Home نقدوتبصرہ قومی نظام تعلیم کی تشکیل میں مولانا آزاد کا کردار – حذیفہ شکیل

قومی نظام تعلیم کی تشکیل میں مولانا آزاد کا کردار – حذیفہ شکیل

by قندیل

 

امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد کی شخصیت مختلف کمالات و حسنات کا منبع،جدا گانہ خصائل و اوصاف کا مخزن اور بہت سے علوم و فنون کا مصدر و مرکز تھی، وہ ایک طرف اگر علم و فضل، دین وافکار،فلسفہ و حکمت، شعر و نغمہ اور تصنیف و تالیف میں فرد فرید تھے تو دوسری طرف خطابت، صحافت اور سیاست میں یکتائے زمانہ تھے، جن کے انداز خطابت پر فن خطابت خود نازاں، جن کی صحافت نے ”الہلال“ اور ”البلاغ“ جیسے عظیم ادبی اخبارت کی اشاعت کے ذریعے اردو صحافت کو ایک نئی سمت عطاء کی اور سیاسی تدبر ایسا کہ پنڈٹ نہرو اور مہاتما گاندھی جیسے بڑے سیاسی رہنماؤ ں نے بھی انھیں اپنا مشیر کار تسلیم کیا اور مختلف ملی و سماجی موقعوں پران کی سیاسی بصیرت سے مستفید بھی ہوتے رہے۔
اس عالم رنگ و بو میں نہ جانے کتنے لوگ روز دولت حیات سے متصف ہوتے ہیں اور وہ شعوری یا غیر شعوری طور پروقت کی تیز رفتاری کے ساتھ قدم سے قدم ملانے کی کوشش میں گردش ایام اور تبدیلیئ زمانہ کا اثر قبول کرتے ہوئے: ”بابربہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست“ کے باطل اور بیکار نظریے کے تحت زندگی کے مختلف مراحل سے گزرکر با لآخر موت کی دبیز چادر اوڑھ کرابدی نیند سو جاتے ہیں او رگزرتا ہوا وقت انھیں دن بہ دن صفحۂ ماضی کے گم گشتہ اوراق کا حصہ بنا دیتا ہے اور گمنامی کی وادیاں ان کا مقدر ہو جایا کرتی ہیں لیکن کچھ ہستیاں اس عالم تغیر پزیر میں اپنے قابل قدر کارناموں اور گراں قدر خدمات کے ذریعے ابدیت پاکر ہمیشگی حاصل کرنے میں میں کامیاب و کامران ہوجاتی ہیں، ایسی شخصیتیں نایاب نہ سہی لیکن کم یاب ضرور ہوا کرتی ہیں اور ان کی حیثیت یقینی طور پر نابغہئ روز گار کی ہوتی ہے، ایسی ہی ضرب المثل اور انگلیوں پر شمار کی جانے والی شخصیتوں میں ایک نام آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم امام الہند مولانا ابواکلام آزاد کا بھی ہے۔
مولانا آزاد کو رب کائنات نے بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا، وہ بے باک خطیب تھے تو جرأت مند صحافی بھی، ان کی زبان میں حلاوت و شیرینی تھی تو تحریروں میں دریا کی سی روانی۔ آپ خود اندازہ لگائیں کہ جو شخص بلا کسی اسباب و مواد کے محض قلم و دوات لے کر ایک شب و روز میں پورا ایک رسالہ لکھدے اور جو جیل کی آہنی سلاخوں میں مقید ہو کر قید وبند کی صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے ذخیرۂ کتب کی عدم فراہمی کے با وجود محض اپنی خدا داد صلاحیتوں اور حافظے کو قلم کے ذریعے صفحہئ قرطاس کی زینت بناتا جائے اور دنیائے ادب کو ”غبار خاطر“جیسی شاہکار تصنیف عطاء کردے، جو خصوصا فن مکتوب نگاری اور اور عمومی طور پر پوری اردو آبادی کے لیے سرمایئہ افتخار بن جائے، جس کا تحریری معیار اس قدر بلند ہو کہ اس کی قلم برداشتہ تحریریں بھی دوسروں کی برسوں کی محنت و جاں کاہی کے عوض وجود میں آنے والی تحریروں پر بھاری پڑجائے، ایسی شخصیتیں خال خال ہی نظر آتی ہیں۔ فضل الدین احمد صاحب ”تذکرہ“ پر مقدمہ لکھتے ہوئے مولانا کی عدم توجہی کی شکار تحریروں کے متعلق ایک جگہ رقم طراز ہیں:
”اسی کتاب کو دیکھ لیجیے کہ کس بے سر و سامانی اور بے توجہی کے ساتھ قلم برداشتہ لکھی گئی، جس قدر اوراق لکھتے جاتے تھے میرے پاس بھیج دیتے تھے اور آئندہ ربط تحریر کے لیے صرف آخری صفحے کی آخری سطر یا بعض حالات میں صرف چند الفاظ ایک سادہ صفحے کی پیشانی پر باقی رہتے تھے،درمیان میں ہفتوں دوسری تصنیفات جاری رہتیں۔ پھر جب کسی وجہ سے دماغ آرام لینا چاہتا اور تفسیر وغیرہ کا سلسلہ رکتاتو دو چار گھنٹے کے لیے اس طرف متوجہ ہوجاتے،ہمارے بڑے بڑے مصنف شاید اس طرح ایک خط بھی نہ لکھ سکیں، چہ جا ئیکہ پوری مرتب کتاب چھ سو صفحات سے زیادہ۔“ (از مقدمہ، تذکرہ ص ۱۲۔ مرتبہ: مالک رام)
یقینا مولانا آزادکے کارناموں اور خدائے بزرگ و برتر کی طرف سے ودیعت کردہ ان کی مختلف صلاحیتوں پر جو کچھ لکھا جائے اور جتنا کچھ لکھا جائے وہ کم ہے،ان کی زندگی کے کسی بھی گوشے پر سیر حاصل تحریر وجود میں آسکتی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ مولانا آزاد پر آج تک تسلسل و تواتر کے ساتھ لکھا جا رہا ہے اور خوب لکھا جا رہا ہے اور یہ لکھا جانا بلا شبہ ان کی اس عظمت کی واضح دلیل ہے جس کے وہ صد فی صد حق دار تھے۔ مولانااپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ ساتھ مفکر تعلیم اور ماہر تعلیم بھی تھے اور فروغ تعلیم کے سلسلے میں بے حد فعال و حساس بھی،گو کہ وہ پیشے کے لحاظ سے روایتی طور پر معلم نہ تھے لیکن جب ہم ان کے بلیغ افکار اور تعلیمی میدان میں ان کی گراں قدر خدمات کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے تعلیمی نظام کی درستگی اور خاص کر ہمارے تعلیمی فلسفے کی تشکیل میں ان کا رول نمایاں اور اہم ہے، چنا نچہ ہمایوں کبیر نے اپنی مشہور کتاب ”ہندوستان میں نظام تعلیم“ کے انتساب میں کچھ یوں لکھا تھا کہ:۔ ”ابوالکلام نے گاندھی اور ٹیگور کے ساتھ ہمارے قومی نظام تعلیم کی تشکیل میں اہم حصہ ادا کیا تھا۔“ کبیر کا اعتراف بالکل حق بجانب ہے، اور اس قول کی صداقت کے لیے پہلے ہمیں مولانا آزاد کے تعلیمی کارنامے، تصور تعلیم اور نظریئہ تعلیم پر غور کرنا ہوگا۔ آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم مولانا ابو الکلام آزاد اس سچائی پر یقین کے ساتھ وزارت کے عہدے پر فائز ہوئے کہ تعلیم کے بغیر ہندوستان ترقی نہیں کر سکتا اور تعلیم ہی کے ذریعہ اس ملک کو دنیا کے ترقی یافتہ اور مہذب ملکوں کی صف میں لایا جا سکتا ہے اور اسی جذبہ کے تحت انہوں نے اپنی گیارہ سالہ مدت وزارت کے دوران فروغ تعلیم کی راہ میں جو کارنامے انجام دیے ہیں وہ ناقابل فراموش ہیں۔ ماہ و سال کے آئینہ میں ان کے چند کارنامے مندرجہ ذیل ہیں:-
۰۵۹۱ میں ”انڈین کونسل فار کلچرل ریلیشنز“(Indian Council for Cultural Relations) کا وجود عمل میں آیا، ۱۵۹۱ میں سیرو اکیڈمی قائم ہوئی۔۱۵۹۱ ہی میں شانتی نکیتن کو مرکزی یونیورسٹی کا درجہ ملا، یونیورسٹی گرانٹس کمیشن (UGC) کا پہلا اجلاس ۸۲ دسمبر ۳۵۹۱ کو ہوا، اگرچہ کمیشن کا قیام ۵۴۹۱ میں ہی عمل میں آ چکا تھا۔۳۱ مارچ ۴۵۹۱ ء کو نیشنل اکیڈمی آف لیٹرز (National Academy of Letters) بنی جسے بعد میں ساہتیہ اکیڈمی کے نام سے موسوم کیا گیا۔ کونسل فار سائنٹفک اینڈ انڈسٹیریل ریسرچ (C.S.I.R)، انڈین کونسل فار سوشل سائنس (Indian Council for Social Science)، انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل اسٹڈیز (Institute of International Studies)، جواہر لال نہرو یونیورسٹی، سنگیت اکیڈمی، للت کلا اکیڈمی،وغیرہ۔یہ تمام کے تمام کارنامے مولانا ابوالکلام آزاد کی فروغ تعلیم کی راہ میں کی گئی پیش قدمیوں اور بلند ئی افکار کی روشن جہتوں کو پیش کرتے ہیں۔
ان کارناموں کے تذکرے کے بعد مناسب یہ ہے کہ مولانا کا نظریئہ تعلیم اور تصور تعلیم بھی ذکر کیا جائے تاکہ ہمیں نتیجے تک پہنچنے میں آسانی ہو سکے کہ آخر وہ کیا کچھ تعلیمی اصلاحات چاہتے تھے، وہ بنیادی طور پر فروغ تعلیم کے تئیں کس نظریے کے حامل تھے اور ہندوستانی عوام کو کیسی تعلیم سے آراستہ و پیراستہ دیکھنا چاہتے تھے۔ بنیادی طور پر مولانا کی یہ خواہش تھی کہ تعلیم میں روحانیت اور مادیات میں مناسب امتزاج اور خوشگوار توازن ہوجائے۔وہ خاص کے بجائے عام،قومیت کے بجائے بین الاقوامیت اور عصبیت کے بجائے انسانیت کی طرف مائل نظر آتے ہیں، وہ جدید سائنس کو اس طورپر عام کرنا چاہتے تھے کہ اخلاق، دین اور فلسفہ ان سے علحدہ نہ ہو جائیں، اس طرح وہ صرف سائنسی علوم کی مادی افادیت کو فرد کے ارتقاء کے لئے ناکافی سمجھتے تھے۔قومی نظام تعلیم کو مولاناکی نظر میں اہمیت حاصل تھی اور وہ معاشرے کی درستگی کے لئے اس نظام تعلیم کے حامی بھی تھے کیونکہ قوم اس تعلیم کے حصول کے ذریعہ نہ صرف اپنے تمدنی ورثے کو محفوظ رکھ سکتی ہے بلکہ اس میں مناسب ترمیم و تنسیخ کے ذریعہ اس کی اصلاح بھی کر سکتی ہے۔ ان کے افکارو خیالات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ وہ تعلیم کو تمدن کا تابع دار بنانا چاہتے تھے اور ان کے نزدیک تعلیم ایک ذریعہ تھا مقصد نہیں، وہ تعلیم کو ایک مکمل وحدت خیال کرتے ہوئے اس کا نصب العین متعین کرتے تھے جو قوم کا تمدنی نصب العین تھا۔ چنانچہ اپنی ایک تقریر میں قومی نظام تعلیم کے فروغ پر زور دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ”ہم اپنی قسمت کے آج معمار ہیں، آج ہمیں خود کو اور اپنے گھر وں کو سنبھالا دینا ہے اور اس کے ان حصوں کو جو توجہ چاہتے ہیں درست رکھنا ہے، قومی نظام تعلیم قومی زندگی کے لئے ایک لازمی ضرورت ہے“۔
اسی طرح آزادی کی بقاء، اس کی خوشحالی اور ترقی کے لئے بھی قومی تعلیم کی ضرورت و اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ”آج عالمی طور پر اس بات کو تسلیم کیا جا چکا ہے کہ حکومتوں کے کاموں میں بنیادی کام تعلیم سے متعلق ہے کیونکہ افراد کی تربیت کے بغیر جمہوریت کا تصور بے کار سی بات ہو گی“۔ مولانا آزاد کے نزدیک تعلیم در حقیقت انسان کی اندرونی اصلاح کا نام ہے اور تمدن ان کی نظر میں انسان کا خارجی پہلو ہے اس لئے وہ اس بات کے قائل ہیں کہ پہلے نفس انسانی کی تربیت بہتر سے بہتر طریقے پر کی جائے، مولانا کے تعلیمی تصورات و نظریات کو ہم مجموعی طور پر سامنے رکھ کر اس نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں کہ ان کے تعلیمی تصورات دراصل تعلیمات قرآنی کے بلیغ ترجمان ہیں، قرآن مجید میں بار بار انسانوں کو غور و فکر کی تاکید کی گئی ہے، جا بجا مظاہر فطرت چاند، سورج، ستاروں، رات، دن، فصلوں کا بڑھنا، سمندروں کی موجیں، پہاڑوں کی ہیئت، جانوروں کی قسمیں اور پرندوں کی پرواز وغیرہ پر جو غور کرنے کی تلقین کی گئی ہے تاکہ خداکی ہستی کا یقین تم میں راسخ ہو جائے، اسی کے تحت مولانا آزاد بھی تمام انسانوں کو تفکر وتعقل کی دعوت دیتے ہیں لیکن یہ بات یاد رہے کہ وہ عقل کو ہی سب کچھ قرار نہیں دیتے بلکہ اس کا بھی بر ملا اظہار کرتے ہیں کہ کچھ علوم تک پہنچنا بسا اوقات انسانی عقل کی دستر س سے باہر ہوتا ہے۔
مولانا آزاد حصول علم پر زور دیتے ہوئے اقدار اسلامی کے تحفظ و پاسداری کا بھی درس دیتے ہیں، وہ خود کو اسلامی علوم و فنون اور تہذیب کا امین گردانتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”میں مسلمان ہوں اور فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ مسلمان ہوں، اسلام کی تیرہ سو برس کی شاندار روایتیں میرے ورثے میں آئی ہیں، میں تیار نہیں کہ اس کا چھوٹے سے چھوٹا حصہ بھی ضائع ہونے دوں۔ اسلام کی تعلیم، اسلام کی تاریخ، اسلام کے علوم و فنون، اسلام کی تہذیب میری دولت کا سرمایہ ہے اور میرا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کروں“۔
امام الہند مولانا آزاد کے تعلیمی کارناموں اور نظریات سے واقفیت اور مختلف گوشہ حیات سے آگہی کے بعد یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں ہے کہ وہ مفکر قوم، معمار ملت اور مصلح امت تھے۔ یہ ان کے تعلیمی کارناموں کا ہی ثمرہ ہے کہ ۱۱ نومبر کو ان کے یوم پیدائش کی مناسبت سے ریاستی اور ملکی سطح پر یوم تعلیم منایا جاتا ہے، اور یہ یوم تعلیم کا منایا جانا ہمیں مولانا آزاد کے اس دعوے کی یاد تازہ کرا دیتا ہے جس سے وہ دستبرداری کے لئے ہرگز تیار نہ تھے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ”میں فخر کے ساتھ محسوس کرتا ہوں کہ میں ہندوستانی ہوں، میں ہندوستان کی ایک ناقابل تقسیم متحدہ قومیت کا عنصر ہوں، میں اس متحدہ قومیت کا ایک اہم عنصر ہوں جس کے بغیر اس کی عظمت کا ہیکل ادھورا رہ جائے گا، میں اس تکون کا ایک نا گزیر عامل ہوں، میں اپنے اس د عوے سے کبھی دستبردار نہیں ہو سکتا“۔
میں اپنی اس تحریر کو آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لال نہرو کے اس تاریخی اقتباس اور مولانا آزاد کے انتہائی قریبی دوست اور عزیز کی حیثیت رکھنے والے شورش کاشمیری کے ان یاد گاری مصرعوں کے ذریعے پایہ تکمیل تک پہنچانا چاہتا ہوں جو انھوں نے مولانا کی وفات ۲۲ فروری ۸۵۹۱کے موقع پر ان کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا تھا، جس کا حرف حرف صادق اور مولانا کی شخصی، علمی، فکری، عملی اور نظریاتی پہلوؤں کا ترجمان ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
”میں یہ نہیں کہتا کہ ہندوستان میں عظیم انسان پیدا نہیں ہوں گے، یقینا پیدا ہوں گے۔ لیکن جو عجیب و غریب اور مخصوص عظمت مولانا آزاد کو حاصل تھی، وہ اب نہ تو ہندوستان میں کسی کو حاصل ہوگی اور نہ ہندوستان کے باہرکسی کے نصیب میں آئیگی۔ وطن کا کارواں اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہے گا لیکن مولانا آزاد جو امیر کارواں تھے، ہم سے جدا ہو گئے۔ اچھا ہو کہ ہم ان کی تقلید کریں۔“
شورش کاشمیری نے مولانا کے سانحہ ارتحال کے اضطراب آ سا منظر کا نقشہ بڑے ہی دل آویز انداز میں کھینچا تھا جسکا آخری چار مصرعہ اس طرح بیان کیا ہے کہ:
یہ کون اٹھا کہ دیر و کعبہ شکستہ دل، خستہ گام پہنچے
جھکا کے اپنے دلوں کے پرچم، خواص پہنچے، عوام پہنچے
تری لحدپر خدا کی رحمت، تری لحد کو سلام پہنچے
مگر تری مرگ نا گہاں کا مجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے

You may also like

Leave a Comment