آٹھ ارب انسانی آبادی والی یہ دنیا ایک انسانی سمندر ہے جس میں سوا تین لاکھ قطری شہریوں سمیت تیس لاکھ آبادی والا قطر اپنے رقبے اور آبادی کے اعتبار سے تو فقط ایک ‘قطرۂ آب’ ہے مگر سیاسی اور معاشی حیثیت سے وہ ایک ایسا ‘کوزہ’ ثابت ہو چکا ہے جس نے ‘سمندروں’ کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ اس کے دور اندیش حکمرانوں نے اسٹیبلش کر دیا ہے کہ اگر دولت ہاتھ میں ہو اور فراست ایمانی ساتھ میں ہو تو تمدن کی چلتی ہوئی ٹرین اور تہذیبوں کے اڑتے ہوئے جہاز کا بھی رخ موڑا جا سکتا ہے۔ کھان پان سے لیکر پہناوے تک میں اپنے اصولوں اور اپنی تہذیبی شناخت کی بالادستی قائم رکھتے ہوئے اپنی مہمان نوازی سے دلوں کو نہ صرف مسخر کیا جا سکتا ہے بلکہ ان معاشروں کو اپنی شرائط پر مہمان بنایا جا سکتا ہے جن کے پنکھ چھو کر تیسری دنیا کی ‘دیہاتی قومیں’ اپنے آپ کو ترقی یافتہ سمجھنے لگتی ہیں۔
دنیا کے نقشے پر بظاہر ایک ‘قطرہ’ دکھائی دینے والے قطر نے اس وقت فٹبال کے عالمی مقابلے فیفا ورلڈ کپ 2022 کے حوالے سے پوری دنیا میں ہلچل مچا رکھی ہے۔ اپنی زمین پر ہم جنس پرستی کی بدبودار تشہیر اور شراب کے بیہودہ استعمال پر پابندی لگا کر قطر نے مغرب کو گویا باالفعل سمجھا دیا کہ تمہاری ‘آزادی’ وہیں پہ ختم ہو جاتی ہے جہاں سے ہماری ناک شروع ہوتی ہے۔
اس فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی میں قطر نے اپنی دولت کو پانی کی طرح بہایا ہے لیکن یہ بات معاشی ماہرین ہی زیادہ سمجھتے ہیں کہ قطر نے چند ‘قطرے’ بہا کر اپنے سمندر میں دولت کے کتنے نئے ‘دریا’ گرا لئے ہیں۔ ہمارا سیدھا سادہ مذہبی طبقہ جو صرف دولت کے کھلے خرچ کو ‘عیاشی’ سمجھتا ہے وہ اپنی جیبیں ٹٹولے بغیر قطر کو دن رات تنقید کا نشانہ بناتا رہتا ہے۔ ہم ایسی محفلوں میں بس ایک ہلکے سے تبسم پر اکتفا کر لیتے ہیں۔
آنکھوں کو خیرہ کر دینے والی فیفا ورلڈ کپ کی شاندار میزبانی سے قطر نے اگر دنیا کو حیران و ششدر کر دیا ہے تو ہمارے خیال سے اس میں کوئی بڑی بات نہیں۔ تیل کی دولت سے مالامال تقریباً تمام عرب ممالک اپنے معیار زندگی میں اس وقت باقی دنیا سے بہت آگے ہیں۔
وہ عام طور پر فراخ دل واقع ہوئے ہیں۔ انکی میزبانی کل بھی مثالی تھی اور آج بھی مثالی ہے۔ اللہ نے ایک طرف انھیں تیل کی دولت سے مالامال کیا ہے تو دوسری جانب انھیں فراخ دستی بھی عطا کی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ عالمی سرمایہ کاری کے لئے اس وقت یہ عرب ممالک تمام عالم کے لئے مرکز نگاہ بنے ہوئے ہیں۔ وہ بھی اپنی دولت کو مختلف سیکٹرز میں لگانا چاہتے ہیں۔ کاش ہمارے درمیان ایسے لوگ ہوتے جو مٹھی بھر چندوں کے لیے ہاتھ پھیلانے کے بجاۓ ملک و قوم کی معاشی ترقی اور استحکام کے لیے پر کشش تجارتی پروجیکٹس اور منصوبوں کے ساتھ انہیں ایپروچ کرتے مگر افسوس کہ قومی اور ملی افلاس کے خاتمے کے لئے کسی ایسی منظم معاشی جد و جہد کا خیال تک نہیں آتا جو اس ملک میں مسلمانوں کی سیاسی اور سماجی ترقی کا واحد راستہ ہے۔ یہی وہ راستہ ہے جو ہر طرح کی غربت اور قومی بے مائیگی کا خاتمہ کر سکتا ہے۔
مادی وسائل کاصحیح استعمال انسانی معاشروں پر کس قدر مثبت اثرات مرتب کرتا ہے، قطر اسکی ایک بہترین مثال ہے۔ فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی سے اس چھوٹے سے ملک نے دنیا کو بہت متاثر کیا ہے۔ ایک طرف دوحہ شہر کی اپنی چکا چوندھ، دوسری طرف آنکھوں کو ورطۂ حیرت میں ڈال دینے والے عظیم الشان اسٹیٹ آف دی آرٹ اسٹیڈیمس، تیسری طرف شائقین کی میزبانی کے انتہائی دلکش اور دل پذیر انتظام و انصرام اور ان سب کو اپنے پاکیزہ اور روحانی دائروں میں سمیٹتی ہوئی اسلامی تعلیم و تہذیب کی ہمہ جہت اور پر کشش دعوت مغرب کے دیسوں سے آنے والے شائقین کو حیرت انگیز اور ‘عقیدہ شکن’ تجربات سے آشنا کر رہی ہے۔ آپ کے علم میں ہوگا کہ ورلڈ کپ کے آغاز میں ہی صرف ایک یا دو دنوں میں سینکڑوں لوگوں نے اسلام قبول کر لیا۔ ایک طرف سڑکوں، عمارتوں، بازاروں اور ایوانوں کی ظاہری چمک دمک اور دوسری جانب حسن اخلاق کے چلتے پھرتے، ہنستے اور بولتے انسانی پیکر قطر سے باہر بھی ان کروڑہا لوگوں کو متاثر کر رہے ہیں جو سوشل میڈیا پر ان مناظر کو دیکھ رہے ہیں۔ اور تاثیر کی اس گرفت میں نرم اور گرم سب ہم مزاج ہو رہے ہیں۔ ہندوستان میں موجود ان آنکھوں میں بھی ہم نے مرعوبیت کی دبیز لکیریں دیکھی ہیں جو ہماری قومی مظلومیت اور کسمپرسی کو بڑی رعونت سے دیکھنے کی عادی رہی ہیں۔
قطر کی یہ خوبیاں صرف فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی تک محدود نہیں ہیں۔ قطر کا اصل کمال اسکی وہ کامیاب سفارت کاری ہے جس نے عالمی سیاست کو ایک نئی جہت دیکر امن اور استحکام کی راہوں کو ہموار کرنے میں بے مثال کردار ادا کیا ہے۔ اس چھوٹے سے ملک نے دنیا کی بڑی اور چھوٹی طاقتوں کے درمیان توازن قائم کر کے یہ ثابت کر دیا ہے کہ اگر ایک چھوٹا سا ملک بھی چاہے تو وہ اپنی سالمیت کو بنیاد بناتے ہوئے ایک اہم بین الاقوامی اور علاقائی کھلاڑی بن سکتا ہے۔
اسے ایمانی فراست ہی کہا جا سکتا ہے کہ قطر نے اسٹیٹ ایکٹرز اور نان اسٹیٹ ایکٹرز یعنی ہمیشہ ریاست اور اسکے باغیوں کو گفتگو کی میز پر لا بٹھا دینے کی کامیاب حکمت عملی اختیار کی اور دونوں متحارب گروہوں کے درمیان ثالثی کا ثمر آور کردار ادا کرتے ہوئے ایسے کئی معرکے سر کئے ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ قطر نے 2008 میں یمنی حکومت اور حوثی باغیوں کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کیا۔ گو کہ ‘جنگ’ ابھی بھی جاری ہے مگر امید کی جا سکتی ہے کہ بہت جلد اچھے نتائج سامنے آئیں گے۔ قطر نے 2008 میں لبنان کے متحارب گروہوں کے درمیان مذاکرات میں ثالثی کی جس کے بعد 2009 میں اتحادی حکومت قائم ہوئی۔ 2009 میں ہی سوڈان اور چاڈ کے درمیان باغیوں کے مسئلے پر مذاکرات میں حصہ لیا، جبوتی اور اریٹیریا کے درمیان سرحد پر مسلح جھڑپوں کے بعد سنہ 2010 میں قطر نے ان کے درمیان بھی ثالثی کا کردار ادا کیا جس کی تعریف افریقی اتحاد نے بھی کی۔
اتنا ہی نہیں بلکہ 2011 میں سوڈانی حکومت اور باغی گروہ لبریشن اینڈ جسٹس موومنٹ کے درمیان بھی دارفور معاہدہ کرایا جسے دوحہ معاہدہ بھی کہا جاتا ہے اور سال 2012 میں حماس اور فتح گروہوں کے درمیان بھی صلح اور عبوری حکومت کے ڈھانچے پر معاہدہ کرانے میں قطر نے اپنا رول ادا کیا۔ قطر کے جس رول کی ابھی حالیہ عرصے میں جم کر تعریف ہوئی اور جس نے ایک تاریخ رقم کر دی ہے وہ طالبان اور امریکہ کے درمیان افغانستان سے انخلا کا معاہدہ ہے۔
دنیا میں امن اور استحکام کے لئے قطر کی ان کامیاب کوششوں میں قطر کی جو اصل پالیسی نظر آتی ہے وہ ‘ہارڈ پاور’ اور ‘سافٹ پاور’ کے بیچ ‘سمارٹ پاور’ کے استعمال کی بہترین مثال ہے۔ اپنے اور مخالفین کے درمیان ‘ونڈو آف اپرچونیٹی’ یعنی بات چیت اور مصالحت کے لیے ایک کھڑکی کھلی رکھنے کی حکمت عملی ہر دور میں کارگر رہی ہے۔ قطرنے اسی حکمت عملی کو بروے کار لا کر زمین پر امن کی راہیں ہموار کرنے کی کوشش کی ہے۔ بنیادی طور پر قطر نے اپنے آپ کو اس پوزیشن پر لانے کے لیے ایک طرف عالمی معیار کے اپنے نیوز چینل الجزیرہ کو اور دوسری طرف مغرب و مشرق میں سرمایہ کاری کو اپنی حکمت عملی کا خاص حصہ بنایا۔
قصہ مختصر، عالمی کھیل کود کی تقریبات کو میزبانی کے بہانے دعوت توحید کا ایک عظیم الشان ذریعہ بنانے سے لیکر سرمایہ کاری تک اور سرمایہ کاری سے لیکر کامیاب سفارت کاری تک قطر تمام مسلم ممالک کے لیے ایک مشعل راہ بن گیا ہے۔ اس نے یہ نظیر قائم کر دی ہے کہ دولت اگر ہاتھ میں ہو اور ایمان و حکمت بھی ساتھ میں ہو تو بڑی بڑی سیاسی طاقتوں کو بھی اپنی شرطوں پر خوش دلی کے ساتھ جھکایا جا سکتا ہے۔ قطر کی اس شاندار کہانی میں ہمارے ملک کی مسلمان ‘قیادتوں’ کے لیے بھی بہت کچھ ہے کہ وہ اپنے اس ملک میں کیا کیا کر سکتے ہیں۔ خدا کرے کہ وہ اس طرف توجہ دیں !