(معاون ناظم امارت شرعیہ پٹنہ)
گذشتہ چندسالوں کے دوران ہمارے ملک میں نفرت و تعصب نے پنجے گاڑ دیے ہیں،جس کے نتیجے میں فرقہ واریت کی آگ نے مختلف ریاستوں کو جھلساکر رکھ دیا ہے۔مذہبی رواداری اور بھائی چارہ کا انوکھا اور بے مثال ملک بھارت رفتہ رفتہ شدت پسندوں کاشکار ہو تا جا رہا ہے، کرسی اور اقتدار کی بے انتہا ہوس نے ایک خاص جماعت کو ایسا اندھا کر دیا ہے، جس نے روادا ری کی جگہ تشدد، پریم کی جگہ نفرت، پھول کی جگہ کانٹے اورملک کے شہریوں کے دلوں میں دوسرے شہریوں کے تئیں محبت و دوستی کے بجائے دشمنی و عداوت پیداکرنے کاظالمانہ کام انجام دیا ہے۔ ایسی سیاست کا بُر ا ہو، جس نے ملک کے امن و امان اور ا س کی صدیوں پرانی قومی یکجہتی کو صرف اپنے ذاتی مفاد کے لیے پامال کر رکھا ہے، کب اور کس جگہ زہریلی ہوا اور نفرت کی فضا چھا جائے،کہنا مشکل ہے۔ جو ملک کی موجودہ صورت حال ہے، اسے دیکھ کر کسی طرح یقین نہیں آتاکہ یہ مہاتمابودھ، شری مہاویر جین، گرو نانک، خواجہ معین الدین چشتی ؒ اور ان جیسے سیکڑوں محبت اور انسانیت کے علم برداروں کا وہی ملک ہے، جس کی مقدس زمین پر انہوں نے بھائی چارہ وانسانی رواداری کا درس دیا تھا۔ خیر ابھی بھی اس سر زمین پر انسانیت کے داعی، اخوت و بھائی چارے کے علم بردار، قومی یکجہتی کے نقیب اور گنگا جمنی تہذیب کے نمائندہ افرادو جماعتیں زندہ ہیں، جن کے دم سے اس گلستاں میں زندگی کا رنگ و بو اور اس چمن کی آبرو باقی ہے،انہیں میں ملک کی ایک عظیم سو سالہ پرانی تنظیم ”امارت شرعیہ بہار،اڈیشہ وجھارکھنڈ“ ہے، جو پورے ملک میں اپنے دوسرے ملی و اجتماعی کارناموں کے ساتھ انسانیت نوازی اور خدمت خلق کے میدان میں بھی ممتاز ہے، ملک کی صف اول کے اس عالی شان ادارے نے جہاں جنگ آزادی میں نمایاں قربانیاں پیش کیں، وہیں آزادی کے بعد سے آج تک مسلسل ملک کی سا لمیت،قومی یگانگت، انسانی ہمدردی، سماجی بھائی چارہ، مذہبی رواداری اور فرقہ وارنہ ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے روشن و تابناک خدمات انجام دی ہیں جو لائق ستائش بھی ہیں اور قابل تقلید بھی۔
اس طویل ترین سفر میں ملک اور اس کی ریاستوں نے نہ جانے کتنی کروٹیں لی ہیں اور حالات نے کتنی نزاکتیں پیدا کی ہیں، سیاسی موجوں نے بارہا ملک کے پرسکون حالات میں تلاطم و اضطراب پیدا کرنے کی ناپاک کوششیں کی ہیں، جن کا شمار نہیں، مگر ہر دوراور ہر حال میں امارت شرعیہ کے اکابر و ذمہ داران نے ملک کی سماجی ساکھ اور اس کے تہذیبی وقار کو بچانے کا بے مثال کارنامہ انجام دیا ہے۔ جب بھی نفرت کے سوداگروں نے انسانی جانوں کا سودا کرنا چاہا تو اس تنظیم کے رہنماؤں نے آگے بڑھ کر ان کے ظالم ہاتھوں کو جرأت مندی اور پامردی سے روکنے کا کام سرا نجام دیا ہے۔جب بھی ظالموں نے ظلم و ستم کا بازار گرم کرنا چاہا تو اس ادارہ نے پوری قوت سے ان کے گریبان کو پکڑا ہے اور بروقت ایسے عناصر کے خاتمے کی کوشش کی ہے، اس تنظیم کا امتیازی وصف رہا ہے کہ جب نازک وقت میں اچھے اچھوں کی زبانیں حکومت وقت کے سامنے خاموش تھیں تو اس کے اکابرین وقت کے حکمرانوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دلیرانہ مکالمہ فرما رہے تھے اور ملک کی سالمیت و تحفظ کا فریضہ ادا کررہے تھے، جب وقت کی بر سر اقتدار حکومت اپنی ناکامی کاالزام ملک کی معصوم عوام کے سر تھوپ رہی تھی تو تاریخ شاہد ہے کہ اس ادارہ کے غیور و بے باک رہنما چوتھے امیر شریعت حضرت مولانا سید شاہ منت اللہ رحمانی نور اللہ مرقدہ نے حکومت کو للکارتے ہوئے اس کے فرائض منصبی یاد دلائے۔
الحاصل امارت شرعیہ نے اپنے پہلے ہی دن سے ملک کی قومی یکجہتی اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو اپنا موضوع بنا کرایک ایسی عظیم خدمت انجام دی ہے، جس کی مثال آزاد ہندوستان میں ملنی مشکل ہے۔ اس سلسلہ میں امارت شرعیہ کا طریقہئ کار نہایت مؤثر اور عملی ہے، اس کے نمائندوں سے متعلقہ تین ریاستوں؛بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ میں کوئی مسلم بستی خالی نہیں ہے، ہزاروں اور لاکھوں کی تعداد میں اس کے نمائندے اور نقیب ہیں، جو رضاکارانہ طور پر سماجی اور رفاہی خدمات انجام دیتے ہیں۔انسانی بنیادوں پر بے لوث ہو کر کام انجام دیناان کی پہچان ہے،در اصل امارت شرعیہ کے ضابطہ کی پہلی سطر انسانیت کی فلاح وبہبود پر مشتمل ہے، جس سے اصلاح و درستگی، ملکی خیر سگالی، باہمی اخوت و محبت، سماجی بھائی چارہ اور بے شمار خیر و بھلائی کے سوتے پھوٹتے ہیں،اگر اس مخلص انسانی ادارے کی یہی ایک بات سچائی کے ترازو میں تولی جائے تو ملک کی ان گنت مقامی و قومی سیاسی جماعتوں کی کم مائیگی اور ہلکا پن روشن سورج کی طرح سامنے آجائے گا۔اگر صحیح طور پر جائزہ لیا جائے تو در حقیقت امارت شرعیہ نے ان سیاسی تنظیموں کو موقع بہ موقع سماجی و انسانی خدمت، ملکی ثقافت، باہمی محبت اور فکر انسانیت کا سبق پڑھایا ہے اور جب بھی وہ بے راہ روی کا شکار ہوئی ہیں تو ان کی صحیح سمت میں رہنمائی کی ہے۔
مفاد پرست، تشدد پسند اورمذہبی سیاست کے نتیجے میں چند دہائیوں سے جس طرح آئے دن مذہبی منافرت اور فرقہ واریت کا انسانیت سوز کھیل کھیلا جا رہا ہے اور ملک کی قدیم سماجی محبت و یگانگت کا خاتمہ کیا جا رہا ہے، یہ پورے ملک کے لیے انتہائی تشویش کا موضوع ہے۔ خاص کر موجودہ بر سر اقتدار جماعت کے دورحکومت میں اکثریتی فرقے کی جانب سے اقلیتوں پر بڑی زیادتی ہورہی ہے۔اس دوران فرقہ وارانہ چھوٹے بڑے اتنے واقعات رونماہوئے ہیں جن کا شمار مشکل ہے، ان میں سیکڑوں جانوں اور اربوں کے اثاثے کا نقصان ہوا۔ رواں مہینے (اگست۰۲۰۲ء) کی پانچ تاریخ کو صدیوں پرانی بابری مسجد کی جگہ اور ایودھیا میں متنازع اراضی پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعدپوری شان و شوکت سے رام مندر کی تقریب سنگ بنیاد میں جب سے بھومی پوجن کیا گیا ہے،اس کے بعد خصوصیت سے ریاست بہارمیں فرقہ وارانہ کشیدگی کانہ ختم ہونے والاسلسلہ شروع ہو گیا ہے، دربھنگہ، سیتا مڑھی، جموئی، مظفر پور، مشرقی چمپارن، مدھوبنی وغیرہ اضلاع کے کئی علاقوں میں تسلسل کے ساتھ فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہو چکی ہے، جو اب بھی بعض خطوں میں رہ رہ کر سر ابھاررہی ہے، اس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اکثریتی فرقہ کے حوصلے کافی بلند ہو گئے ہیں، بہار کا اسمبلی الیکشن بھی مدنظر ہے،تاکہ اس کے نتائج حسب خواہ ظاہر ہوں، اور خاص نقطہئ نظر سے مختلف طبقوں میں بکھرے ووٹوں کا پولرائزیشن کیا جا سکے۔ بلوائیوں اور فتنہ پروروں کوفقط ہلکا سا شیرہ ملنا چاہئے، چھوٹی چھوٹی ناقابل توجہ اور معمولی باتوں کو بھی بڑی کشیدگی کا عنوان بنا دیا جارہا ہے، جس سے حکومت و انتظامیہ کو بھی شدید پریشانی لاحق ہے، لا ء اینڈآرڈر اور اخلاقی ضابطوں کی سر عام دھجیاں اڑائی جارہی ہیں، لمحوں میں پورا کا پورا خطہ اور علاقہ کا علاقہ امن و امان سے محروم ہو کر خطرے میں گھر جا رہا ہے، ایسے برے اور نازک وقت میں جب امارت شرعیہ پھلواری شریف، پٹنہ کے مرکزی دفتر سے اس کے مقامی نقیب یا منتخب صدر و سکریٹری رابطہ کرتے ہیں تو امارت شرعیہ بے چین ہو کر حکومت بہار اور اس کے اعلیٰ حکام و افسران سے فوری کارروائی کا تقاضہ کرتی ہے، پھرجلد از جلد ریاستی ذمہ داران ضلع انتظامیہ کوجائے واردات پر بھیج کر حالات کو قابو میں لانے کا انسانی فریضہ انجام دیتے ہیں،جس میں امارت شرعیہ کورات ودن ایک کرناپڑتا ہے،جس کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
زمینی سطح پر امارت شرعیہ کی تنظیم اتنی مستحکم اور فعال ہے کہ اکثر اوقات حکومت کو اس طرح سے پیش آنے والے واقعات کا پہلے سے علم نہیں ہوتا، بسا اوقات تھانہ اور ضلعی افسران کو بھی امارت شرعیہ کے ذریعہ ہی اطلاع ملتی ہے۔ اس طرح کے تما م واقعات و حادثات پراس ادارہ کی شروع سے آج تک بڑی گہری اور حساس نظر رہی ہے، بروقت واقعات وحالات کاصحیح ادراک کرکے مقامی سطح سے مرکزی سطح تک اپنے ذمہ داران وکارکنان کے ذریعہ حالات کو معمول پر لانے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم کرنے میں امارت شرعیہ کا اولین کردار رہا ہے۔ اس طرح کے مواقع پر امارت شرعیہ حتی الامکان پوری جد و جہدکرتی ہے اور اپنی ساری توانائی صرف کر دیتی ہے، پل پل کی خبر لینا، ضرورت کے مطابق جائے واردات پر پولیس فورس کی تعیناتی کے لیے حکومت سے تاکید کرنا، امن کمیٹی تشکیل دینا، پھر ان کے ذریعہ دونوں طرف کے فرقوں سے امن و امان کی بحالی کی درخواست کرنا، ظالموں کی گرفتاری اور مظلوم کی فریاد رسی کرنا امارت شرعیہ کا وہ عظیم کارنامہ ہے جو آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے۔ اس کے علاوہ ماب لنچنگ وفرقہ وارانہ فساد میں شہید و زخمی ہونے والے بے قصور لوگوں کی قابل ذکر مالی امداد بھی امارت شرعیہ کی جانب سے کی جاتی رہی ہے۔
CAA،NRC،NPRکے خلاف ملک گیراحتجاج کے موقع پر پھلواری شریف کے فساد سے لے کر اب تک چھوٹے بڑے بیسیوں جگہ کشیدگی کا ماحول بن چکا ہے، ان تمام مواقع پر امارت شرعیہ نے حکومت کو بروقت متوجہ کر کے ہزاروں انسانی جانوں کو سلامتی بخشی ہے اور ملک و ریاست کے امن و امان کی حفاظت کی ہے۔ان چند سطور بالا میں اس حوالہ سے امارت شرعیہ کی ان خدمات کا فقط ایک اجمالی خاکہ پیش کیاگیا ہے، ورنہ اس جہت میں اس کی خدمات سو سال پر محیط ہیں جو کافی وقیع اور بے حد وسیع ہیں، اس کے لیے ایک بڑے دفتر کی ضرورت درکار ہے۔ع
سفینہ چاہئے اس بحر بیکراں کے لیے
قابل ذکر بات یہ ہے کہ جب بھی امارت شرعیہ کے انتہائی متحرک و فعال اور سر گرم کار قائم مقام ناظم مولانا محمد شبلی القاسمی صاحب مد ظلہ العالی نے حکومت کو ان واقعات کی جانب متوجہ کیا تو حکومت نے اسے سنجیدگی سے لے کر امن و امان کی بحالی کی کوشش کی۔دعا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس شجر سایہ دار کو اپنی توجہات و عنایات میں رکھے، اور اس سفینہئ ملت کے ناخدا امیر شریعت مفکر اسلام حضر ت مولانا محمد ولی رحمانی صاحب دامت برکاتہم اور اس کے جملہ اکابرین و خادمین کی خدمات کو شرف قبولیت بخشے(آمین)
قومی یک جہتی کے فروغ میں امارت شرعیہ کا کردار – مولانا احمد حسین قاسمی
previous post