Home تجزیہ قیادت و خطابت کا فرق۔ سید جاوید احمد ندوی

قیادت و خطابت کا فرق۔ سید جاوید احمد ندوی

by قندیل

قیادت اور خطابت کے درمیان بہت فرق ہے ، دونوں کو ہم معنی اور یکساں سمجھنا بہت بڑی بھول ہے ، لیکن ادھر کچھ دنوں سے مسلم معاشرے میں کچھ اس طرح کی سوچ پیدا ہوئی ہے کہ بہت سے لوگوں کی نظر میں قیادت اور خطابت دونوں ہم معنی اور مترادف ہوکر رہ گئے ہیں ، حالانکہ قیادت نام ہے اس حکمت و تدبر اور منصوبہ بندی کا جس کے ذریعے کسی انسانی گروہ کے مفادات و مصالح کا بھر پور تحفظ کیا جا سکے اور دوسرے انسانی گروہ یا جماعت کے ساتھ اس طرح کے تعلقات اور معاہدات طے کیے جائیں جو اپنی قوم و ملت کے حقوق کو زیادہ سے زیاد تحفظ عطا کر سکے ، جب کہ خطابت نام ہے کسی انسانی گروہ کے ذہن و فکر کو مہمیز کرنے اور اپنی فکر کے ساتھ انہیں ہم آہنگ کرنے کا ، دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر خطیب کسی درجہ میں صرف گفتار کا غازی ہی بنا رہے تو چل سکتا ہے ، ہاں البتہ اس کا اپنا ذاتی نقصان اس میں ضرور ہے ، لیکن اگر ایک قائد صرف گفتار کا ہی غازی بنا رہے تو یہ کبھی بھی نہیں چل سکتا ، کیونکہ اس میں پوری قوم کی تباہی مضمر ہے ، کیونکہ قیادت کی ذمہ داریوں کا سرا زیادہ تر قائد کی ذات تک محدود نہیں ہوتا ؛ بلکہ اس کے تانے بانے خارج کے حالات و واقعات تک پھیلے ہوتے ہیں ، قوم کی موت و زیست اور عروج و زوال کے اسباب قائد کے اپنے قائدانہ رول کے اندر مضمر ہوتے ہیں ، اس لیے صرف اچھی تقریر کر لینے اور دھماکہ خیز بیان دے دینے کا نام قیادت نہیں ہو سکتا ، کیونکہ اگر ایسا ہوجائے تو پھر مردوں کے کپڑے پہن کر مردانگی ظاہر کرنے والے ہجڑے بھی مرد ہو سکتے ہیں ، لیکن حقیقت کی دنیا میں ایسا ہونا ممکن نہیں ، کیونکہ سب جانتے ہیں کہ مرد بننے کے لیے مخصوص فطرت اور خاص جبلت کا حامل ہونا سب سے پہلے ضروری ہے ، پھر اس کے بعد مردانہ کپڑوں کا نمبر آتا ہے ۔
یہ اور بات ہے کہ ایک قائد کے لیے اچھا خطیب ہونا بھی نہایت ضروری ہے ، لیکن قائد کی زندگی میں اس کا نمبر ثانوی ہوتا ہے ، اولی نہیں ، قائد کے لیے اول درجے کی چیز یہ ہے کہ وہ قومی مفادات و مصالح کی خاطر ہر طرح کی قربانی پیش کرنے کا جذبہ رکھتا ہو ، قومی حالات کی بہتری کی خاطر بار آور اور نتیجہ خیز کوششیں کرتا ہو اور ایسی منصوبہ بندی بھی جس میں جوش و جذبہ سے کہیں زیادہ ہوش و خرد اور فہم و فراست کار فرما ہو ۔ بالخصوص ہندوستان جیسے ملک میں جہاں مسلمان اقلیت میں رہتے ہوں اور ہر اعتبار سے ایک کمزور جمعیت بنے ہوئے ہوں ، یہاں پر مسلمانوں کا قائد ایسا ہونا چاہیے جو بولتا کم ہو اور سوچتا زیادہ ہو ، جو چیختا کم ہو اور منصوبہ بندی زیادہ کرتا ہو ، جو مودی اور یوگی جیسوں کو ان کی زبان میں جواب دینے کی بجائے اپنی قوم کو متحد کرنے اور ان کے ووٹ کو منتشر ہونے سے بچانے کی ترکیب زیادہ کرتا ہو ، جو کسی بڑی پارٹی کے ساتھ اتحاد قائم کرنے کے لیے مسلمانوں کے تناسب کی شرط نہ لگاتا ہو ؛ بلکہ زمینی حقیقت کو دیکھتے ہوئے کچھ کم پر بھی رضا مندی ظاہر کر دیتا ہو ۔
اسی طرح ہندوستان جیسے ملک میں آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین اور راشٹریہ علما کونسل جیسے نام صرف مسلمانوں کی نفسیاتِ فخر کو تسکین دے سکتے ہیں اور بس ، حقیقی تبدیلی کا پیش خیمہ نہیں بن سکتے ، ہمارے درمیان اگر واقعی کوئی اہل قائد پیدا ہوگا تو وہ سب سے پہلے دلتوں اور کمزور طبقوں کے نمائندوں سے ہاتھ ملائے گا ، ان کے ساتھ مل کر وہ ایک اتحاد قائم کرے گا ، اس طرح وہ مسلم قوم کو مضبوط بھی بنائے گا اور مسلم ووٹ کو منظم کر کے ان کی آواز کو پراثر اور با وزن بھی بنا دے گا ؛ لیکن افسوس کہ اب تک ایسا کوئی قائد سامنے نہیں آیا ۔
مجھے حیرت ہے ” آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین ” کے قائدین اور خصوصا اس کے قائد اعلی پر کہ وہ بہار میں اتحاد کی حکومت سازی کا خواب دیکھ رہے ہیں ؛ لیکن وہ عظیم اتحاد کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ؛ اس لیے کہ وہ بہار میں مسلمانوں کے تناسب سے سیٹوں کے طلب گار تھے ، جسے گٹھ بندھن نے منظور نہیں کیا ، مجھے مسلم قائد کی طفلانہ ضد پر بڑا تعجب ہوا کہ انہوں نے ایسی ضد کیوں کی ؟ ایسا مطالبہ وہ اس وقت کر سکتے تھے جب وہ بہار میں پندرہ بیس سیٹیں کبھی جیت چکے ہوتے ، بہار میں زمینی پکڑ بنا لی ہوتی ؛ لیکن جب ایسا نہیں تھا تو انہوں نے کس معقول بنیاد پر ایسی ضد کی ؟ یہ سمجھ سے بالا تر ہے اور وہ اتحاد کا حصہ نہیں بن سکے ، تو پھر کس ریاضی کے اصول پر پچاس سیٹوں پر اپنے امید وار کھڑے کر نے جارہے ہیں ؟ کیا یہ تعداد بہار میں مسلمانوں کے اپنے تناسب کی نمائندگی کر رہی ہے ؟ کیا پچاس سیٹوں پر ” اے آئی ایم آئی ایم ” پہلے سے جیتتی آرہی ہے ؟ ماجرا کیا ہے ؟ کیا ایسا ” اے آئی ایم آئی ایم ” قائد اعلی نے غصہ اور رد عمل کی نفسیات میں کیا ہے ؟ کیا یہ حرکت ہندوستان جیسے ملک میں مسلم اقلیت کے قائد کے لیے جائز ہے ؟ پھر وہ بھی ایسے وقت میں جب کہ ہمارا ملک ایک عجیب و غریب بحرانی اور نا گفتہ بہ صورت حال سے گزر رہا ہے ؟ اگر ” اے آئی ایم آئی ایم ” اکثر سیٹوں پر ہارتی ہے تو اس کا فائدہ کس کو ہوگا ؟ یعنی اس کا مطلب یہ ہوا کہ اتحاد کا حصہ نہ بننے پر ” اے آئی ایم آئی ایم ” نے اپنی جیت سے زیادہ کسی کو ہرانے کی اصلا کوشش کی ہے ، کیا اسے ہم قائدانہ رول کا نام دیں گے ؟ عظیم اتحاد کی شکست کا مطلب کیا ہوتا ہے ؟ سب جانتے ہیں کہ اس کا سیدھا مطلب ہوتا ہے بی جے پی کی فتح ، تو کیا اے آئی ایم آئی ایم BJP کے ساتھ حکومت بنانے کے موڈ میں ہے؟

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like

Leave a Comment