Home نقدوتبصرہ ‘قیامت کے باوجود’ پر ایک نظر – سفر نقوی

‘قیامت کے باوجود’ پر ایک نظر – سفر نقوی

by قندیل

ادب انسانی خیالات اور تجربات کے علمی اظہار کا ایک لا متناہی سلسلہ ہے جو زمانہ قدیم سے اپنے تموج کے ساتھ رواں دواں ہے، جس کی لہریں تخلیق کار کے انفرادی شعور، ذوق، مشاہدات، تجربات اور کیفیات سے ظہور پذیر ہوتی ہیں اور یہ لہریں اس سلسلے کو نئے نئے بھنور اور نئی نئی آوازیں عطا کرتی ہیں۔
"قیامت کے باوجود” صدام حسین مضمر کا شعری مجموعہ ہے جو حال ہی میں منظر عام پر آیا ہے اور رفتہ رفتہ اہل بصیرت کی نگاہوں سے گزرتا ہوا اپنے مضمرات کو آشکار کرتا جا رہا ہے۔
میں سب سے پہلے مضمر کو اس طویل ادبی سلسلے کا حصہ بننے پر مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
"قیامت کے باوجود” کی غزلوں پر کچھ گفتگو کرنے سے قبل میں غزل کے حوالے سے کچھ باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں۔
غزل شاعر کے انفرادی شعور اور اجتماعی لاشعور کے امتزاج سے وجود میں آتی ہے۔ اجتماعی لاشعور میں نسل انسانی کے عام تجربات ،احساسات ، مشاہدات اور تصورات شامل ہوتے ہیں جو ہر شاعر کے یہاں کسی نہ کسی شکل میں موجود ہوتے ہیں اور غزل کو ایک طرح کی موضوعاتی اور تجرباتی داخلی یکسانیت بخشتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ غزل کا ایک شاعر دوسرے شاعر سے مختلف اور منفرد ہونے کے باوجود بھی کچھ قدریں ضرور مشترک رکھتا ہے جن میں غزل کی قدیم روایت اور اس کے اپنے علامتی نظام کا بھی خوب دخل ہے۔انفرادی شعور غزل کی روایت میں توسیع کرتا ہے اور ایک شاعر کو دوسرے شاعر سے ممتاز کرتا ہے ۔
مخصوص جذبات مخصوص محرکات کے متقاضی ہوتے ہیں جو شاعر کی انفرادیت کا تعین کرتے ہیں ۔

مضمر کی غزلیں بھی اسی اجتماعیت اور انفرادیت کا حسین امتزاج ہیں ۔
‘قیامت کے باوجود’ کی غزلوں کی قرات کرنے کے بعد ایک احساس شدت سے ہوتا ہے کہ شاعر کی زندگی میں ایک تلاطم برپا ہے اور اس تلاطم کے اسباب جتنے داخلی کیفیات کے حامل ہیں اتنے ہی خارجی بھی ہیں۔
کچھ کرب ان کے انفرادی ہیں تو کچھ اذیتوں کی نوعیت اجتماعی ہے۔
جہاں مضمر کی ذات جوانی کے عذاب جھیلتی ہوئی تعمیر و تخریب کے مابین شکست و ریخت کے مراحل سے گزر رہی ہے وہیں دنیا بھی ایک عجیب پر آشوب ،ہیبت ناک اور کربناک دور سے گزر رہی ہے جہاں تمام انسانی اقدار بحران کا شکار ہیں۔
رشتوں کی ناہمواریاں، لوگوں کی بے مروتی ، بے حسی ، غم روزگار اور نظام اقتدار کی تعفن زدہ جکڑ بندیوں جیسی کربناک اذیتوں نے مضمر کی شاعری کا لہجہ تخلیق کیا ہے اور انہی محرکات کے رد عمل میں مضمر کے لہجے میں ایک جھلاہٹ ایک احتجاج اور ایک باغیانہ رویہ در آیا ہے جسے میں ان کی انفرادیت پر محمول کرتا ہوں ۔اس احتجاج نے مضمر کو انفرادیت تو بخشی ہے لیکن کہیں کہیں اس احتجاج کی گرج نے ایک ایسے ارتعاش کو بھی جنم دیا ہے جو ان کے اشعار کی لسانی دروبست کو متاثر کرتا ہے۔

اٹھا پھینکیں گے کرسی سے کسی دن کام چوروں کو
ابھی سویا ہوا ظالم ہمارا یہ بدن ہے نا

مضمر "جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے” کے قائل ہیں اور بے ساختگی سے شعر کہتے ہیں اور خوب کہتے ہیں جذبات کی طغیانی اور خیالات کی یلغار اتنی تیز ہے کہ وہ جب تک سابقہ اشعار کی نوک پلک سوارنے کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اس سے قبل ہی خیالات کی ایک نئی موج انہیں اپنے بہاؤ میں کسی دوسرے کنارے پر لا چھوڑتی ہے۔
اس بے ساختگی کا علم مضمر کو بھی ہے اور وہ نہایت ہی صداقت کے ساتھ اس بات کا اعتراف بھی کرتے جاتے ہیں ۔

ہم سے دانستہ قلم پر زور چلتا ہی نہیں
ہم جو لکھتے ہیں فقط لکھتے ہیں نادانی کے ساتھ

بے حسی جب وقت کی اواز بن جاتی ہے تو ایک حقیقی فنکار اپنی حساس طبیعت سے اس سکوت کی دیوار کو توڑنے کی کوشش کرتا ہے اور اس امر کے لیے اسے کبھی کبھی اپنے لہجے کو ذرا بلند اور کرخت بھی کرنا پڑ جاتا ہے، یہ لہجہ مضمر کی شاعری میں توانائی کے ساتھ سنائی دیتا ہے لیکن اس کی خوبصورتی یہ ہے کہ وہ اس لہجے کو شعری تجربہ بناتے ہیں اور حتی الامکان کوشش کرتے ہیں کہ شعر اپنے منصب شعری سے نیچے نہ آئے۔

یا تو احساس نہیں تجھ کو اجڑتے گھر کا
یا تیری سمت ابھی گردش ایام نہیں

ناگاہ کٹ ہی جائے تو خوشیاں منائیے
جس سر کو جی رہے ہوں مسلسل جھکا کے ہم

آوراہ ان ہواؤں کو وحشت میں ڈال کر
بجھتے ہوئے چراغ پہ کوئی نظر کرے

مضمر حیات کی تلخیوں سے پریشان تو ہوتے ہیں لیکن کہیں بھی نا امیدی کو اپنے پہلو میں جگہ نہیں دیتے اور قنوطیت کا شکار نہیں ہوتے ، ان کی شاعری میں بے چینی، جھنجھلاہٹ اور کرب کے مناظر تو ہمیں خوب دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن کہیں بھی حزن و الم اور سینہ کوبی کی کیفیت وہ اپنے اوپر طاری نہیں ہونے دیتے اور لہجے میں ایک پر اعتمادی رکھتے ہیں جو نہایت حوصلہ انگیز معلوم ہوتی ہے ۔ کہتے ہیں :

اگرچہ حشر کا سا سامنا ہے
مگر برپا ابھی محشر نہیں ہے

زندہ ہوں دیکھ مجھ کو قیامت کے باوجود
حیرت ہے یار یعنی کہ میں مر نہیں رہا

ہمارے سر پہ چھت ہے آسمان کی
ہمیں ان آندھیوں کا ڈر نہیں ہے

میں صفحۂ تاریخ سے تب تک نہ مٹوں گا
جب تک ہیں سنو ارض و سماوات سلامت

ملک کے موجودہ منظر نامے کی سفاک حقیقتوں کا بیان مضمر کی شاعری میں نمایاں ہے اور ایک مخصوص طبقے پر ہو رہے مظالم بھی ان کی شعری کائنات کا حصہ ہیں اور وہ خوب سلیقے سے اسے اپنے اشعار میں برتتے ہیں :

ہوتی ہے جہاں بات بڑی گنگ و جمن کی
اڑتی ہے وہیں خاک بہت میرے بدن کی

پہلے لفظوں کے کچھ تیر داغے گئے
پھر مکمل میں گولی سے مارا گیا

ترے ہی گھر پہ مضمر تھا نشانہ
ترے پہلو میں نفرت پل رہی تھی

مختصرا یہ کہ مضمر کسی خاص نظریے کے شاعر نہیں ہیں بلکہ جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے کے مصداق ہیں اور اپنی مختلف کیفیات کو سلیقے سے شعری پیکر میں صداقت کے ساتھ عام فہم زبان میں ڈھالتے ہیں۔
ان کے یہاں عشق کی تلخیاں بھی ہیں ، انسان دوستی کے مناظر بھی اور وجودی مسائل بھی ۔
مضمر کا یہ پہلا شعری مجموعہ ہے اور ان کے اشعار میں ایک طرح کی بے چینی، اضطراب اور جگہ جگہ سوالات کی تکرار سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاعر کا شعری سفر حساسیت کی آگ میں جلتے ہوئے شروع ہوا ہے ۔ ہمیں امید ہے کہ اس سفر کی اگلی منزل تک پہنچ کر مضمر جب اس حساسیت کو مزید شعور و آگہی کی آنچ دیں گے تو یہ بے چینی بصیرت کی شکل میں ڈھل جائے گی ۔
کچھ اشعار ملاحظہ کریں :

زہے قسمت ابھی ڈوبا ہوا ہے
کوئی روشن دریچا تیرگی میں

اب تو جی بھر کے سو چکے ہم بھی
پھر یہ کیوں کر سحر نہیں آئی

ابھی تو چاند اترا ہے ندی میں
ابھی ہوگا اضافہ تشنگی میں

سمجھا ہی نہیں کوئی راز غم الفت کو
گھر میں ہی اندھیرا تھا باہر تو اجالے ہیں

ہماری عقلوں پر پڑ گئے جو وہ سارے پتھر اٹھا کے رکھیے
انہی سے تعمیر نسل نو کی عمارتوں کا ستون ہوگا

چاند تک تو مری کچھ رسائی ہوئی
ہاتھ سے پر مرے ایک ستارہ گیا

اے صبح ذرا شام کے بارے میں بھی کچھ سوچ
مانا کہ ترا روپ الگ، رنگ جدا ہے

ہماری آنکھوں کو نوچ ڈالو
ہماری آنکھوں میں روشنی ہے

You may also like