( ایڈیٹر، ممبئی اردو نیوز)
تو کیا اب اس ملک میں کسی ایسے مسلمان کے لیے ، جو حکومت کی نظر میں معتوب رہا ہو ،’ دعائے مغفرت ‘ بھی نہیں کی جانی چاہیے ؟
نہیں ، حکومت نے کوئی ایسا اعلان نہیں کیا ہے ، لیکن یہ سوال اس لیے اٹھ رہا ہے ، کہ عتیق احمد اور اس کے بھائی اشرف کے بہیمانہ قتل کے بعد ، مولانا سجاد نعمانی کے ذریعے ان کے لیے کی جانے والی ’ دعائے مغفرت ‘پر کچھ مسلمانوں نے اعتراض جتایا ہے ، اور ایک صاحب نے تو باقاعدہ اس تعلق سے ایک تحریری بیان تک دے دیا ہے ۔ بات قاسم رسول الیاس کی ہے ، جو آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن عاملہ ہیں ، انھوں نے بورڈ کے لیٹر ہیڈ پر ایک بیان جاری کر کے کہا ہے کہ مولانا سجاد نعمانی کی ’ دعائے مغفرت ‘ کا بورڈ سے کوئی تعلق نہیں ہے ، یہ ان کا ذاتی بیان ہے ۔ سوال یہ ہے کہ انہیں ایسا بیان دینے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی ؟ اس سوال کا ایک ممکنہ جواب یہ ہو سکتا ہے ،کہ چونکہ مولانا سجاد نعمانی خود بورڈ کے رکن عاملہ ہیں ، اس لیے ان کے بیان کو بورڈ کا بیان سمجھا جا سکتا تھا ، اسی لیے قاسم رسول الیاس نے وضاحت کر دی کہ ’ دعائے مغفرت ‘ مولانا کا ذاتی معاملہ ہے ، اس کا بورڈ سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ لیکن اگر لوگ مولانا سجاد نعمانی کے بیان کو ، بورڈ کا بیان سمجھ لیتے ، تب بھی اس سے بورڈ کی ساکھ پر کیا کوئی منفی اثر پڑ جاتا ؟ شاید قاسم رسول الیاس کو ایسا ہی لگ رہا تھا ۔ شاید وہ یہ سمجھ رہے تھے کہ مولانا سجاد نعمانی کی ’ دعائے مغفرت ‘ کا کسی بھی طرح سے کوئی تعلق بورڈ سے نہیں ہونا چاہیے ۔ لیکن کیوں ؟ شاید اس لیے، کہ مولانا سجاد نعمانی کی ’ دعائے مغفرت ‘ کے ساتھ ،کچھ بددعائیں بھی جڑی ہوئی ہیں ۔ مولانا سجاد نعمانی نے جہاں مغفرت کی دعا کی وہیں یہ بھی کہا کہ اے اللہ ! ان بھائیوں کے جو قاتل ہیں انہیں بدترین سزا دے ، ان کی موت کتّوں کی طرح ہو ۔ یقیناً آج کے حالات میں، اس طرح کی بددعا کرنے کے الزام سے لوگ بچنا چاہیں گے ، لیکن مجھے نہیں لگتا کہ یہ دعا کسی حکومتی عہدیدار کے خلاف ہے یا کسی پولیس والے کے خلاف ہے ، یہ دعا تو اُن قاتلوں کے خلاف ہے جنہوں نے عتیق اور اشرف پر گولیاں چلائی تھیں ، اور جو ان تینوں قاتلون کے پیچھے ہیں ، جو ظاہر ہے کہ قاتلوں کی پشت پناہی کے ملزم ہی کہے جائیں گے ، اس لیے بددعا کے خود مستحق ہوں گے ۔ لہٰذا مولانا سجاد نعمانی کی ’ بددعا ‘ نہ متنازعہ ہے اور نہ ہی حکام کے خلاف ہے ۔ اس لیے قاسم رسول الیاس کو بورڈ کی طرف سے کوئی بیان دینے کی ضرورت نہیں تھی ۔ رہی بات ’ دعائے مغفرت ‘ کی تو ہر مسلمان، اس کے لیے ، جو مر چکا ہو ، ’ دعائے مغفرت ‘ کرتا ہے ، چاہے مرنے والا اچھا ہویا بُرا ، یہ مذہبِ اسلام کا ایک طریقۂ کار ہے ۔ قاسم رسول الیاس کا معاملہ اس لیے بھی قدرے ’ تلخ ‘ بن جاتا ہے کہ ان کے بیان کی تائید بورڈ نے بھی کردی ہے اور بورڈ کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ سے اس کی تشہیر کی ہے ۔ اب سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ قاسم رسول الیاس نے بورڈ کے لیٹر ہیڈ پر ، ذاتی حیثیت سے بیان دیا ہے یا کسی اور کی ایما یا اشارے پر مولانا سجاد کے خلاف بیان دیا ہے ؟ اور کیا اس طرح کے معاملہ میں انہیں کوئی بیان دینے کی ضرورت تھی ؟ نیز اب اگر مولانا سجاد نعمانی ، جو خود بورڈ کے رکن عاملہ ہیں ، بورڈ ہی کے لیٹر ہیڈ پر ، خود کوئی وضاحتی بیان دیں ، تو کیا انہیں روکا جا سکے گا ؟ یقیناً نہیں ، اور اگر روکا گیا تو بورڈ میں ایک طرح سے ’ اٹھا پٹخ ‘ شروع ہوجائے گی ، تو کیا کچھ لوگ یہی چاہتے ہیں ؟ سچ تو یہ ہے کہ اگر مسلم قائدین اپنے اوپر اس طرح کی ’ پابندی ‘ یا ’ پابندیاں ‘ عائد کریں گے یا دوسروں کو روکیں گے ، تو اس ملک میں انہیں اپنے ہر دینی شعار کو چھوڑنا پڑے گا ۔ یہ سمجھا جائے گا کہ مسلمان اب اپنے دینی معاملات میں ’ مفاہمت ‘ کرنے کے لیے آمادہ ہے ، اور اس پیغام کا شرپسندوں تک جانا ،مسلمانوں کے لیے ٹھیک نہیں ہوگا ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)