"مسلم پرسنل لا میں اصلاحات” اور "یونیفارم سول کوڈ” دو الگ الگ ایشوز ہیں ۔
مرکزی حکومت نے بعض سیاسی وجوہات کی بنا پر آنے والے الیکشن سے قبل، یونیفارم سول کوڈ کو قانون کی شکل دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ اس کے تحت بائیسویں لا کمیشن کی تشکیل کر کے ملک کے شہریوں سے اس بابت ان کے مشورے بھی طلب کیے ہیں۔ یہ مشورے ممبر سکریٹری، لا کمیشن آف انڈیا (ایل۔ سی۔آئی) کے نام ای میل کرنے ہیں۔
بھگوائی جماعتوں کا ہمیشہ ہی یو سی سی پر اصرار رہا ہے۔ مسلمانوں کا (ایک بڑا؟) حصہ کچھ اس طرح سے رد عمل کرتا رہا ہے جیسے مانو یو سی سی کا سیدھا حملہ صرف مسلم پرسنل لا پر ہی ہو گا۔ لہذا چند مسلم لیڈران، بالخصوص علمائے دین، مرکزی حکومت کی جانب سے مانگے گئے ان مشوروں کو ریفرنڈم یا پلیبیسیٹ کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ مساجد میں اعلانات کرکے اور سوشل میڈیا کا استعمال کر کے سرے سے یو سی سی کو خارج کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ بھگوائی جماعتوں کو پولرائزیشن چاہیے تھا، تاکہ وہ اپنے ووٹروں کو یہ بتا سکے کہ مسلمانوں کو پریشان رکھنے کا ایجنڈا نافذ ہے، لہذا اسی جماعت کو اگلے انتخابات میں پھر سے ووٹ دے کر اقتدار سونپ دو۔
اب سوال یہ ہے کہ، اگرحکومت، صرف مسلم پرسنل لا میں اصلاحات کی بات کرے، تو مسلمان کیا کریں گے؟ کیا وہ ایمانداری سے اصلاحات کے لیے آمادہ ہیں؟
سنہ 1950ء کی دہائی میں جواہر لال نہرو نے سمبولک ہی سہی ہندو پرسنل لا میں کچھ اصلاحات کئے۔ اس وقت دائیں محاذ کے ہندو اکثریت پسندوں نے، ہندو پرسنل لا میں کیے جانے والے اصلاحات کی راہ میں رکاوٹ ڈالنے کی شاطرانہ حکمت عملی کے تحت یو سی سی کی بات کی تھی۔ یعنی یو سی سی کے تئیں ایماندارانہ جذبہ نہرو کے ان مخالفین میں قطعی نہیں تھا۔ ان لوگوں نے نہرو کی تنقید اس بات پر بھی کی کہ نہرو نے مسلم پرسنل لا میں اصلاحات کو التوا میں کیوں رکھ دیا؛ یہ تو مسلم تشٹیکرن ہے۔
نہرو کی رائے تھی کہ اقلیتوں کے اندر اصلاح خود ان کے درمیان سے ہی ہو اور ان کی مانگ پر ہی حکومت کی مداخلت ہو۔ افسوس یہ ہے کہ ہمارے علما ان اصلاحات کے مخالف رہے اور اب بھی مخالف ہیں۔ راقم السطور کی ذاتی رائے یہ ہے کہ آج بھی، یو سی سی کی مخالفت کے نام پر در اصل مسلم پرسنل لا میں اصلاحات کی مخالفت ہو رہی ہے، اور ہندوتوا کی سیاست کو دانستہ یا غیر دانستہ طور پر توانائی فراہم کی جا رہی ہے۔
سنہ 1973ء میں مسلم پرسنل لا بورڈ کے قیام کی فوری وجہ یہ تھی کہ سنہ 1972ء میں بچہ گود لیے جانے پر ایک ترمیمی قانون بنا دیا گیا تھا۔ گرچہ تب اس قانون کا اطلاق براہ راست اور واضح طور پر مسلمانوں پر نہیں تھا۔ پھر بھی مسلمانوں کی جانب سے احتجاجات کیے گئے تھے۔
واضح رہے کہ "ایڈوپشن” اور "کسٹڈی” میں واضح فرق ہے۔ جس طرح سیکولر قانون میں کسٹڈی کے سوال پر، بچہ کے ویلفئر اور بچہ کی مرضی کا دخل ہے، اسی طرح نبی کریم صلعم کے گود لئے ہوئے بیٹے حضرت زید کو ان کے بایولاجیکل والد حارثہ کے ساتھ نہیں جانے دیا گیا۔ حضرت زید کی مرضی سے وہ نبی کریم کی کسٹڈی ہی میں رہے۔ جہاں تک ایڈوپشن کا سوال ہے، تو قرآن کریم میں صرف بچہ کی ولدیت نہ چھپائے جانے کی بات کہی گئی ہے۔ اسی لیے حضرت زید بن محمد کو زید بن حارثہ کہا جانے لگا۔ لیکن وہ نبی کریم کی فیملی ہی کا حصہ بنے رہے۔ اس واضح تاریخی حقیقت کے باوجود مسلم پرسنل لا بورڈ نے ایسی کوئی اصلاح نہیں کی اور عدالتیں، گود لینے والے لا ولد والدین کے خلاف فیصلے سناتی رہتی ہیں۔ حالاں کہ چند دنوں قبل پاکستان سپریم کورٹ نے تو لے پالک کے حق میں ہی فیصلہ سنایا ہے۔ بھارت کی عدالتیں، مسلم پرسنل لا کے نام پر گمراہی کا شکار ہیں۔ عجیب بات یہ بھی ہے کہ بیش تر معاملات میں بچہ دے دینے کے بعد جب بلیک میل کرنا ہوتا ہے تب پرسنل لا کے نام پر بچہ واپس لینے کی بات ہوتی ہے۔ اگر یہ عمل پرسنل لا کے خلاف ہے تو پھر بچہ دینے والے کو بھی تو سخت، مثالی سزائیں دینے کے قوانین ہونے چاہئیں، کہ ایا، انہوں نے اپنا بچہ گود کیوں دیا! عجیب تفریق یہ ہے کہ ہندو کے لیے معاہدے کا دستخط شدہ کاغذ ہی کافی ہوتا ہے، جب کہ مسلم معاملے میں دستخط شدہ عدالتی معاہدہ بھی بے معنی قرار دے دیا جاتا ہے اور کسٹڈی بدل کر بچے کو نفسیاتی اور سبھی اعتبار سے برباد کر دیا جاتا ہے۔
غیر قرآنی فوری طلاق ثلاثہ کے سوال پر بھی شاہ بانو سے لے کر اب تک لا بورڈ نے ضد پکڑی ہوئی ہے کہ اصلاح نہیں کریں گے۔ بیش تر اسلامی ممالک نے اصلاح کردیا ہے، پھر بھی ہٹ دھرمی والی کٹھ دلیلی جاری ہے کہ وہ ممالک ہمارا معیار نہیں ہیں۔ (ارے بھائی، یہ حق اور اختیار آپ کو کس نے دے دیا۔ اسلامی ممالک نے اگر غیر اسلامی قوانین بنائے ہیں، تو جائیے وہاں، اور وہاں جاکر جہاد چھیڑ دیجیے)۔
یہ کم لوگوں کو معلوم ہے کہ محمد احمد خاں نے دوسری شادی کر لینے کے بعد 62 سال کی ضعیفہ، پہلی بیوی شاہ بانو کو گھر سے نکال دیا۔ شاہ بانو نے مینٹینینس کے لئے اندور کی نچلی عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ عدالت نے مینٹینینس کا انٹرم آرڈر دے دیا۔ اور مزید سماعت کے دوران جب جج نے کہا کہ مینٹینینس تو اس لیے بھی دینا پڑے گا کہ سیکولر قانون کے علاوہ، پرسنل لا کے اعتبار سے بھی یہ ان کا حق ہے۔ تب، عدالت ہی کے اندر، محمد احمد خاں (اندور کے امیر اور طاقت ور وکیل) نے جج کے سامنے غیر قرآنی فوری طلاق ثلاثہ کا طمانچہ اس ضعیفہ کے منہہ پر دے مارا۔ یہ سانحہ 6 نومبر 1978 کو ہوا تھا۔ اس کے بعد یہ معاملہ اونچی عدالتوں تک پہنچا۔ یعنی بنیادی طور سے یہ معاملہ مینٹینینس دینے اور نہ دینے کا تھا۔ محمد احمد خاں کی دوسری شادی کس حد تک شرعی تھی، وہ سوال تو آج تک اٹھایا ہی نہیں گیا۔
وراثت (اور غیر قرآنی فوری طلاق ثلاثہ) کے سوالوں پر مندرجہ ذیل تاریخی حقیقت بھی ضرور یاد رکھیے:
جب سنہ 1930ء کی دہائ میں، محمد علی جناح شریعت ایکٹ کا ڈرافٹ تیار کروا رہے تھے، تبھی سکندر حیات خاں (وزیر اعلی، غیر منقسم پنجاب) کے گھرانے کی ایک بیٹی نے شریعت کے اعتبار سے موروثی زمینوں میں اپنا حصہ مانگ ڈالا۔ تب ہٹ دھرمی والی دو (کٹھ) دلیلیں یہ دی گئیں کہ:
1۔ علاقائی رواج ہی قانون ہے، اور علاقائی رواج میں بیٹیوں کو زمین میں کوئی حق نہیں ہے؛
2۔ زراعت و زمین کا مسئلہ صوبائی لیجسلیچر کا ہے، جب کہ شریعت ایکٹ مرکزی لیجسلیچر کا ہے۔
مندرجہ بالا مکارانہ دلیلیں دینے والے جناح نے شریعت ایکٹ 1937 بنوایا۔ اسی ایکٹ کو عین دین بتلا کر ہندوستان کے دینی علما پوری قوم کو گمراہ کر رہے ہیں، جب کہ جناح کے مملکت خداداد پاکستان میں خود اس میں سے کئ قوانین (بالخصوص غیر قرآنی فوری طلاق ثلاثہ اور نان و نفقہ کے سوال) کو 1962ء ہی میں اصلاح کر دیا گیا۔ اس کے باوجود، سنہ 1986ء میں بھارت میں شاہ بانو کے خلاف ظلم کیا گیا۔ ایسا ظلم ہنوز برقرار رکھا جا رہا ہے۔ مودی نے 2019ء میں فوری طلاق ثلاثہ کو کریمینلائز کر دیا تو مرچی لگ رہی ہے۔
اب آپ معلوم کرتے رہئے کہ 1937ء کے شریعت ایکٹ پر مولانا مدنی اور مولانا آزاد اور مولانا مودودی، 1937 میں، کیا فرما رہے تھے؟ یا کیوں خاموش تھے؟
یہ بھی یاد رکھیے کہ جناح نے شریعت ایکٹ 1937ء میں، مسلمانوں کو سیاسی طور پر متحد کر کے ملک کو تقسیم کروا کر، پاکستان حاصل کر کے، بہار، یوپی جیسے صوبوں کے مسلمانوں کی، آزادی ملک و تقسیم کے بعد بد حال چھوڑنے کی تیاری شدو مد سے کر رہے تھے۔ اس تعلق سے مولانا ابوالمحاسن سجاد، مولانا حفظ الرحمان سیوہاروی، طفیل احمد منگلوری، مولانا حسین احمد مدنی وغیرہ کے سوالوں کا تو جواب بھی دینا جناح صاحب اپنے شایان شان نہیں سمجھتے تھے۔
مزید سلاست و صراحت کر دوں۔ شریعت ایکٹ 1937 جناح کے لیے محض ایک سیاسی ہتھیار تھا، جس سے ملک کا بنٹوارہ کروا دینا ان کے لئے مزید آسان ہو جائے اور یہی ہوا۔
لہذا لا کمیشن آف انڈیا کے ممبر سکریٹری کے نام، یہ خط ای میل سے بھیجا جانا ضروری ہے۔
بخدمت
جناب ممبر سکریٹری
لا کمیشن آف انڈیا (بائیسواں)
آں جناب کی خدمت میں عرض ہے کہ مسلم پرسنل لا میں مندرجہ ذیل اصلاحات کے لئے قوانین بنانے پر غور کیا جائے۔ (ہم، سر دست، یو سی سی کے تعلق سے کوئی موقف اس لئے نہیں رکھ رہے ہیں کہ اس کا کوئی مجوزہ ڈرافٹ اب تک حکومت کی جانب سے نہیں آیا ہے۔)
1۔ غیر قرآنی فوری طلاق ثلاثہ کو کریمینلائز کرنے سے اتنا تو ہوا ہے کہ طلاق دینا آسان نہیں رہا مردوں کے لئے، لیکن عورتوں کے مینٹینینس کا سوال اب بھی وضاحت طلب ہے۔ حکومت قانون بنا کر یہ واضح کر دے کہ تعزیرات ہند کے سیکشن 125 کا اطلاق مسلم عورتوں پر بھی ہوگا۔ واضح رہے کہ، سنہ 1986ء میں علما و دیگر مسلم ممبران پارلیمنٹ کی جو ملاقات آں وقتی وزیر اعظم راجیو گاندھی سے ہوئی تھی، اس میں مسلمانوں نے یہ وعدہ کیا تھا کہ وقف کی جائیداد یا کسی اور طریقے سے شاہ بانو جیسی مطلقہ عورتوں کے مینٹینینس کا انتظام کیا جائے گا۔ یہ بات علی میاں ندوی (1914-1999) کی آپ بیتی، کاروان زندگی (1988)، کی تیسری جلد کے چوتھے باب میں صاف صاف لکھی ہوئی ہے۔ عجیب بات ہے کہ مرحوم علی میاں ندوی جنوری 1986 سے سنہ 1999ء، یعنی اپنی موت تک، اس وعدے کو بھولے رہنا ہی ایمان داری کی بات سمجھتےرہے۔ ان کے ساتھ دیگر عمائدین و رہنما، جو اس وفد کے حصہ تھے، انہوں نے بھی یہی کیا۔ پھر شاہ بانو جیسے لاتعداد معاملات آتے رہے، لیکن علما اپنی ہٹ دھرمی پر ہنوز قائم ہیں۔ یہاں تک کہ ماڈل نکاح نامہ اور اس پر طلاق ثلاثہ سے باز رہنے کا دستخط شدہ وعدہ والا کالم بھی اب تک التوا میں ہے۔ جب کہ لا بورڈ کے ترجمان (لکھنؤ، ٹائمس آف انڈیا، 3 فروری 2018) نے یہ وعدہ کیا تھا، لیکن محض ایک ہفتہ میں، حیدرآباد میں منعقد 26 ویں اجلاس (9 تا 11 فروری 2018) تک پہنچتے پہنچتے، یہ وعدہ بھی فراموش کر دیا گیا۔ یہ ہے ہمارے دینی علما کا کردار!
2۔ عدالتیں، مسلمانوں کے معاملات میں "کسٹڈی” اور "ایڈوپشن” میں تفریق نہیں کرتی ہیں۔ حکومت سے درخواست ہے کہ قانون بنا کر یہ واضح کر دیا جائے کہ گارجیئن اینڈ وارڈ ایکٹ 1890ء کا اطلاق ہندوؤں کے علاوہ مسلمانوں اور عیسائیوں پر بھی ہوگا۔ گرچہ جنوری 2016 سے جووینائل جسٹس ایکٹ کی ترمیم شدہ شکل نے یہ مسئلہ بڑی حد تک حل کر دیا ہے۔
3۔ دادا کی حیات میں والد کی موت پر بچوں کو موروثی جائیداد کے حق سے محروم کر دیا جاتا ہے۔ مسلم پرسنل لا کے اس قانون کو ختم کر دیا جائے۔
4۔ شادی، طلاق، موت، سبھی کا عدالتی رجسٹریشن لازمی قرار دیا جائے۔
5۔ جن مسلم والدین کو صرف بیٹیاں ہیں، ان کی موت پر، ان کی بیٹیوں کو پورا حق نہیں ملتا ہے، بلکہ ان کے والدین کی جائیداد میں دیگر رشتہ داروں کا بھی حق بھی شامل ہو جاتا ہے۔ اسے ختم کیا جائے۔
6۔ جو لااولاد ہیں، ان کی وصیت کے باوجود، ایک تہائی سے زیادہ کی وصیت رد ہو جاتی ہے، اور رشتہ داروں کا حق بن جاتا ہے۔ اس قانون کو ختم کر کے، انفرادی آزادی قائم کی جائے کہ ایسے لاولد لوگوں کی رجسٹرڈ وصیت ہی کو مکمل طور پر قانونی حیثیت دی جائے۔
7۔ والدین کی وراثت میں بیٹیوں اور بیٹوں کے مساوی حقوق قائم کئے جائیں۔ (قرآن میں کہیں نہیں لکھا ہے کہ بیٹی کو بیٹے کے برابر وراثت دے دینے سے والدین کو اللہ کی سزا ملے گی)۔
ہماری درخواست ہے کہ ان اصلاحات کے لیے جلد از جلد قانون بنا کر نافذ کر دیا جائے۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)