ششی تھرور ہندوستانی سیاست و دانش کا چمکتا دمکتا نام ہیں۔ اپنے تعلیمی تفوق و امتیازات کے حوالے سے قومی و بین الاقوامی شہرت و مقبولیت رکھنے والے تھرور کی مثالی ذہانت اور روشنیِ طبع بھی انھیں معاصرین میں انفرادیت بخشتی ہے، ان کے سراپا ، باڈی لینگویج اور تعبیر و اظہارِ خیال میں بھی ایسی کشش پائی جاتی ہے کہ وہ جس مجلس میں ہوں ، اس پر چھا جاتے ہیں اور ان کا جادو جگانے والا اندازِ بیان اور ہینڈسم پرسنالٹی صنفِ نازک ( چاہے وہ ہندوستانی ہو یا یورپی و امریکن) کو کچھ الگ ہی طور سے مسحور کرتی ہے ۔
تھرور کی دلچسپ و سحر انگیز شخصیت کی کئی جہتوں میں سے ایک اہم جہت ان کی قلمی ، ادبی و تحریری سرگرمیاں ہیں۔ وہ اب تک دودرجن سے زائد فکشن اور نان فکشن کتابیں لکھ چکے ہیں ، جنھیں علمی و ادبی دنیا میں ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور ایک بڑے حلقے میں پڑھی گئی ہیں۔ ان کی انھی کتابوں میں سے ایک ہے Bookless in Baghdad جو در اصل ادب، ادیب، ثقافت، تنقید اور کتابوں سے متعلق ان مضامین کا مجموعہ ہے جو مختلف قومی و بین الاقوامی اخبارات و رسائل میں شائع ہوئے تھے۔ اس کا پہلا ایڈیشن 2005 میں ہی آیا تھا، مگر کنٹینٹ کے اعتبار سے اس کی تازگی ہنوز برقرار ہے؛ چنانچہ پینگوئن سے اس کے ایک سے زائد ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں۔ اس کتاب کی خاص بات یہ ہے کہ یہ ہمیں رائٹر تھرور سے زیادہ ریڈر تھرور سے متعارف کرواتی ہے ۔ اس کے مضامین پانچ معنی خیز مرکزی عناوین کے تحت منقسم کیے گئے ہیں اور ہر حصے کے مضامین دلچسپ ہیں۔ ان کے مطالعے سے جہاں خود تھرور کے ناولوں کا تخلیقی کینوس، تاریخی و ثقافتی بیک گراؤنڈ سامنے آتا ہے، وہیں دنیا کے چند سربرآوردہ ادیبوں کے تعلق سے تھرور کے عقیدت مندانہ، تحسین آمیز یا تنقیدی آرا و افکار سے آگاہی ہوتی ہے، تھرور جہاں رشدی ، پشکن، پاز، ووڈ ہاؤس ، جارج آرویل ، میلکم موگریج، پابلو نیرودا سے متاثر نظر آتے ہیں اور ان کی تخلیقات و شخصیت میں مدح و ستایش کے پہلو تلاش کرتے ہیں وہیں آر کے ناراین، نراد(نیرد) چودھری اور وی ایس نائپال پر ان کے واضح تنقیدی نوٹس بڑے معنی خیز ہیں۔ اس کتاب کا پہلا مضمون خاص طور پر قابل ذکر ہے جس میں تھرور نے اپنی ماجرا پرور کتابی، مطالعاتی زندگی کا احوال بیان کیا ہے اور بتایا ہے کہ کیسے کیرالا ، ممبئی اور کولکاتا کی ان کی ابتدائی سہ ابعادی زندگی نے ان کے تعلیمی سفر کو ماحولیاتی، لسانی و ثقافتی تنوع بخشنے کے ساتھ ان کی مطالعاتی امنگوں کو توسع عطا کیا اور بہت نوعمری میں ہی کیسے وہ ایک پرجوش قاری بن گئے۔
دو مضامین میں تھرور نے امریکی شرح خواندگی اور وہاں کی ادبی و تخلیقی صورت حال کے تعلق سے مبالغہ آرائیوں پر مبنی مرعوب کن مفروضوں کا بھی اچھا جائزہ لیا ہے۔ اسی طرح معاصر ادبی تنقیدی رویوں پر بھی تھرور کی رائے دلچسپ ہے، ایک بہت مزے دار مضمون میں تھرور نے بتایا ہے کہ مصنفین اور ادبا منفی یا تنقیص آمیز تبصروں سے کیسے نمٹ سکتے ہیں، اس ضمن میں انھوں نے اپنے ساتھ پیش آنے والے بعض واقعات سے مثالیں پیش کی ہیں۔
کتاب کا ٹائٹل در اصل اسی عنوان کے ایک مضمون سے ماخوذ ہے اور یہ مضمون تھرور نے ان دنوں لکھا تھا، جب خلیج کی جنگ چل رہی تھی اور انھیں اقوام متحدہ نے ایک وفد کے ساتھ مہاجرین سے متعلق ایک پروجیکٹ پر بغداد بھیجا تھا۔ وہاں تھرور شارعِ متنبی کے مشہور کتاب بازار سے گزرتے ہیں اور جنگی حالات کی بے یقینیوں کی وجہ سے لبِ راہ بہت معمولی قیمتوں پر براے فروخت رکھی ہوئی بعض بہت اہم اور نادر کتابوں کو دیکھ کر حیرت ، مسرت اور افسوس کی متضاد کیفیتوں سے دوچار ہوتے ہیں۔ اس مضمون میں تھرور نے عربی کے زندہ جاوید شاعر متنبی کو بھی خراج عقیدت پیش کیا ہے۔
ان کے علاوہ ہندوستانی انگریزی ادب کو درپیش چیلنجز ، ہندوستانی انگریزی ادب کے سینٹ اسٹیفینین ورژن اور عالمگیریت کے عہد میں تخیل و تخلیق کے بدلتے رویوں اور سمتوں پر لکھے گئے مضامین بھی خاصے خرد افروز ہیں۔ ایک مضمون میں سابق برطانوی وزیراعظم چرچل کی شخصیت کے تضادات اور نیرنگیوں پر بھی کھل کر اظہارِ خیال کیا ہے ۔
انگریزی ذخیرۂ الفاظ پر حیرت ناک قدرت کے حوالے سے بھی تھرور عالمی شہرت و شناخت رکھتے ہیں، جس کا نمونہ ان کی تقریروں اور تحریروں میں خوب دیکھنے کو ملتا ہے، یہ کتاب بھی اس کا نمونہ ہے ، وہ عام معانی و مفاہیم کی ادائیگی کے لیے بھی مشکل اور ان سنے الفاظ بے تحاشا استعمال کرتے ہیں، جس کی وجہ سے انھیں پڑھتے ہوئے ہم ایسے انگریزی زبان و ادب کے نو آنوزوں کو باربار ڈکشنری سے رجوع کرنا پڑتا ہے، جو یقیناً اس اعتبار سے فائدہ مند ہی ہے کہ اس طرح نئے نئے الفاظ اور ایک مفہوم کو ادا کرنے کے لیے مختلف و متنوع تعبیرات سے آشنائی ہوتی ہے۔ مطالعہ ، کتاب اور ادب کے شائقین کے لیے اس کتاب کا مطالعہ ایک خوشگوار تجربہ ثابت ہوسکتا ہے ۔