مولانا احمد حسین قاسمی،معاون ناظم امارت شرعیہ
ایک جمہوری ملک کو کسی ایک دھرم اور کسی خاص نظریات کا حامل بنانا دراصل اس ملک کی جمہوری حیثیت کو قتل کرنا ہے،یہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں،اس ملک پر برسوں سے اس کے سیاہ بادل منڈلا رہے ہیں،جس کا ڈر تھا اس کا ظہور ہونے لگا ہے،سی اے اے(CAA)سیٹیزن شپ امینڈ منٹ ایکٹ ۹۱۰۲ء اس کا منہ بولتا ثبوت ہے،موجودہ حکومت نے اس کے ذریعہ اس ملک کو ہندتوا کے رنگ میں رنگ دینے کی خطرانک جرأت کی ہے،اور پوری دنیا میں اس قانون کے ذریعہ اس ملک کو وہی حیثیت دینے کا ارادہ کیاہے جو یہودیوں نے یروشلم کو دیا ہے۔ہندوستان ایک تعلیم یافتہ اور ترقی پذیر ملک ہے یہاں کے لوگ دنیا کے تمام ممالک میں نمایاں اور غیر معمولی خدمات انجام دیتے ہیں اور اس ملک کی عملی تصویر اور اس کی گنگا جمنی تہذیب اور پاکیزہ روایات کو اپنے گفتار وکردار سے پیش بھی کرتے ہیں،اس ملک کی تاریخ اور اسے سونے کی چڑیا بنانے نیز اس کے حسین تعمیری شاہکار کو ساتواں عجوبہ کا درجہ دینے کی بات کو دنیا کے عام لوگ بھی اچھی طرح جانتے ہیں،جنگ آزادی کے سارے زریں واقعات، اس کے سرفروشان وطن اور ملک کے گیسوئے برہم کے سنوارنے والے دیوانوں کے افسانے پوری دنیا میں خوب عام ہیں،ملک کے عام باشندے اور بیرون ملک کے سارے پڑھے لکھے لوگ اس ملک کی قدیم وجدیدتاریخ سے بخوبی واقف ہیں، موجودہ بر سراقتدار پارٹی کے پاس جمہوریت کا بدل ہندو راشٹر اور منو اسمرتی تو ہوسکتی ہے، تاہم یہاں کے عام سیکولر باشندگان ملک کے دل کو جیتنے کا کوئی نسخہئ کیمیا نہیں ہو سکتا،دنیا کی یہ تلخ حقیقت ہے کہ یہاں کوئی بھی حکومت جبر واستبداد کے ساتھ دیر تک قائم نہیں رہ سکی ہے، حکومت کی حکمت عملی اور اس کے مسلسل جابرانہ وظالمانہ رویوں نے عام شہریوں کو تلملا کر رکھ دیا ہے عوام اگر ہر چھوٹے بڑے مسئلہ پر روڈ پر نہیں آتے اور صدائے احتجاج بلند نہیں کرتے تو اس کا مطلب حکومت کو یہ ہر گز نہیں لینا چاہئے کہ لوگ اس کے ایجنڈے اور پلاننگ سے بے خبر ہیں،انہیں ان مسائل کا شعور نہیں ہے یا وہ سب کے سب ان کے حامی ہیں یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ یہ صدی سیکولرزم کی انقلابی صدی ہے، سیکولرزم نے دنیا کے اکثر وبیشتر انسانوں کے ذہن کو متاثر کیا ہے،ہندوستان اپنے پاس ماضی بعید سے ہی اپنے شہریوں کے تناسب اور تہذیبی و روایتی پس منظر میں ایک مستحکم سیکولرزم کا ڈھانچہ رکھتا ہے، اس کی ساخت اور رنگا نگ تہذیب وثقافت نے اس کی فطرت میں جمہوریت کا عنصر شامل کردیاہے،جواس کی عالمی پہچان اور روح کی حیثیت رکھتی ہے، اس سے بر سر پیکار ہونا اور اس کے بنیادی دستور سے چھیڑ چھاڑ کرنا ایسا ہی ہے، جیسے شہد کی مکھی پر ڈھیلا مارنا،CAAاور اس کے مبتدیات (NPR) وغیرہ اس کی جمہوری فطرت کے منافی ہیں،زمام اقتدار جن کے ہاتھوں میں ہے،وہ بہت سوچ سمجھ کر قدم آگے بڑھائیں،جمہوری ملک میں اقتدار واختیار عوام عارضی طور پر کسی پارٹی کے سپرد کرتے ہیں، بصورت دیگر عوام بہت جلد اپنے اختیارات واپس لے لیتے ہیں، جھارکھنڈ کے حالیہ اسمبلی انتخاب کے نتائج نے دو ٹوک فیصلہ کر کے حکومت کو بہت تلخ سبق دیا ہے۔
CAAکے حوالے سے دنیا بھر کے عوام وخواص کو معلوم ہوگیا کہ موجودہ حکومت نے اس کے ذریعے ہندو راشٹر کا دروازہ کھولنے کی ناپاک کوشش کی ہے اور سختی کے ساتھ سبھوں نے اس کی شدید مذمت کی ہے اور یہ احتجاج آزاد بھارت کی تاریخ میں فقط احتجاج نہیں؛ بلکہ اس نے ایک تاریخی اور انقلابی تحریک کی شکل لے لی ہے،لوگ اس قانون کے واپس لینے تک پورے شدومد کے ساتھ اس تحریک کو جاری رکھیں گے اور ایک پل کے لیے بھی نہ وہ تھکیں گے اور نہ ہمت ہاریں گے،اگر حکومت عوامی تحریک کو کچلنے یا کمزور کرنے اور ختم کرنے کی کوشش کرے گی،جیسا کہ بعض ریاستوں میں نظر آیا، تو حکومت کا یہ ناعاقبت اندیش اقدام اس کے ابدی زوال اور خاتمہ کا باعث ہو سکتا ہے۔
ہم اپیل کرتے ہیں اس ملک کے عام سیکولر شہریوں سے کہ وہ اب اپنے قدم ہر گز پیچھے نہ ہٹائیں، اصلی طاقت عوام کی طاقت ہے،عوام کو اس تحریک میں یہ ثابت کرنا ہوگا کہ اس ملک کی جمہوریت زیادہ طاقتور ہے یا یہاں کی بر سر اقتدار پارٹی۔اب یہ لڑائی فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئی ہے، اس کا رواں کے مسافروں کو اب پیچھے مڑ کر ہر گز نہیں دیکھنا ہے؛ بلکہ منزل قریب تر ہے اور منزل سے مستقل کامیابی کے ترانوں او زمزموں کی صدائیں آرہی ہیں،کہیں ایسا نہ ہو کہ منزل سے پہلے ہماری آنکھ لگ جائے یا ہم سست پڑ جائیں،ایساہواتو ہماری ساری قربانیاں بیکاراور ہمارے نونہالان اور عزیز طلبا وطالبات کا خون رائیگاں ہوجائے گا، چنانچہ اب ہمیں اپنی باقی ماندہ پوری جمہوری طاقتوں کو اور عوامی جذبات کو اس تحریک اور آندولن کی کامیابی میں جھونک دینا ہے۔