غزہ میں جنگ بندی کے سلسلہ میں اقوام متحدہ میں قرارداد پیش ہوئی تو امریکہ نے اس پر ویٹو پاور کا استعمال کیا۔ یہ امریکی جارحیت پسندی کا بالکل تازہ واقعہ ہے۔ 1917 سے 2023 کے درمیان یعنی گزشتہ ایک صدی سے زائد عرصے پر محیط قضیہ فلسطین کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو اندازہ ہوگا کہ امریکہ اور یوروپ نے اوّل روز سے فلسطین اور اہل فلسطین کے حق میں بہت ہی غیرمنصفانہ اور انتہائی ظالمانہ رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ مولانا مودودی علیہ الرحمہ نے اپنی تحریروں میں جگہ جگہ اس کی نشاندہی کی ہے۔ 1967 کی جنگ کے موقع پر بھی اور 1969 میں آتش زنی کے موقع پر بھی مولانا مودودی نے کھلے الفاظ میں اس جانب توجہ دلائی ہے۔
دسمبر 1967 میں رومن کیتھولک چرچ کے پوپ نے دنیا بھر کی دینی جماعتوں کے سربراہوں کے نام ایک پیغام جاری کیا تھا۔ یہ پیغام مولانا سید ابوالاعلی مودودی علیہ الرحمہ کی خدمت میں بھی ارسال کیا گیا تھا۔ اس پیغام میں پاپائے روم نے دنیا بھر کے افراد اور تنظیموں سے اپیل کی تھی کہ وہ یکم جنوری 1968 کو عالی پیمانے پر یوم امن منائیں۔ مولانا مودودی علیہ الرحمہ نے پاپائے روم کے پیغام کا قدرے تفصیلی جواب دیا تھا۔ یہ پیغام اور مولانا مودودی کا جواب “امت مسلمہ کے مسائل” کے نام سے مولانا مودودی کے مجموعہ مضامین میں شامل ہے۔ مولانا مودودی نے پاپائے روم کے جذبات کی تحسین فرماتے ہوئے چار بنیادی مسائل کی طرف توجہ دلائی تھی۔ ان میں دو مسائل کا تعلق راست طور پر قضیہ فلسطین سے ہے۔
پاپائے روم نے اپنے پیغام میں صاف طور پر لکھا تھا کہ “ قیام امن کی راہ میں جو موانع درپیش ہیں ان کا ازالہ ضروری ہے۔ ان موانع میں سے چند ایک یہ ہیں کہ اقوام عالم باہمی تعلقات میں خود غرضی برت رہی ہیں، بعض آبادیاں اس احساس کا شکار ہیں کہ انہیں عزت وشرف اور وقار کی زندگی بسر کرنے کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے اور اس حق کے عدم اعتراف کی بنا پر یہ لوگ سربکف ہو کر تنگ آمد بجنگ آمد کی روش اختیار کر چکے ہیں۔ یہ نظریہ واعتقاد عام ہوگیا ہے کہ بین الاقوامی تنازعات عدل و انصاف اور آپس کی گفت وشنید کے معقول ذرائع سے طے نہیں کیے جاسکتے بلکہ انہیں قاضی شمشیر کے حوالے کردینا ضروری ہے جو خوں ریزی اور قتل انسانی کے غیرمحدود آلات ووسائل استعمال کرسکتا ہے۔ امن وسلامتی اور بقائے باہمی کے لیے ناگزیر ہے کہ نئی نسلوں کو رواداری، اخوت اور عالمگیر معاونت کی تربیت دی جائے۔ امن وامان محض لفاظیوں کے بل پر قائم نہیں ہوسکتا۔ اس طرح کا زبانی جمع خرچ بظاہر خوش آئند نظر آتا ہے، کیونکہ یہ انسانیت کے دل کی آواز ہے لیکن اکثر وبیشتر یہ چیز نہ صرف بے عملی اور عدم خلوص کو چھپانے کے لیے ایک لبادے کا کام دیتی ہے، بلکہ بسا اوقات جانبداری اور ظلم وتعدی کا آلہ کار بن جاتی ہے۔ جب تک ریاستیں ایک دوسرے کے ساتھ اور مختلف ریاستوں کے اندر حکام اور شهریان ریاست باہم دگر محبت، اخلاص اورانصاف کو اپنا حقیقی شعار نہ بنائیں اور جب تک افراد اور اقوام کو تہذیبی، اخلاقی اور مذہبی دائروں میں قول وعمل کی آزادی حاصل نہ ہو اس وقت تک امن کی باتیں کرنا بالکل بے معنی اور لاحاصل ہے ۔ آزادی اور سلامتی کے ان لوازم کے بغیر اگر طاقت وتسلط کے ذریعہ سے امن وامان اور قانونی نظم وضبط کا ظاہری ڈھانچہ قائم بھی ہو جائے تب بھی ہیجان وبغاوت اور جنگ وجدال کا ایک لامتناہی اور ناقابل تسخیر سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا۔”
مولانا مودودی علیہ الرحمہ نے اس کے جواب میں پاپائے روم کو لکھا تھا کہ “میں آپ کو اس بات پر مبارک باد دیتا ہوں کہ آپ نے ایک ایسے مقصد کی طرف دنیا کے انسانوں کو دعوت دی جو سب کا مشترک مقصد ہے اور ساتھ ساتھ ان اہم اسباب کی نشاندہی بھی کی جو اس مقصد کے حصول میں سدراہ ہیں۔ فی الحقیقت امن ان اولین بنیادی ضروریات میں سے ہے جن پر نوع انسانی کی فلاح وبہبود کا انحصار ہے، مگر اس کی خواہش اور اس کی ضرورت کا احساس رکھنے کے با وجود جن وجوہ سے انسان ہمیشہ اس سے محروم ہوتا رہا ہے اور آج بھی محروم ہے، وہ وہی وجوہ ہیں جن میں سے اکثر کی طرف آپ نے صحیح طور پر دنیا کے لوگوں کو توجہ دلائی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ جب تک عملاً انہیں رفع کرنے کے لیے کچھ نہ کیا جائے گا، محض اپنی خواہشات اور تمناؤں کے اظہار سے کوئی امن دنیا کو میسر نہ آسکے گا۔ اس بنا پر میرے نزدیک یہ نہایت ضروری ہے کہ ہم میں سے ہر ایک شخص، قوم، مجموعہ اقوام اور پیروان مذاہب کا گروہ پورے خلوص اور دیانت کے ساتھ خود اپنا محاسبہ کر کے دیکھے کہ اس کی اپنی کوتاہیاں کیا ہیں جو اس کے ابنائے نوع کو اور بالآخر خود اس کو امن سے محروم کرنے کی موجب ہوتی ہیں اور جہاں تک بھی اس کے امکان میں ہو ان کو رفع کرنے کی کوشش کرے۔ اسی طرح ہم میں سے ہر ایک کو پوری صاف گوئی کے ساتھ، اصلاح کی نیت سے، نہ کہ تلخی پیدا کرنے اور بڑھانے کے لیے، دوسرے گروہوں کے نیک نیت لوگوں تک یہ بات پہنچانی چاہیے کہ ان کے طرز عمل میں کیا چیزیں ایسی ہیں جو اس کے گروہ کے لیے موجب اذیت ہوتی ہیں تاکہ وہ انہیں رفع کرنے کی کوشش کرسکیں”۔
آگے کی سطور میں مولانا مودودی نے چار مسائل کی طرف پاپائے روم کو توجہ دلائی ہے، جن میں ابتدائی دو مسائل (۱) اسلام، قرآن اور رسول کے سلسلہ میں عیسائی دنیا کی جانب سے وقتا فوقتا ہونے والی ہرزہ سرائی ہے۔ اور (۲) عیسائی مشنریز کا مسلم دنیا کے کمزور اور پسماندہ علاقوں میں استحصالی اور ظالمانہ رویہ ہے۔ آگے دو مسائل کا تعلق قضیہ فلسطین سے ہے، ان پر گفتگو کرتے ہوئے مولانا مودودی نے عیسائی دنیا میں فروغ پارہے اسلاموفوبیا پر خاص طور پر توجہ دلائی ہے، لکھتے ہیں:
“مسیحی دنیا سے متعلق مسلمانوں کا عام احساس یہ ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک شدید جذبہ عناد رکھتی ہے، اور آئے دن ہمیں ایسے تجربات ہوتے رہتے ہیں جو اس احساس کو تقویت پہنچاتے ہیں۔ اس کا تازہ ترین تجربہ وہ ہے جو ابھی حال میں عرب اسرائیل جنگ کے موقع پر ہوا ہے۔ اس لڑائی میں اسرائیل کی فتح پر یوروپ اور امریکہ کے بیشتر ملکوں میں جس طرح خوشیاں منائی گئیں انہوں نے تمام دنیا کے مسلمانوں کے دل میں زخم ڈال دیے ہیں۔ آپ شاید ہی کوئی مسلمان ایسا پائیں گے جس نے عربوں کی شکست اور اسرائیل کی فتح پر مسیحی دنیا کے اس علی الاعلان اظهار مسرت وشادمانی کو دیکھ کر یہ محسوس نہ کیا ہو کہ یہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف مسیحیوں کے گہرے جذ بہ عناد کا مظاہرہ تھا۔”
مولانا مودودی قضیہ فلسطین کی تاریخ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“فلسطین میں اسرائیل کی ریاست جس طرح بنی ہے، بلکہ بنائی گئی ہے۔ اس کی تاریخ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ دو ہزار برس سے فلسطین عرب آبادی کا وطن تھا۔ موجودہ صدی کے آغاز میں وہاں یہودی آبادی 8 فی صدی سے زیادہ نہ تھی، اس حالت میں برطانوی حکومت نے اس کو یہودیوں کا قومی وطن بنانے کا فیصلہ کیا اور مجلس اقوام نے نہ صرف اس فیصلے کی توثیق کی، بلکہ برطانوی حکومت کو فلسطین کا مینڈیٹ دیتے ہوئے یہ ہدایت کی کہ وہ یہودی ایجنسی کو باقاعدہ شریک حکومت بنا کر اس تجویز کو عملی جامہ پہنائے۔ اس کے بعد دنیا بھر کے یہودیوں کو لا لا کر ہر ممکن تدبیر سے فلسطین میں بسانے کا سلسلہ شروع کر دیا گیا۔ یہاں تک کہ 3 سال کے اندر ان کی آبادی 33 فیصدی تک پہنچ گئی۔ یہ ایک صریح ظلم تھا جس کے ذریعہ سے ایک قوم کے دامن میں زبردستی ایک دوسری اجنبی قوم کا وطن بنایا گیا۔”
عیسائی دنیا کے ظالمانہ رول کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“پھر ایک دوسرا اس سے بھی زیادہ ظالمانہ قدم اٹھایا گیا اور امریکہ نے کھلے بندوں دباؤ ڈال کر اقوام متحدہ سے یہ فیصلہ کرایا کہ یہودیوں کے اس مصنوعی قومی وطن کو یہودی ریاست میں تبدیل کردیا جائے۔ اس فیصلے کی رو سے 33 فی صدی یہودی آبادی کو فلسطین کا 55 فی صدی اور عربوں کی 44 فی صدی آبادی کو 45 فی صدی رقبہ الاٹ کیاگیا لیکن یہودیوں نے لڑ کر طاقت کے بل پر 77 فیصدی رقبہ حاصل کر لیا اور مار دھاڑ اور قتل وغارت کے ذریعہ سے لاکھوں عربوں کو گھر سے بے گھر کر دیا۔ یہ ہے اسرائیل کی اصل حقیقت۔ کیا دنیا کا کوئی انصاف پسندا ور ایماندار آدمی یہ کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک جائز ریاست ہے جو فطری اور منصفانہ طریق سے بنی ہے؟”
اسرائیل کے جارحانہ اور استعماری عزائم پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“اس کا تو عین وجود ہی ایک بدترین جارحیت ہے اور اس پر مزید ظلم یہ ہے کہ یہودی صرف ان حدود کے اندر محدود رہنے پر بھی راضی نہیں ہیں جو انہوں نے فلسطین میں زبر دستی حاصل کی ہیں، بلکہ وہ سالہا سال سے علانیہ کہہ رہے ہیں کہ نیل سے فرات تک کا پورا علاقہ ان کا قومی وطن ہے۔ اس کے دوسرے معنی یہ ہیں کہ یہ قوم ہر وقت یہ جارحانہ ارادہ رکھتی ہے کہ اس پورے علاقے پر جبراً قبضہ کرے اور اس کے اصل باشندوں کو زبردستی وہاں سے نکال کر دنیا بھر میں پھیلے ہوئے یہودیوں کو وہاں لا کر بسائے۔ اسی جارحانہ اسکیم کا ایک جزو گذشتہ ماہ جون (1967) کا وہ اچانک حملہ تھا جس کے ذریعہ سے اسرائیل نے ہزار مربع میل علاقے پر قبضہ کیا۔”
آگے چند سطروں میں مسیحی دنیا کے بدترین کردار کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
“اس پورے ظلم کی ذمہ دار مسیحی دنیا ہے۔ اس نے ایک قوم کے وطن میں ایک دوسری قوم کا وطن زبردستی بنوایا۔ اس نے اس مصنوعی قومی وطن کو ایک ریاست میں تبدیل کرایا۔ اس نے اس جارح ریاست کو روپے اور ہتھیاروں سے مدد دے کر اتنا طاقتور بنایا کہ وہ زبردستی اپنے توسیعی منصوبوں کو عمل میں لاسکے اور اب اس ریاست کی تازہ فتوحات پر یہی مسیحی دنیا جشن شادمانی منارہی ہے، کیا آپ سمجھتے ہیں کہ اس کے بعد نہ صرف عربوں میں بلکہ تمام دنیا کے مسلمانوں میں مسیحیوں کی انصاف پسندی، ان کی خیراندیشی اور مذہبی عناد وتعصب سے ان کی بریت پر کوئی اعتماد باقی رہ گیا ہے؟ اور کیا آپ کا خیال ہے کہ دنیا میں امن قائم کرنے کے یہی طریقے ہیں؟ یہ دراصل ہمارا نہیں بلکہ آپ کا کام ہے کہ مسیحی بھائیوں کو اس روش پر شرم دلائیں اور ان کی روح کو اس گندگی سے پاک کرنے کی کوشش کریں۔”
اس تحریر کے آخر میں کیتھولک چرچ کی جانب سے بیت المقدس کو بین الاقوامی تحویل میں دیے جانے کی تجویز کے بدترین عواقب اور اس سلسلہ میں اٹھنے والے اندیشوں پر مختصرا روشنی ڈالتے ہوئے لکھتے ہیں:
“ میں آپ کے پیغام کے جواب میں اس طویل مراسلے اور اس صاف گوئی پر معذرت خواہ ہوں، مگر میں آپ کو یہ بتانا اپنا فرض سمجھتا تھا کہ قیام امن کی اصل رکاوٹیں کیا ہیں جنہیں دور کرنے کے لیے عملا کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ میں پھر اس بات کا اعادہ کرتا ہوں کہ اگر اسلامی دنیا کی طرف سے کوئی ایسی بات ہو جسے امن عالم کی راہ میں رکاوٹ سمجھا جائے تو وہ مجھے بتائی جائے، مجھ کو جو تھوڑا بہت اثر دنیائے اسلام میں حاصل ہے اسے میں خود بھی اس رکاوٹ کے دور کرنے میں استعمال کروں گا اور دوسرے زعمائے اسلام کو بھی اس کی طرف توجہ دلاؤں گا۔”
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)