ہریانہ میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ اگر وقف جائداد کا ایمانداری سے استعمال ہوتا تو مسلمان آج سائیکل کا پنکچر نہیں بنا رہے ہوتے۔ یہ کوئی پہلی دفعہ نہیں ہے کہ وزیر اعظم نے دبے الفاظ میں ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو نشانہ بنایا ہو۔ ان کا یہ انداز بیان، جس میں وہ بالواسطہ طور پر مسلمانوں کی سماجی و اقتصادی حیثیت کا مذاق اڑاتے ہیں، دراصل اپنے مخصوص ہندو ووٹ بینک کو خوش کرنے کا پرانا طریقہ ہے۔
وزیر اعظم کے اس طرح کے بیان کا نشانہ صرف مسلمان نہیں، بلکہ وہ پیشہ بھی ہے جو عزت کا حقدار ہے – پنکچر بنانے کا کام۔ کیا یہ پیشہ کوئی جرم ہے؟ کیا اس سے جڑے لوگ عزت کے مستحق نہیں؟ یہی لوگ اپنی محنت سے معاشرے کی گاڑی کو آگے بڑھاتے ہیں۔ خود وزیر اعظم فخر سے کہتے ہیں کہ وہ چائے بیچتے تھے، تو پھر پنکچر بنانے والے کو کیوں حقیر سمجھا جا رہا ہے؟ کیا محنت میں کوئی عار ہے؟
ملک کا آئین ہر شہری کو مساوی عزت و وقار کے ساتھ جینے کا حق دیتا ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے ہاتھوں کی محنت سے روزی کما رہا ہے تو وہ قابلِ فخر ہے، قابلِ شرم نہیں۔ پیشہ کی قدر اس بات سے نہیں ہونی چاہئے کہ اس سے کتنا پیسہ کمایا جا رہا ہے۔ اگر ایسا ہے تو وزیر اعظم اپنے چائے بیچنے والے ماضی کو فخریہ کیوں بیان کرتے ہیں۔ اگر وہ چائے بیچنے والے کی عزت کرتے ہیں تو انھیں ایک پنکچر بنانے والے کی عزت بھی کرنی چاہئے۔ کیا انھیں یہ بات بھی سمجھانی ہوگی کہ کوئی بھی پیشہ کم تر نہیں ہوتا۔ ہم جس معاشرے میں جیتے ہیں، وہ ان ہی چھوٹے بڑے پیشوں سے جُڑا ہوا ایک ایسا کارخانہ ہے، جس کے ہر کل پرزے اپنے اپنے حصے کا کام کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایک بھی حصہ تضحیک کے قابل نہیں۔ اگر کسی کا کام پنکچر بنانا ہے تو وہ بھی اتنا ہی محترم ہے جتنا کسی کا کام وزیر اعظم ہونا۔ فرق صرف عہدے کا ہے، عزت کا نہیں۔
وزیر اعظم کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ان ہی ووٹروں کی بدولت اس عہدے پر ہیں جن میں لاکھوں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو چائے بیچتے ہیں، پنکچر بناتے ہیں، ریڑھی اور ٹھیلے لگاتے ہیں، جوتے بناتے ہیں، مزدوری کرتے ہیں۔ جب وہ ان کا مذاق اڑاتے ہیں، تو دراصل وہ اپنے ہی ملک کے غریب اور محنتی عوام کا مذاق اڑاتے ہیں۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)