نواب سلطان جہاں بیگم“ کی تصویر اور اس حوالے سے نواب صاحبہ کی علمی ، ادبی و رفاہی خدمات کے تعلق سے مفید معلومات درج ہیں۔اس کے علاوہ ادبی نشیمن کے دفتر میں موصول کتابوں میں سے بارہ کے سرورق کو بھی رسالے بیک کور کے اندر والے صفحے پرشائع کیا گیا ہے۔ اس سے اس کی افادیت بڑھ گئی ہے اورمتعلقہ کتب کے مصنفین کی حوصلہ افزائی کا سامان بھی ہوگیا ہے۔
تازہ شمارے کو چھ حصوں میں تقسیم کیا گیاہے۔ پہلے حصے میں ایک حمد(فرحانہ نازنین) اور ایک نعت شریف (محمد عثمان عازم)درج ہیں ۔ اس کے ساتھ ہی اداریہ میں ایڈیٹر صاحب نے علامہ اقبال کی یومِ ولادت سے بات شروع کرتے ہوئے ادبی نشیمن کے تازہ شمارے کے مشتملات پرگفتگو کی ہے اور ہماری ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہا ہے کہ ہمیں عالمی یوم اردو کے ساتھ ساتھ ۲۰ / مارچ کو” یوم تحفظ اردو“ بھی منانی چاہیے کہ اسی دن کانپور میں دو محبان اردو نے اردو کی بقاء کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے بھوک ہڑتال کی تھی اور بعد میں یہ دونوں مجاہدین نے اردو کے لیے جانی قربانی بھی دے دی تھی۔دوسرے حصے میں نو تنقیدی و تحقیقی مضامین کو شامل ہیں۔ پہلا مضمون ”اردوکی نشو و نما میں فارسی اور تاجکی زبان کا رول “ پدم شری پروفیسر رجبوف حبیب اللہ کا ہے جس کو انگریزی سے اردو کا جامہ ڈاکٹر مشتاق صدف نے پہنایا ہے۔ مضمون میں فارسی اور تاجکی زبان نے اردو کی بالیدگی میں کیا رول نبھایا ہے ، اسے موضوع بنایا گیاہے۔فارسی حکمرانوں نےجو کردار اردو ذخیرہ الفاظ میں اضافہ کے لیے نبھایا، اس کو بھی موضوع بنایا گیا ہے۔تاجکی زبان کےجو الفاظ اور کہاوتیں اردو میں مستعمل ہیں ، ان کی نشاندہی مثالوں کے ساتھ کی گئی ہے اور یہ دعوی کیا گیا ہے کہ ارود کے تقریبا ساٹھ فیصد الفاظ فارسی اور تاجکی زبان سے مستعار ہیں۔دوسرا مضمون ”خطیب گلشن آبادی کی غزل گوئی “ ڈاکٹر نارائن پاٹیدار کے قلم سے ہے۔اس مضمون میں خطیب کی حالات زندگی ، چار شعری مجموعوں قطرہ قطرہ خون ( 1992) ، مشاہدہ (2001) ، نذرانہ (2002، حمد، نعت، منقبت اور سلام کا انتخاب ) اور محامد باری تعالی (2003) کے ذکر کے علاوہ خطیب کی عمومی شاعری کا تنقیدی جائزہ لیا گیا ہے۔خطیب کی غزل گوئی کے حوالے سے یہ ایک موثر مضمون ہے۔اس حصے کا تیسرا مضمون شبیر احمد کے ناول ہجورآما کے حوالے سے ہے۔مضمون ”ہجورآما : ایک تنقیدی جائزہ“ میں ڈاکٹر سفینہ بیگم نے اس ناول کے اختصاصات کا جائزہ لیا ہے ۔مضمون کی خوبی یہ ہے کہ اس میں اس سماج کا بھی ذکر کیا گیا ہے جو اس ناول کا محرک بنا۔ ناول کا موضوع ، کردار نگاری ، زبان و بیان اور پلاٹ پر بھی بات ہوئی ہے۔اس حصے کے بہترین مضامین میںسے ایک” رئیس المتغزلین حسرت موہانی کی غزل گوئی “ پر ہے۔ ڈاکٹر شبانہ نکہت انصاری نےاپنے اس مضمون میں حسرت کی غزل گوئی کا علمی انداز میں محاکمہ کیاہے اور اپنی بات کو موثر بناتے ہوئے آل احمد سرور اور ڈاکٹر سید عبداللہ کے اقوال پیش کئے ہیں۔حسرت موہانی نے جس انداز میں غزل کی نوک پلک سنواری ہے، اس کے حوالے سے لکھتی ہیں کہ :
”حسرت نے جن ناموافق اور نازک حالات میں اردو غزل کو سنبھال کر رکھا ،وہ لائق ذکر کارنامہ ہے۔موصوف کے اس فنکارانہ سہارے سے کسی طور چشم پوشی نہیں کی جاسکتی۔غزل میں دہلی اور لکھنؤدبستانوں کی رنگارنگی ، حق گوئی ، صداقت پسندی ، چلتے پھرتے محبوب سے غزل کی روشناسی وغیرہ جیسی ان کی خدمات کے تحت یہ کہنا مناسب ہوگا کہ وہ اردو غزل کے نئے دور کے محافظ ہیں۔“ (جدید اردو غزل کی آبرو : حسرت موہانی ، صفحہ: ۱۸ )۔
اس حصے کا ایک اہم مضمون” وفیات برہان : ایک قیمتی دستاویز “ہے۔ محمد اویس سنبھلی نے اس مضمون میں وفیات نگاری اور تعزیتی تحریروں کی مختصر تاریخ اور مولانا سعید احمد اکبر جو ماہنامہ برہان کا اداریہ لکھتے تھے کی ”وفیات برہان “کا جائزہ لیا ہے۔اس حصے کا چھٹا تحقیقی و تنقیدی مضمون” بہار میں اردو غزل : سمت و رفتار“ ڈاکٹر محمد شرف عالم کا ہے۔اس مضمون میں بہار سے تعلق رکھنے والے شعراء کی غزل گوئی کا جائزہ لیا گیا ہے۔اکبر الہ آبادی کی مزاحیہ شاعری سے کون واقف نہیں ۔ڈاکٹر ناظم حسین خان نے ” اکبر الہ آبادی کا نظریہ فکر اور شاعری “ نامی مضمون میں۔ اکبر کی فکر ، حساسیت ، زبان و بیان ، قومی شاعری کا تذکرہ ، ان کے کلام میں معاملہ بندی ، برجستگی ، کیف و سرور ، شائستگی اور ان کے نظریات کو موضوع بنایا گیاہے۔اس حصے کا ساتواں مضمون ” 1960 ء کے بعد خواتین افسانہ نگاروں کے افسانوں کا جائزہ “ ڈاکٹر شاہینہ عبید خان کے جنبش قلم کا نتیجہ ہے۔اس تحقیقی و تنقیدی مضمون میں عصمت چغتائی، جیلانی بانو ، ممتاز شیریں ، قرۃ العین حیدر ، نگار عظیم ، ذکیہ مشہدی ، ترنم ریاض ، ثروت خان وغیرہ کی افسانہ نگاری، ان کے افسانوں کے موضوعات ، ان کے یہاں نفسیاتی ، جنسیاتی، سیاسی اور معاشی مسائل کی عکاسی ، ان کے مخصوص اسالیب اور زبان و بیان کو موضوع بنایا گیا ہے۔اس حصے کا آٹھواں مضمون”ڈاکٹر محمد اسد اللہ کی انشائیہ نگاری “ تبسم آرا کے قلم سے نکلا ہے۔یہ مختصر مضمون محمد اسد اللہ کی انشائیہ نگاری کے حوالے سے اہم ہے کہ اس میں ان کے انشائیوں کے مجموعوں کے علاوہ ان کے انشائیوں کی زبان اور عنوانات پر بھی بات ہوئی ہے۔اس حصے کا آخری مضمون سفیان احمد انصاری کا”غالب کاسفرِ کلکتہ اور اس کے محرکات : ایک جائزہ “ہے۔عنوان سے ہی ظاہر ہے کہ اس میں مرزا غالب کے سفر کلکتہ کے حوالے سے کچھ چھپی معلومات بہم پہنچائی گئی ہیں۔
تیسرے حصے کا عنوان” خراج عقیدت “رکھا گیا ہے اور اس میں مزید چار مضامین شامل ہیں۔اس حصے میں تین مرحوم فنکاروں کو یاد کرکے ان کے قدموں میں عقیدت کے پھول نچھاور کیے گئے ہیں جن میں رباب رشیدی پر دو مضمون (بقلم احمد ابراہیم علوی اور رضوان احمد فاروقی) کے ساتھ ساتھ پروفیسر اصغر عباس(بقلم ڈاکٹر غلام حسین) اور رفعت عزمی( بقلم فرید بلگرامی) پر ایک ایک مضمون شامل ہیں۔مضمون نگاروںنے اپنے اپنے ممدوحین کی خوبیوں کو یاد کر تے ہوئے ان کے فکر و فن کے حوالے سے اہم معلومات فراہم کی ہیں۔ چوتھے حصے میں پانچ افسانے ”ضرورت“ از رئیس صدیقی ، ”تجارت “ از اشفاق برادر ،” بھگوان کی دیوالی “ از تنویر اختر رومانی ، ”امید نو“ از فاکہہ قمر ( پاکستان ) اور” ایک جادو گر“ از عقبی حمید شامل ہیں۔ پانچویں حصے میں غزلیات کو شامل ہیں۔ دیپک روحانی کی مناجات اور صدام حسین نازاں کی نعت پاک کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر اختر ریاض ، ڈاکٹر عرفان بالغ ، نوشاد اشہر ، شمیم احمد شمیم ،کوثر تسنیم کی غزلیات کے علاوہ جمیل اختر شفیق کی خوبصورت نظم” سجدے میں“ ، مشیر احمد مشیر کی نظم” سیلفی “اور شاد اعظمی ندوی کی مہجری نظم ” گمشد شناخت “ شامل ہیں۔رسالہ کا آخری حصہ تبصروں پر مشتمل ہے اور قارئین کے تاثرات کو بھی اس حصے میں جگہ دی گئی ہے۔اس حصے میں دو تبصروں ”کلیات آزور لکھنوی“ از ڈاکٹر اسرار الحق قریشی پر محسن عظیم انصاری کا تبصرہ اور ”رشید حسن خان کی ادبی جہات“ از ڈاکٹر ابراہیم افسرپرمحمد سعید اختر کا تبصرہ متعلقہ کتب کا بھرپور تعارف پیش کرتا ہے۔ اس کے علاوہ مراسلات کے کالم کے تحت ڈاکٹر عبدالحق امام، پروفیسر مقبول احمد مقبول ، جمال اظہر صدیقی اور اقراء قاضی کے چارتاثراتی خطوط بھی شامل ہیں۔
مجموعی طور پر رسالے کا مزاج تنقیدی ہے کہ اس میں تیرہ تنقیدی و تحقیقی مضامین اور دو تبصرے شائع ہوئے ہیں جبکہ تخلیقی ادب کو کم جگہ دی گئی ہے ۔ رسالے میں کل ایک حمد ، دو نعت پاک ، ایک مناجات ، پانچ افسانے ،پانچ غزلیں اور تین نظمیں شائع ہوئی ہیں۔ رسالہ مختصر سا ہے کل چونسٹھ صفحات پر مشتمل ۔ اگر چند صفحوں کا مزید اضافہ کیا جائے تو انشائیوں اور خاکوںجیسے اصناف کی بھی شمولیت ہو سکتی ہے۔ ان اصناف کا مطالعہ یقینا قارئین کی دلچسپی سے مبرا نہ ہوگا ۔ یہ ادبی نشیمن جیسے مقبول اور جدید ادب کا ترجمان رسالے کے لیے ضروری بھی ہے کہ ان اصناف کو کم وبیش تمام ہی رسالے نظر انداز کرتے آ رہے ہیں۔امید ہے رسالے کے وابستگان اس امر کی طرف خصوصی توجہ دیں گے۔

You may also like

Leave a Comment