Home خاص کالم فیفا-۲۰۲۲ کا میزبان ملک قطر – عبداللہ ممتاز

فیفا-۲۰۲۲ کا میزبان ملک قطر – عبداللہ ممتاز

by قندیل

تقریبا تیس لاکھ کی آبادی پر مشتمل قطر ؛ خلیج میں واقع عالم عرب کا ایک مشہور ترین ملک ہے جو فی کس آمدنی کے اعتبار سے پوری دنیا میں نمبر ایک پر ہے اور ان دنوں فیفا عالمی کپ کی وجہ سے سرخیوں میں ہے۔
1916ء میں یہ خلافت عثمانیہ سے ٹوٹ کر برطانیہ کا اتحادی بن گیا تھا اور پھر 1971ء میں برطانیہ سے بھی آزادی حاصل کرلی، 1950ء کی دہائی تک قطر کی حالت بھی دیگر عرب ممالک جیسی؛ بلکہ ان سے بدترتھی، دوسری جنگ عظیم کے بعد تیل نکلنا شروع ہوا اور حالت بہتر ہونے لگی۔ 1971ء قطر کے لیے ٹرننگ پوائنٹ ہے کہ امسال برطانوی سامراج سے آزادی ملی اور اُسی سال قدرتی گیس کی دریافت ہوئی. روس اور ایران کے بعد، پوری دنیا میں سب سے زیادہ قدرتی گیس کا ذخیرہ قطر کے پاس ہے۔
1995ء تک خلیفہ بن حمد الثانی قطر کے امیر تھے؛ لیکن وہ سعودی کی روش پر تیل اور گیس کے ذخائر کے سہارے ملک کی تعمیر وترقی میں لگے ہوے تھے؛ لیکن ان کے بیٹے حمد بن خلیفہ الثانی کو یہ پسند نہ تھا، اس نے سمجھ لیا تھا کہ تیل اور گیس ختم ہونے والا ذخیرہ ہے، ملک کو اس کے بھروسے پر نہیں چھوڑا جاسکتا؛ چناں چہ اورنگ زیب کی تاریخ کو دہراتےہوے اس نے اپنے باپ کا تختہ پلٹا اور امیرقطر بن گئے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق قطر کی پوری چمک دمک اور تعمیر وترقی کا پورا کریڈٹ اسی حمد بن خلیفہ کو جاتا ہے۔ اس نے تیل سے آنے والی آمدنی کو عیاشی کا ذریعہ بنانے کے بجائے دنیا بھر میں انویسٹ کرنا شروع کیا۔ برطانیہ، امریکہ، کینیڈا اور سنگاپور جیسے امیر ترین ممالک میں انویسٹ کیااور اس طرح قطر کی آمدنی دوگنی تگنی ہوتی چلی گئی، آج بھی قطر دنیا کے چند بڑے انویسٹروں میں سے ایک ہے. خلیفہ حمد نے میڈیا کی اہمیت کس اسی وقت سمجھ لیا تھا، اس لیے 1996ء میں ہی دنیا کا عظیم ترین نیوز نیٹ ورک الجزیرہ قائم کیا۔
یوں تو ترقی عرب امارات اور سعودی نے بھی کچھ کم نہیں کی ہے، ان کی بھی اپنی پالیسیاں ہیں؛ لیکن گزشتہ دو دہائی میں جس طرح قطر نے غیرت اسلامی اور فراست ایمانی کا ثبوت دیا ہے، مسلمانوں میں اس کی قدر واہمیت بڑھتی چلی گئی ہے۔ افغانستان سے مکمل امریکی انخلاء کا معاہدہ اسی قطر کی ثالثی میں، قطر کی راجدھانی دوحہ میں انجام پایا تھا۔ جب دنیا بھر کی نظروں میں طالبان ایک دہشت گرد گروپ تھا اور امریکہ اور ناٹو افواج افغانستان میں طالبان سے برسرپیکار تھے، تب 2013ء میں قطر نے اپنی راجدھانی دوحہ میں طالبان کو اپنی آفس کھولنے کی اجازت دی جو تاحال قائم ہے۔ طالبانی حکومت کے قیام کے بعد سب سے پہلے قطر نے طالبان کو سپورٹ کیا۔ مصر میں اخوان المسلین کی ناکہ بندی کی گئی تو قطر نے اخوان کو سپورٹ کیا اور مہاجر اخوانیوں کو قطر میں پناہ دی، جن میں ایک عظیم نام علامہ یوسف القرضاوی کا بھی شامل ہے جن کی وفات کو ابھی ایک ماہ بھی نہیں ہوے ہیں۔ 2012ء میں دو فلسطینی مزحمتی گروہوں، حماس اور حرکۃ التحریر کے درمیان ثالث بن کر صلح کرائی۔ 2008ء میں یمنی حکومت اور حوثی باغیوں کے درمیان صلح کرائی، 2011ء میں سوڈانی حکومت اور باغی گروپوں کے درمیان مصالحت کرائی، اسی سال لبنان کے متحارب گروپوں کے درمیان اپنی ثالثی میں مصالحت کرائی جس کے بعدلبنان میں "متحدہ حکومت” قائم ہوئی۔
کوریا کے بعد قطر پہلا ایشائی ملک ہے جسے فیفا کی میزبانی کا موقع ملا ہے، اس نے اس خوبصورت موقع کو اسلام اور مسلمانوں کے مفاد کے لیے ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ تمام مخالفتوں کے باوجود شراب اور عریانیت کی اجازت نہیں دی، آنے والے زائرین کے لیے اسلام کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے کا موقع فراہم کیا۔دنیا میں شاید قطر پہلا ایسا ملک ہوگا جس نے ناظرین کو بہترین عطر، عود اور ڈرائی فروٹس جیسے قیمتی تحفے سے نوازا. ورلڈ کپ کا آغاز رقص وسرود کی محفل جما کر کرنے کے بجائے قرآن کریم کی تلاوت سے کی، گراؤنڈ کے اندر نماز کی ادائیگی کے لیے کئی مقامات مختص کیے۔ فٹ بال گراؤنڈ سے قریب کئی مساجد کو اسلامی نمائش گاہ Islamic exhibition میں تبدیل کردیا تاکہ لوگ بسہولت اسلام کو دیکھ اور سمجھ سکیں، ہوٹلوں میں کیو آر کوڈ کے ذریعہ اسلامی معلومات فراہم کیے گئے اور جگہ جگہ دعوتی مراکز بنائے گئے۔داعیوں کی ایک بڑی فہرست ہے، جن میں ایک بڑا نام ڈاکٹر ذاکر نائک کا بھی ہے، جن کے بیانات پر، یوروپ، برطانیہ،ہندوستان ، بنگلہ دیش اور سری لنکا پر پابندی عائد ہوچکی ہے، انھیں عام لوگوں سے ملنے اور خطاب کا موقع مل رہا ہے۔
ابھرتی ہوئی بڑی معیشتوں میں ایک بڑا نام متحدہ عرب امارات کا ہے جو اسرائیل کے سامنے گھٹنے ٹیک چکا ہے، سال گزشتہ ہی اسرائیل سے اپنے سفارتی تعلقات کا بھی آغاز کرلیا ، بزنس ڈیل اور کئی پروجیکٹس معاہدے بھی کیے؛ لیکن وہیں قطر نہ صرف فلسطینی وجود کو مانتا ہے؛ بلکہ ببانگ دہل اسرائیل کے وجود کو ناجائز بھی بتاتا ہے؛ چناں چہ اپنے یہاں زائرین کی فہرست ممالک میں اسرائیل کا نام شامل کرنے کے بجائے، فلسطین کا نام شامل کیا کہ اگر اسرائیلی آنا بھی چاہیں تو انھیں فلسطینی بن کر آنا ہوگا۔
ایل جی بی ٹی کیو، کے پرچار پرسار پر سخت بندش لگادی ہے اور صاف اعلان کیا ہے کہ یہ ہماری تہذیب وثقافت کے خلاف ہے، ہم اس کی اجازت نہیں دے سکتے؛ بلکہ "یہ ایک دماغٖی مرض ہے”جس کا علاج کیا جانا چاہیے؛ لیکن تب بھی اگر کسی کو شوق ہے تو وہ اپنے گھر پر رہیں۔ ایل جی بی ٹی کیو کے علامتی نشان کے ساتھ آنے والے طیارے کو قطر ایرپورٹ پر قیام کی اجازت نہیں دی۔
قطر؛ مادی وسائل سے مالامال، ایک چھوٹاسا ملک ہے، اس کے لیے اتنے جوکھم کل بھی آسان نہیں تھے اور آج بھی نہیں ہوں گے۔ قطر کا اپنے پڑوسی ممالک سعودی عربیہ اور عرب امارات سے معاہدہ تھا، کھانے پینے کی اسی فیصد اشیاء دودھ، دہی، گھی، گوشت، سبزی ترکاری وغیرہ ان ہی ممالک سے درآمد کیا کرتا تھا، 2017ء میں سعودی ، عرب امارات اور مصر نےاسی کا فائدہ اٹھا تے ہوے، دہشت گردی کے لیے فنڈنگ کا الزام لگا کر قطر پر بندش لگادی، اتفاق سے ماہ رمضان بھی تھا، مجھے یاد آتا ہے سعودی کے کسی سرکاری مفتی نے یہ بھی فتوی دیا تھا کہ جب تک قطر جھک کر سعودی سے معافی نہ مانگ لے، قطریوں کا عنداللہ روزہ بھی قبول نہیں ہوگا۔
بہرحال سخت حالات تھے، ترکی اور ایران جیسے ممالک نے سپورٹ کیا اور ان حالات سے باہر نکل آئے، اب اشیاء خوردنی میں بھی دوسروں پر انحصار کو بہت محدود کر چکا ہے۔ فیفا عالمی کپ میں جس طرح وہ اسلامی مظاہرے کر رہا ہے، ہوسکتا ہے اس کے بعد بھی اسے کئی مشکلات کا سامنا ہو۔ اللہ تعالی عالم اسلام کی حفاظت فرمائے۔
قطر کے شاہی خاندان؛ خود کو بنو تمیم کی نسل سے بتاتے ہیں، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو تمیم کے لیے بشارت دی ہوئی ہے کہ دجال کے لیے میری امت میں بنو تمیم سب سے سخت (ثابت قدم) لوگ ہوں گے۔
ما زِلْتُ أُحِبُّ بَنِي تَمِيمٍ مُنْذُ ثَلَاثٍ سَمِعْتُ مِن رَسولِ اللَّهِ صلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ يقولُ فيهم؛ سَمِعْتُهُ يقولُ: هُمْ أشَدُّ أُمَّتِي علَى الدَّجَّالِ (بخاری)
اگر واقعتا ان کا نسب بنو تمیم سے ملتا ہےتو کیا بعید ہے کہ اس حدیث کے مصداق یہی لوگ ہوں اور آئندہ جب دجال کا فتنہ زوروں پر ہوگا تو ملت اسلامیہ کےلیے اور بھی مفید ثابت ہوں گے اور دجال کے لیے سخت ترین واقع ہوں گے ۔

You may also like

Leave a Comment