Home تجزیہ قیدیوں کے حقوق اور صدر جمہوریہ کا آئینہ-شکیل رشید

قیدیوں کے حقوق اور صدر جمہوریہ کا آئینہ-شکیل رشید

by قندیل

( ایڈیٹر ، ممبئی اردو نیوز )

جو حکومت نئی جیلیں بنانے کے منصوبے بنا رہی ، اورایسے سخت قوانین کی منصوبہ بندی کر رہی ہو ، جو معمولی سی خطا کو بھی بہت بڑا جرم بناکر ، عام لوگوں کی غیر معینہ مدت تک کے لیے اسیری کو ممکن بنا سکے ، اور جو ’ ضمانت ‘ دینے کے فیصلوں پر ، سپریم کورٹ اور اس کے نئے چیف جسٹس ، ڈی وائی چندرچوڑ پر انگلی اٹھا رہی ہو ، اس حکومت کی صدر جمہوریہ اگر ، مزید جیلوں کی تعمیر کے فیصلے پر اظہارِ افسوس کریں ، اور حکومت و جج صاحبان سے یہ اپیل کریں کہ ’’ وہ افراد جو ، تھپڑ مارنے جیسے معمولی قصور کے لیے ، برسہا برس سے ، جیلوں میں پڑے ہوئے ہیں ، ان کے بارے میں سوچو ‘‘ ، تو یقیناً ان کی حق گوئی کی تعریف کرنا ہی ہوگی ۔ صدر جمہوریہ دروپدی مرمو نے ’ یومِ آئین ‘ پر سپریم کورٹ میں منعقدہ تقریب میں جو باتیں کہیں ، اور کہنے کے دوران اُن کے چہرے سے ’ ہمدردی ‘ اور ’ یاس ‘ کے جو جذبات ہویدا تھے ، ان کا مشاہدہ کرکے ، بلامبالغہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ خطاب کے دوران ، انہیں محروسین کی پریشانیوں ، مشکلات اور محرومی کا شدید احساس تھا ۔ کاش یہ احساس اس حکومت کو چلانے والوں کو بھی ہو جائے ، اور وہ بجائے نئے زندانوں کی تعمیر کے ، قانون اور عدلیہ کے نظام کو درست کرنے پر توجہ دیں تاکہ لوگوں کو بروقت انصاف فراہم ہو سکے ۔ صدر جمہوریہ نے حکومتِ وقت کے سامنے یہ سوال رکھا ہے کہ ’’ یہ کیسا وکاس ہے ؟‘‘ وزیراعظم نریندر مودی اور مرکزی وزیرِ داخلہ امیت شاہ اس سوال کا شاید ہی جواب دیں ۔ حکومتِ ہند کی وزارت داخلہ نے ۲۰۲۱ء میں جیلوں کی تعداد اور قیدیوں کے تعلق سے جو رپورٹ شائع کی ہے وہ آنکھیں کھولنے والی ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ، ۲۰۲۰ء میں قومی سطح پر ۱۳۰۶ جیلیں تھیں ، لیکن ۲۰۲۱ء میں جیلوں کی تعداد بڑھ کر ۱۳۱۹ ہوگئی ، یعنی ایک اعشاریہ صفر فی صد کا اضافہ ہوا ۔ سیدھے سیدھے یہ کہ ۱۳ نئی جیلیں بنائی گئیں ۔ اِن جیلوں میں قیدیوں کی تعداد ، جیلوں کی گنجائش سے کہیں زیادہ ہے ۔ رپورٹ کے مطابق ، اِن جیلوں میں ۵ لاکھ ۵۴ ہزار ۳۵ افراد قید تھے ، جبکہ ۲۰۲۰ ء میں یہ تعداد ۴ لاکھ ۸۸ ہزار ۵۱۱ تھی ، گویا یہ کہ ۱۳ اعشاریہ ۴ فی صد کی تعداد میں قیدی بڑھے ہیں ، اس میں اب مزید اضافہ ہوا ہوگا ۔ اِن اعداد و شمار کا افسوس ناک ، اور غیر انسانی پہلو یہ ہے کہ ۲۰۱۶ء سے لے کر ۲۰۲۱ ء تک ’ سزا پانے والوں ‘ کی تعداد ، جو جیلوں میں ہے ،وہ ۹ اعشاریہ ۵ فی صد ہے ، لیکن وہ قیدی جن کے ابھی مقدمے ہی چل رہے ہیں ، ان کی تعداد ۴۵ اعشاری ۸ فی صد ہے ، یعنی ہر چار میں سے تین قیدی وہ ہیں ، جو ابھی صرف ملزم ہیں ۔ یہ اتنی بڑی تعداد میں ملزمین کیوں قید ہیں ؟ اس سوال کا جواب کسی سے بھی چھپا ہوا نہیں ہے ۔ اس کی بڑی وجہ طویل عرصے تک مقدمات کا چلنا ہے ۔ مقدمات طویل عرصہ تک کیوں چلتے ہیں ؟ اس سوال کے کئی جواب ہیں ، سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ تفتیش میں ہی ایک لمبا عرصہ بِتا دیا جاتا ہے ۔ دوسری وجہ مقدمات جب عدالت میں پیش ہوتے ہیں تو استغاثہ کی طرف سے انہیں طول دینے کے لیے خوب بہانے تراشے جاتے ہیں ۔ ایک وجہ وکلا کا نہ ملنا بھی ہے ، اور اس کی وجہ ملزم یا ملزمین کا ’ غریب ‘ ہونا ہے ۔ جیلوں میں ’ انڈر ٹرائل ‘ کی اِتنی بڑی تعداد کی ایک وجہ مزید ہے ، حکام اور حکمرانوں کی طرف سے ان کی رہائی میں ’ عدمِ تعاون ‘ ، یعنی دانستہ ملزمین کو ضمانت سے محروم رکھنا ۔ بڑی تعداد میں عدالتوں میں جان بوجھ کر ’ پھنسانے ‘ اور کسی معاملے میں ’ ملوث ‘ کرنے کی شکائتیں آتی ہیں ، اِن شکائتوں پر غور نہیں کیا جاتا اور لوگ لمبے عرصے تک جیل میں پڑے سڑتے ہیں ، اور بعد میں بری ہو جاتے ہیں ، اور ان کی شکائتیں سچ ثابت ہو جاتی ہیں ۔ کئی معاملات ہیں ، جیسے کہ مفتی عبدالقیوم کا معاملہ لے لیں ، جو بے گناہ قرار دے کر بری کیے جانے سے پہلے قید میں گیارہ سال کاٹ چکے تھے ۔ آج صدیق کپن قید میں ہے ، اسے ضمانت نہیں دی جا رہی ہے ، خالد عمر ، شرجیل امام اور مولانا کلیم صدیقی اور ڈاکٹر عمر گوتم اور انسانی حقوق کے کارکنان جیسے گوتم نولکھا وغیرہ کو اب تک ضمانت مل جانی چاہیے تھی ، لیکن ان پر ایسی دفعات لگا دی گئی ہیں ، اور ایسے قوانین ان پر عائد کیے گیے ہیں کہ ان کی ضمانت ناممکن ہوگئی ہے ۔ کیا یہ قیدیوں کے ’ حقوق ‘ کی پامالی نہیں ہے؟ کیا اس طرح جیلوں کو بھر کر کچھ سیاسی پارٹیاں اور سیاست داں اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل نہیں کرتے ہیں ؟ صدر جمہوریہ نے ایک آئینہ دکھایا ہے ، یقیناً اس میں بہتوں نے اپنے چہرے دیکھے ہوں گے ۔ اب ضرورت ہے کہ قانونی اور عدالتی نظام کو درست کیا جائے ، تاکہ قیدی ضمانت پا سکیں اور ان کے حقوق کی پامالی کا سدباب ہو سکے ۔ امید ہے کہ مرکزی اور ریاستی حکومتیں ، اور عدلیہ صدر جمہوریہ کی فریاد پر توجہ دیں گے ۔

You may also like

Leave a Comment