’’ہیلو‘‘
’’السلام علیکم مہرین!‘‘
’’کیا میں تم سے بات کر سکتا ہوں؟‘‘
’’ابھی کام پر ہوں۔ پھر بھی بات ہو سکتی ہے۔‘‘
’’ میں بہت مصیبت میں ہوں بہن۔ مجھے پیسوں کی سخت ضرورت ہے۔‘‘
’’کیا ہوا؟‘‘ مہرین نے قدرے حیرت سے پوچھا۔
’’کہاں سے شروع کروں؟ سمجھ میں نہیں آتا۔ میرا گھر نیلام ہوجائے گا۔ بینک نے کہا ہے اگر سود کے پیسے نہ چکائے جائیں تو وہ گھر ضبط کردیں گے۔ میں بہت پریشان ہوں۔ را توں کی نیندیں حرام ہوچکی ہیں۔‘ ‘ علی کہتا گیا۔
مہرین مجسمئہ حیرت نبی دل ہی دل میں سوچنے لگی ’ نیند تو عرفان کو بھی نہیں آتی تھی۔‘ عرفان علی کا بڑا بھائی تھاجس کا دو سال پہلے انتقا ل ہوا تھا۔ اس کی گردن میں ایک نبض پھٹ گئی تھی جس سے اچانک عرفان کی موت کی درد بھری خبر سننے کو ملا تھا۔ مہرین کا دل دہل گیا۔
’’ہیلو؟ تم سن رہی ہو مہرین؟‘ ‘ علی نے اس کی سوچ کے سلسلے کو مقطع کیا۔
’’ہاں سن رہی ہوں۔ تمہارے احوال جان کر مجھے صدمہ ہوا۔‘‘ مہرین نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔
’’کیا بتائوں مہرین! نیلم نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ وہ سارے پیسے لے کر چلی گئی۔‘‘
نیلم مرحوم عرفان کی بیوی تھی۔ عرفان کا کپڑوں کابڑا کاروبار تھا جس کو شروع کرنے کے لئے اس نے بینک سے پیسے لئے تھے۔ چند سالوں کی محنت کے بعد عرفان کا شمار ٹریولے گاؤں کے امیر لوگوں میں ہونے لگا۔ اس نے نہایت شاندار مکان تعمیر کی جو ٹریولے کا سب سے اونچا اور عالیشان بنگلہ تھا۔ اس کی لمبی مرسیڈیز گاڑی قابلِ رشک بھی تھی۔ پھر اچانک عرفان کی میت کی خبرآئی۔ اس وقت یہ خبر سن کر مہرین کے جسم میں سر سے پاؤں تک سنسنی دوڑگئی تھی۔ عرفان صرف پینتیس سال کا تھا۔ عرفان کی میت پر پانچ سو سے زیادہ لوگ اس کو آخری الوداع کہنے آئے تھے۔ پورا گاؤں صدمے میں تھا اور لوگ سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے کہ عرفان کو کیا ہوا ہوگا۔
’’مجھے بینک کو دینے کے لئے ڈیڑھ لاکھ روپیوں کی ضرورت ہے بہن۔ ‘ ‘ علی مہرین کو ماضی سے نکال کر حال میں لے آیا۔
’’میں تمہیں اتنے پیسے نہیں دے پائوں گا۔ صرف پچیس ہزار دے پاؤں گی۔ ‘ ‘مہرین نے کچھ غوروخوص کے بعد کہا۔
’اچھا کوئی بات نہیں۔ کچھ نہیں سے تو پچیس ہزار ہی سہی۔ میں آج لینے آجائوں؟‘ علی نے تجسس سے پوچھا۔
’’آج نہیں۔ سنیچر کو بینک بند رہتا ہے۔ میں پیرکو پیسے نکال کر تم کو دے دوں گی۔‘ ‘ مہرین نے کہا۔ مصیبت میں اپنوں کو ایک دوسرے کا سہارا بننا چاہئے۔ مہرین نے قرآن سے یہی سیکھا ہے کہ ہمارے پیسوں پر ہمارے رشتہ داروں اور ضرورت مندوں کا بھی حق ہے۔’’ٹھیک ہے۔‘ ‘ علی نے پھر فون رکھ دیا۔
مہرین ابھی بھی سکتے کی حالت میں تھی۔ اپنے چچا کے گھر کی بدحالی کی داستان سن کر اس کا دل جیسے پھٹنے والا تھا۔ پیر کی صبح علی مہرین سے پیسے لینے کے لئے بینک میں اس سے ملنے آیا۔ مہرین قطار میں کچھ دیر کھڑی ہونے کے بعد بنکر سے پیسے لے کر دروازے کے پاس صوفے پر بیٹھ گئی جہاں علی منتظر تھا۔ بینک کو کرسمس کے لئے سجایا گیا تھا۔ لال ربن ، لال غباروںاور سفید قمقموں کے دلفریب بیل کو کمرے کے چاروں طرف لگایا گیا تھا۔ چند دنوں میں نیا سال آنے والا ہے۔ مہرین نے علی کا سرسری جائزہ لیا۔ اس کا وزن بہت کم ہوگیا تھا اور اس نے خط بھی نہیں بنایاتھا۔ چہرے سے مایوسی اور بے بسی کے کربناک آثار نمایاں تھے۔ اس کا غمگین چہرہ بتا رہا تھا کہ اس کا دماغ تفکرات کی دنیاکے طوفان میں تھپیڑے کھا رہا تھا۔ آنکھوں کے گرد کالے حلقے ان راتوں کی داستان بتا رہے تھے جو علی نے جاگ کر گزارے تھے۔
پیسے لیتے وقت علی نے وعدہ کیا ’’ میں دوہفتوں میں تمہیں لوٹادوں گا۔ کاروباری آدمی ہوں۔ منہ نہیں پھیروں گا۔‘‘
دو ہفتے بعد علی کا دوبارہ فون آیا۔
’’ سلام بہن مہرین۔ میں بہت مصیبت میں ہوں۔ میں نے اس مہینے کے آخر میں اپنے ملازمین کو تنخواہ نہیں دی ہے۔ میرے یہاں مہابھارت چل رہی ہے۔ بینک کا قرض چکانے کے لئے میری ماں نے اپنے سارے زیورات بیچ دئے۔ پھر بھی پیسے کافی نہیں ہوئے۔ میں بڑی مصیبت میں ہوں۔ اگلی بار تمہارے سارے پیسے ایک ساتھ لوٹا دوں گا۔ بس اس بار بھی ذرا مدد کردو۔‘‘ علی التجائیں کرنے لگا۔
’’ مجھے اس مہینے گھر کے اخراجات کے لئے پیسے چاہئے۔ میں اس بار تمہاری مدد نہیں کرسکتی۔ ‘‘
’’اچھا ٹھیک ہے۔ میں جلدی تمہارے پیسے لوٹا دوں گا۔‘ ‘ علی نے فون کانٹتے سے پہلے کہا۔
فون سامنے والی میز پر رکھتے ہوئے مہرین گہری سوچ میں غرق ہو گئی۔ وہ اس مہینے کا بجٹ بنا رہی تھی۔ اس بار دودھ اور چاول کے داموں میں اضافہ ہوا تھا۔ پیٹرول میں بھی دس روپیے فی لیٹر کے اضافے کا اعلان عام ہوچکا ہے۔ اس مہینے کے پیسے الگ کرتے ہوئے وہ خود ذرا سراسیمگی کی حالت میں آگئی۔ اس نے پھر سوچا ’مہنگائی کے اس دور میں پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہئے اور چادر کے حساب سے پائوں پھیلانا چاہئے۔ مقروض ہونا بہت بڑا عذاب ہے۔‘ اس کی نظر میز پر رکھے گئے اخبار پر پڑی۔ جلی حروف میں درج تھا کہ ’ایک نوجوان نے قرض کی وجہ سے خودکشی کر لی۔‘ مہرین پر ایک خوف طاری ہوگیا۔ انسانی زندگی کی بنیاد پیسوں پر ہے۔ پیسہ سب کچھ نہیں ہوتا پھر بھی اسی کی بدولت سر پر چھت نصیب ہوتی ہے اور میز پر روز کھانا آتا ہے۔ مقروض ہونے سے ذہن مسلسل تنائو میں مبتلا رہتا ہے جس سے انسان کوئی مثبت کام انجام نہیں دے پاتا اور اس کا احساسِ تحفظ اثرپزیر ہوتا ہے۔
تنگ آکر مہرین میز سے اٹھ کر باہر بالکنی میں چلی گئی اس امید سے کہ ٹھنڈی ہوا سے اس کے بوجھل دماغ کو راحت ملے گا۔ اس نے اپنی سفید بلائوز کی آستینوں کو کہنیوں تک اوپر لپیٹا۔ ایک زمانہ تھا جب پورا گائوں تناور درختوں سے گھراہوا کرتاتھا۔ دسمبر کی اس مہربان صبحمیں تو ہر جگہ آم اور لیچی کے شاداب درخت گرمی کی آمد کا ثبوت دیتے ہوئے معلوم ہوتے۔ رات کو یہ درخت چمگادڑوں کا مسکن ہوا کرتے تھے جو تمام پھلوں کو تہس نہس کیا کرتے۔ لیکن اب حدِ نظر صرف عمارتیں ہی عمارتیں نظر آتی ہیں۔ اس کے مکان کے نیچے وسیع سڑک پر گاڑیوں کی آمد و رفت تھی۔ اتوار کے دن بھی اب لوگ گھر سے زیادہ شاپنگ مال میں فلم دیکھنے یا پھر طعام خانوں میں شکم سیر ہونے جاتے ہیں۔ اس کے لئے بھی پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ مہرین نے اپنے آس پاس نظر دہرائی اور اس نے گاڑیوں، رہائش گاہوں اور راستے پر چلتے انسانوں کو بغور دیکھا۔ یہ تمام خواب اور ارمان قرض کی وجہ سے شرمندئہ تعبیر ہوپائے ہیں۔ یہاں تک کہ پورا ملک قرض میں ڈوبا ہوا ہے۔
پھر مہرین کی سوچ اپنے چچا کی مالی دشرایوں کی طرف راغب ہوئی۔ بہت جلد اس کے چچا اور اس کے اہلِ خانہ کو گھر خالی کرنی ہوگی۔ وہ گھر جس کو بنانے میں ان کو پوری زندگی لگ گئی۔ اس گھر کی ایک ایک چیز پورے سلیقے سے سجائی گئی تھی۔ وہی گھر جلد نیلام ہوجائے گا۔ پورے گائوں میں یہ بات جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکی ہے۔ مہرین نے بے بسی سے نیلے آسمان کی طرف دیکھا جس پر دور سے کالے بادل تیزی سے نزدیک آتے ہوئے معلوم ہورہے تھے۔
ایک مہینے بعد علی کا پھر فون آیا۔
’’مہرین بہن ، مجھے پیسوں کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔‘ ‘ علی کی آواز میں ایک منشیات کے عادی شخص کے جیسی تڑپ تھی۔
’ ’میں اب تمہاری کوئی مدد نہیں کرپائوں گی۔‘ ‘ مہرین نے دل پر پتھر رکھ کر ارادتاً کہا۔
فون کانٹتے ہوئے اس نے سوچا ’انسان اپنی غلطی سے ہی سیکھتا ہے۔ اگر میں بار بار علی کی مدد کرتی گئی تو وہ اپنی زندگی کا اہم سبق کبھی نہیں سیکھ پائے گا۔ پیسہ ایک اہم ذمے داری ہے۔ اس کی طرف غفلت یا لاپرواہی ہرگز نہیں کی جاسکتی۔ آخرت میں بھی اس کے بارے میں ہم سے سوالات کئے جائیں گے کہ ہم نے اپنے پیسوںکے ساتھ کیا کیا۔ سود لینے سے ہم خدا اور اس کے رسول ؐ سے دشمنی کا اعلان کرتے ہیں۔ ‘
اس وقت مہرین نے خود سے وعدہ کیا کہ وہ پیسوں کے معاملے میں ہمیشہ محتاط رہے گی۔ جوانی میں اٹھائے گئے ایک غلط قدم کا برا اثر نہ صرف ہمارے مستقبل پر پڑتا ہے بلکہ ہماری آنے والی نسلوں کو بھی مشکل میں ڈال سکتا ہے۔
قرض وہ سانپ ہے جو نہ صرف دنیا میں ڈستا رہتا ہے بلکہ آخرت میں بھی اس کے زہر کے اثرات محسوس ہوتے ہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)