Home نقدوتبصرہ جذب و عرفان کی شاعری ’ قطعاتِ مجذوبؔ ‘

جذب و عرفان کی شاعری ’ قطعاتِ مجذوبؔ ‘

by قندیل

تعارف و تبصرہ : شکیل رشید

خواجہ عزیز الحسن مجذوبؔ کی چند غزلیں ، کبھی کہیں پڑھی تھیں ، جو کچھ اس قدر پسند آئیں ، کہ کلامِ مجذوبؔ کی تلاش شروع کر دی ۔ پتا چلا کہ مجذوبؔ کا کلام شائع تو ہوا ہے ، لیکن اب اس کا ملنا مشکل ہے ۔ یقیناً مایوسی ہوئی تھی ، اسی لیے جب ندیم احمد انصاری کی مرتب کردہ ’ قطعاتِ مجذوبؔ ‘ نظر سے گزری ، تو دوچند مسرت کا احساس ہوا ۔ یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ مجذوبؔ کو ایک شاعر کے طور پر اردو دنیا نے پوری طرح سے نظر انداز کیا ہے ! اردو شعراء کے اکثر انتخابات میں بھی ان کا نام ڈھونڈے سے نہیں ملتا ! اپنے ایک بڑے شاعر کے تئیں اردو دنیا کی یہ بے حسی قابلِ افسوس ہے ۔ مجذوبؔ کتنے بڑے شاعر تھے اس کا اندازہ حضرت مولانا سید سلیمان ندوی کے ایک تاثراتی مضمون کی ، جس کا اقتباس کتاب کے ’ مقدمہ ‘ میں دیا گیا ہے ، کی اس سطر سے لگایا جا سکتا ہے : ’’ ان کی شاعری اپنے زمانے کی شاعری کا بے مثال نمونہ تھی ۔‘‘ اور مجذوبؔ کا زمانہ بڑے شاعروں کا زمانہ تھا ، اقبالؔ تھے ، جوشؔ تھے ، جگرؔ تھے ، فراق ؔتھے ، اصغرؔ تھے ، اور نہ جانے کتنے بڑے بڑے شاعر تھے ۔ مجذوبؔ حضرت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے خلیفہ و مجازِ بیعت تھے ، اور یہ خلیفہ و شیخ والا رشتہ کچھ ایسا گہرا تھا ، کہ مرض الوفات میں بھی حضرت تھانویؒ کی زبان پر ان کا یہ شعر تھا؎

ہر تمنا دل سے رخصت ہو گئی

اب تو آجا اب تو خلوت ہو گئی

کہتے ہیں کہ اس شعرکے بارے میں حضرت تھانویؒ فرمایا کرتے تھے کہ مجھے جب یہ شعر یاد آتا ہے تو میں تو کم از کم اسے تین دفعہ ضرور دہراتا ہوں ، اس شعر کو وہی سمجھ سکتا ہے ، جس نے اپنا سب کچھ اللہ کے لیے قربان کردیا ہو ۔ حضرت تھانویؒ کی نظرمیں مجذوب ؔ کا کلام حال ہی حال ہے ، قال کا نام و نشان نہیں ، کیونکہ قال میں یہ اثر ہونا ناممکن ہے ۔

جذب و عرفان کے شاعر کے کلام کی بعنوان ’ قطعاتِ مجذوبؔ ‘ اشاعت ادبی دنیا کا ایک اہم واقعہ ہے ، اور اس کے لیے ندیم احمد انصاری بلاشبہ مبارک باد کے مستحق ہیں ۔ مرتب خواجہ مجذوبؔ پر پی ایچ ڈی کر رہے ہیں ، انہوں نے اس کتاب کا ایک نہایت وقیع تحقیقی ’ مقدمہ ‘ تحریر کیا ہے ، جسے چار حصوں میں تقسیم کیا ہے ۔ پہلے حصے میں ’ خواجہ عزیز الحسن مجذوبؔ : شخصیت و شاعری ‘ پر بات کی گئی ہے ۔ وہ لکھتے ہیں : ’’ شاعرِ جذب و عرفاں خواجہ عزیز الحسن مجذوبؔ غوری نہایت پرگو اور زودگو شاعر تھے ، لیکن انہوں نے اپنے کلام کو کبھی محفوظ کرنے یا طبع کرانے کا اہتمام نہیں کیا ، گو آخر عمر میں اُنہیں اس کی فکر دامن گیر رہنے لگی تھی ۔ سب سے اول ایک انتخاب مفتی محمد رضا انصاری فرنگی محلی نے ’ مجذوبؔ اور ان کا کلام ‘ کے نام سے شائع کیا ۔ پھر مولانا ظہورالحسن کسولوی نے ’ کشکولِ مجذوبؔ ‘ کے نام سے ایک کتاب شائع کی ۔ خواجہ صاحب کی وفات کے بعد ان کے صاحب زادے خواجہ ولی الحسن غوری کے ایما پر ڈاکٹر سوزؔ شاہ جہاں پوری نے تصحیح و نظر ثانی کے ساتھ ’ گفتۂ مجذوبؔ ‘ کے نام سے ایک کتاب مرتب کی ۔ اس کے آخری صفحے پر لکھا ہوا ہے : ’ حضرت مجذوبؔ کی نظموں کا مجموعہ ان شا اللہ عن قریب زیورِ طباعت سے آراستہ ہوکر منظرِ عام پر آئے گا ‘ لیکن شاید یہ خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا ۔ یہ ہے خواجہ صاحب کا دستیاب شعری سرمایہ ۔‘‘ آگے مجذوبؔ کی شخصیت کا تفصیلی تعارف ہے ۔ وہ ڈپٹی کلکٹر تھے ، مگر اپنا تبادلہ کم تنخواہ پر محکمۂ تعلیم میں کرا لیا تھا اور انسپکٹر آف اسکولس ( اتر پردیش ) کے عہدے تک پہنچے ۔ حضرت تھانویؒ سے نسبت کی بنا پر اُنہیں ’ محبوب کا محبوب ‘ سمجھا جاتا تھا ۔ مجذوبؔ تخؒلص بھی حضرت تھانویؒ کابخشا ہوا تھا ۔ سید سلیمان ندوی کے اقتباس میں لکھا ہے : ’’ خواجہ صاحب پورے شاعر تھے ، جب وہ اپنا شعر سُنانے پر آتے تھے تو ایک غزل دو غزل بلکہ بیسیوں غزل سُنا ڈالتے تھے ، اس کی اُن کو کچھ پروا نہیں ہوتی تھی کہ کون اِس کو سُن رہا ہے اور کون داد دے رہا ہے ، وہ اپنے اشعار سے آپ لطف اندوز ہوتے تھے اور جھومتے تھے ۔‘‘ مجذوبؔ تخلص کی وجہ شاید اُن کا جذب تھا ۔

’ مقدمہ ‘ کا دوسرا حصہ ’ مجذوبؔ کی قطعہ نگاری ‘ کے عنوان سے ہے ۔ ندیم احمد انصاری لکھتے ہیں : ’’ خواجہ صاحب کے قطعات میں دنیا کی بے ثباتی ، انقلابِ دنیا ، شانِ جلال و جمال ، حالتِ جذب ، حسن و عشق ، دیوانگی ، رعنائی ، حقیقتِ حسن ، جوش و ہوش ، شورش ، تفویض ، تقدیر ، رضا بر قضا ، توکل ، غفلت ، ذکر و فکر ، صبر و شکر ، جدوجہد ، سُستی کا علاج ، اختیاری و غیر اختیاری کی بحث ، ماضی و مستقبل کی فکر ، استغنا ، کیفیتِ قبض و بسط ، قبول و وصول ، کیدِ نفس و شیاطین اور فنا و بقا وغیرہ موضوعات زیرِ بحث آئے ہیں ۔‘‘ تیسرا حصہ ’ صنفِ قطعہ نگاری ‘ ، اور چوتھا حصہ ’ اردو میں قطعہ نگاری : ایک جائزہ ‘ کے عنوان سے ہیں ۔ اس مجموعہ میں مجذوب کے ۱۸۷ قطعات دیے گیے ہیں ، جن میں سے چار فارسی میں ہیں ۔ دو قطعات ملاحظہ کریں ؎

غمِ عشق جا کر بھی غم کم نہ ہو گا

کہ پھر غم نہ ہونے کا کیا غم نہ ہوگا

نہ کر غم کے جانے کی ہرگز تمنا

گیا غم تو یہ دل کا عالم نہ ہوگا

 

کہاں تیری مجذوبؔ ژولیدہ حالی

کہاں باریابیٔ درگاہِ عالی

مگر ہو نہ مایوس پھر بھی کرم سے

یہ حسرت بھی تیری نہ جائے گی خالی

جذب سے بھرے قطعات کا یہ مجموعہ ’ الفلاح انٹرنیشنل فاؤنڈیشن ‘ نے شائع کیا ہے ۔ صفحات 108 اور قیمت 150 روپیہ ہے ۔ موبائل نمبر 9022278319 پر رابطہ کرکے اس مجموعہ کو حاصل کیا جا سکتا ہے ۔

You may also like