ترجمہ : شکیل رشید
بین اوکری نائجیریا میں پیدا ( 15 مارچ 1959) ہونے والے ایک برطانوی ادیب ، شاعر اور فکشن نگار ہیں ۔ وہ اب تک 12 ناول لکھ چکے ہیں جن میں سے ایک ناول Famished Road ( بھوکی سڑک) کو بُکر پرائز مل چکا ہے ۔ ان کی شاعری ، مضامین اور افسانوں کے اب تک 14 مجموعے شائع ہو چکے ہیں ۔ انہیں مابعد جدیدیت اور مابعد نو آبادیات کی روایات کے اہم ترین ادیبوں میں شمار کیا جاتا ہے ۔ اوکری کا موازنہ گبریل گارشیا مارکیز جیسے عظیم ترین فکشن نگار سے کیا گیا ہے ۔ ترجمہ کی گئی کہانی ان کے پہلے مجموعے Incidents At The Shrines کی پہلی کہانی Laughter Beneath The Bridge ہے ۔ یہ مجموعہ پہلی بار 1986 میں شائع ہوا تھا ، اس میں مجموعی طور پر آٹھ کہانیاں ہیں ۔
وہ بڑے لمبے دن تھے جب ہم کنٹیلی گھاسوں میں گھسے بموں کے گرنے کا انتظار کیا کرتے تھے ۔ مڈ ٹرم سے پہلے ہی خانہ جنگی شروع ہو چکی تھی اور بورڈنگ اسکول تیزی سے خالی ہو گیا تھا ۔ اساتذہ غائب ہوگیے ؛ اور باورچی خانے کا پورا عملہ ، اس سے پہلے کہ ہمارے سروں کے اوپر سے جہاز گزرتے، بھاگ کھڑا ہوا ۔ ملک میں گڑبری کے ابتدائی آثار ہی میں والدین آ کر اپنے بچوں کو بٹور لے گیے تھے ۔ ہم تین تھے جو پیچھے چھوٹ گیے تھے ۔ ہمیں یہ امید تھی کہ کوئی نہ کوئی آے گا اور ہم سب کو سمیٹ لے جائے گا ۔
آسمان پر گدھ نظر آنے لگے ۔ چند روز تک وہ اسکول کے احاطے پر منڈراتے رہے اور پھر اس سائبان پر جم گیے جو رات میں نگہبانی کے واسطے تھا ۔ ایک شام ہم نے دیکھا مذہبی جنونیوں میں سے کوئی اسکول کے سنسان میدان میں گھومتے ہوے چیخ چیخ کر دنیا کے خاتمے کا اعلان کر رہا ہے اور پھر شہر سے آئے وحشی انسانوں کا ایک ہجوم ادھر ادھر بکھر کر باغی قبیلے والوں کو ڈھونڈتا نظر آیا ۔ انہوں نے دروازے توڑ دیے ، چھوٹے سے گرجا گھر کے بت ، مجسمے اور مخملی پردے لوٹ لیے ؛ مسیح کی ، جن کے چہرے پر کرب تھا ، بڑی سی صاف ستھری پینٹنگ وہ ساتھ لیتے گیے ۔ صبح ہم نے آئرش پادری کو اپنی رالہے بائیسکل تیزی سے چلاتے ہوئے قصبے سے باہر جاتے ہوےدیکھا ۔ اس کے جانے کے بعد چھوٹے سے گرجا گھر میں بھوت گھومتے اور چھت کھڑکھڑاتے رہے ۔ ایک شب ہم نے قربان گاہ کے گرنے کی آواز سنی ۔ دوسری صبح ہم نے چھپکلیوں کو گرجا گھر کی دیواروں پر سر ہلاتے دیکھا ۔
ہم نے ڈورمیٹری میں پڑاؤ ڈال لیا تھا ۔ ہم سبزیوں کے کھیت میں کھانے کی چیزیں ڈھونڈتے پھرتے ۔ تاڑ کے نچلے تنوں سے شراب کشید کرنے والوں کی تاڑی چوری کرتے ۔ ہم باورچی خانہ میں گھس پڑے اور بھنی ہوئی پھلیوں ، سارڈین مچھلیوں اور باسی بریڈ کے اسٹور پر دھاوا بول دیا ۔ دن میں ہم اسکول کے گیٹ پر ، گھاس پر دبے پڑے ، آنکھیں گاڑے اپنے والدین کی آمد کے منتظر ہوتے ۔ کبھی کبھار ہم کھانے پینے کی تلاش میں قصبہ نکل جاتے ۔ ہم دیہاتوں میں ہو رہی بمباری کی ، جس کی پھسپھساہٹ کھیت کھلیانوں سے ہوتی ہوئی ہم تک پہنچتی تھی ، باتیں کرتے ۔ ایک روز ، قصبے میں کھلی ہوئی واحد بیکری سے بریڈ چوری کرنے کے بعد ، ہم ڈورمیٹری پہنچے تو وہاں چھپکلیاں دکھائی دیں ۔ وہ بڑی تعداد میں دوہرے مالے کے بیڈوں کے نیچے اور کباٹوں کے اوپر اس سکون سے پڑی ہوئی تھیں ، کہ ہمارا اب مزید وہاں سو پانا دشوار تھا ۔ ہم ہر روز بموں کے گرنے کا انتظار کرتے ۔ اور ان دنوں وہ مونیکا تھی جس کے بارے میں مَیں ہر وقت سوچا کرتا تھا ۔
جب مَیں نے سیدھی دھار سے پیشاب کرنا سیکھا تھا تب وہ چھوٹی سی بچی تھی ۔ جب مَیں نے اپنے ننگے بدن کی سترپوشی کرنا سیکھی تھی تب تک اس کے پیر ڈھل کر لمبے اور پشت موہنی ہو گئی تھی اور وہ ہمارے قصبہ میں کسی جنگلی مگر شوخ بلی کی طرح گھومنے لگی تھی ۔ وہ حجاموں کی دکانوں ، ڈھابوں ، پول آفسوں میں اپنے ہنگاموں کے لیے مشہور تھی ۔ ایک دفعہ وہ ہمارے قصبے کے پار کی ندی کو ، جس کے بارے میں روایت ہے کہ کم عمر لڑکیوں کو پسند کرتی ہے ، لڑکوں کے مقابلے تیر کر پار کرنے کی ہوڑ میں ڈوبتے ڈوبتے بچی تھی ۔ میں نے لوگوں کو اُسے کیچڑ بھرے پانی سے گھسیٹ کر باہر نکالتے ہوئے دیکھا تھا ؛ اُس کا چہرہ زرد تھا ، یوں لگ رہا تھا جیسے اُس نے اپنے جسم سے باہر کوئی لمبا سفر طے کیا ہو ۔ پھر وہ یگن گنوں(1) کے ساتھ گھومنے پھرنے لگی ، ہاتھ میں کوڑا لیے وہ مکھوٹا پوشوں کو ڈھکیلتی اور بہروپیوں کو ٹھیک طرح سے نہ ناچنے پر گالیاں دیتی ۔ یہ وہی وقت تھا جب اُس نے ہماری جنسی خواہشات کو جگایا تھا ، اور ہماری گلی کے یگن گنوں کے ساتھ سارے قصبے میں ناچنے ، اور مردوں کو بےوقوف بنانے لگی تھی ۔ وہ ایسی مہارت سے ناچتی تھی کہ کنجوس سے کنجوس درزی اور کمینے ارذل ترین پول شاپ مالکوں سے بھی ہمیں سکّے مل جاتے تھے ۔ مجھے یاد ہے چھٹیوں کے دنوں میں ایک شب میں اٹھا اور حاجت رفع کرنے کے لیے احاطے میں گیا ۔ وہ گڑھل کی جھاڑیوں کے پاس نہا رہی تھی اور چاند نکلا ہوا تھا ۔ جب ہمیں ڈورمیٹری سے چھپکلیوں نے بھگایا ، اور جب جنگی طیاروں کی آوازوں سے ہم جنگل بھاگے ، تب میرے تصور میں اس کی نوخیز چھاتیاں تھیں ۔
یہ مجھے حسین وقت کی طرح یاد ہے : نہ جانے کیسے ۔ سائرنوں اور فائر انجنوں کی آوازوں سے یوں لگتا تھا جیسے قصبے میں کسی جگہ کوئی دیوانگی بھری ضیافت چل رہی ہو ۔ قصبہ میں ہم نے ایک بھیڑ کو ایک آدمی پر ٹوٹتے ہوئے دیکھا : وہ اُسے انتقامی جوش سے پیٹ رہے تھے ، اس کے سر پر انہوں نے ڈنڈے اور بوتلیں توڑ دیں ۔ وہ خون سے شرابور تھا ۔ شاید یہ حسین وقت اس لیے لگ رہا تھا کہ ہم اکثر اسکول کے میدان میں بیٹھا کرتے تھے ، اور سات پہاڑوں کو تاکتے رہتے جو اتنی دور سے زنگار کے ڈھیر لگتے تھے : اور اس لیے کہ ہم میں سے کوئی روتا بلکتا نہیں تھا ۔ ایک روز جب ہم کھانا ڈھونڈنے کے بعد واپس لوٹ رہے تھے تب ہم نے کسی کو بجوکا کی طرح بیچ میدان میں کھڑے ہوے دیکھا ۔ ہم قریب پہنچے ۔ وہ ہیولہ ساکت کھڑا رہا ۔ وہ امّاں تھیں ۔ وہ دیر تک ہمیں گھورتی رہیں اور انہوں نے مجھے پہچانا نہیں تھا ۔ خوف لوگوں کو جامد کر دیتا ہے ۔ جب انہوں نے مجھے پہچان لیا تو ہم تینوں کو یوں بھینچ لیا جیسے ہم سب ایک ہی گھر کے ہوں ۔
’’ تمہارے دوستوں کو نہیں لے جا سکتی ۔‘‘ ، امّاں بولیں ، جب ہم سب کو کچھ کھانے کے لیے دے چکیں ۔
’’ میں کوئی بُری عورت نہیں ہوں کہ ان بے آسرا بچوں کو پیچھے چھوڑ جاؤں۔‘‘ ، اماں بولیں ، ان کا چہرہ سوکھا ہوا تھا ،’’ لیکن اگر میری وجہ سے ، راستے میں ملنے والے فوجیوں نے انہیں دھر دبوچا تو میں اپنی قبر میں کیسے سو سکوں گی؟‘‘
میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا ۔ میں اپنے دوستوں کے لیے دعا مانگنے لگا ۔
’’ تمہیں اپنے والدین کی راہ دیکھنا پڑے گی ، یا تم دونوں ، جس کے بھی والدین آ جائیں ، اُس کے ساتھ چلے جانا ۔ کیا تم یہ کر سکو گے؟‘‘ ، امّاں نے ان سے پوچھا ۔ وہ دیر تک انہیں دیکھتی رہیں اور پھر رو پڑیں ۔
امّاں نے اُنہیں کچھ روپیے دیے اور وہ پورا کھانا دے دیا جو وہ ساتھ لائی تھیں ۔ اُنہوں نے اپنی دو چادریں بھی اُنہیں اتار کر دے دیں تاکہ رات کی سرد ہوا سے بچنے کے لیے وہ اوڑھ سکیں ۔ امّاں نے اُن کی سلامتی کی دعائیں مانگیں اور دور گیراج تک جاتے ہوئے مَیں نے کوشش کی کہ اُنہیں یاد نہ کر سکوں ۔ جب ہم گیراج میں بس پکڑنے کی جدوجہد کر رہے تھے تب مَیں نے کوشش کی کہ انہیں خالی میدان میں کھڑے ہوئے نہ دیکھ سکوں ۔ پھر ریورس لیتی لاریوں کی آوازوں ، گزرتی بسوں کی تیزی ، لوگوں کی اپنے اپنے گاوں جانے کے لیے دھکم پیل ، عورتوں کی آہ و زاری ، بچوں کا زور زور سے رونا ، لڑائی کی وردیوں اور کیموفلاج ہیلمیٹوں میں ہر طرف موجود فوجی ، ان کی سخت اور نامانوس بندوقیں ، سارے دوزخی ہنگامے نے ذہن سے دونوں دوستوں کی یاد صاف کردی ۔ پھر اس کے بعد میری کوشش رہی کہ صرف مونیکا ہی کو یاد کروں ۔
جو لاری ہم نے پکڑی تھی وہ پرانی اور سست رفتار تھی ۔ اس کا انجن پائیدار مگر دمہ زدہ تھا ۔ ڈرائیور بڑا ہی باتونی اور بڑبولا تھا ۔ اس کی چھت سے بندھے بوروں میں طرح طرح کے کباٹ اور لمبے لمبے جھاڑو اور دوسری چیزیں بھری ہوئی تھیں ۔ جب ہم اوپر چڑھنے کے لیے ہاتھ پیر مار رہے تھے ، تب میں نے اس کے پرانی لکڑی سے بنے ڈھانچے پر پینٹ کی ہوئی مثل دیکھی : نوجوان بڑے ہوں گے ہی ۔
لاری میں جنبش کرنے تک کی گنجائش نہیں تھی کیونکہ اکثر مسافر شہر سے اپنے ساتھ زندگی گزارنے کی جتنی چیزیں ڈھو پانا ممکن تھا لے آئے تھے ۔ ہم لکڑی کی بنچوں پر بیٹھے تھے اور ہمارے اردگرد بالٹیاں ، سلائی مشینیں ، گدے ، تونبیاں ، چٹائیاں ، کپڑے ، رسیاں ، برتن ، سیاہ پڑے توے اور چھُرے بکھرے ہوے پڑے تھے ۔ یہاں تک کہ لوگ اپنے ساتھ جوجو( 2) لائے تھے وہ بھی چھُپی ہوئی نہیں تھیں : اور ہم ان عجیب و غریب چیزوں کو تَک رہے تھے جن کی وہ پوجا کرتے تھے ۔ لاری کا یہ سفر ایسا غیر آرام دہ اور دَم گھونٹنے والا تھا کہ میں سوتا جاگتا رہا ، یہ واحد راحت تھی ۔
وہ یقیناً ایک لمبا سفر تھا ۔ سڑک ختم ہی ہونے کو نہیں آ رہی تھی ۔ درختوں اور جھاڑیوں کے پتّے دھول سے پٹے ہوئے تھے ۔ سیکڑوں چیک پوائنٹ تھے ۔ ہر ایک پر یوں لگتا تھا جیسے فوجی جنگی جنون کی گرفت میں ہوں ۔ وہ ہر گاڑی کو روکتے ، کونا کونا چھان مارتے ، ہر بیگ اور بوری پلٹ دیتے ، بندوقوں سے ہماری پیٹھ کو ٹھونکتے ، چیخ چیخ کر ہزاروں سوال کرتے ۔ ہم نے پھیلے ہوئے جنگل سے گزرتے وقت سڑک کے کنارے پڑی ان گنت لاشیں دیکھیں ۔ ہم نے پورے پورے گھرانوں کو سنسان جنگل سے گھسِٹ گھسِٹ کر ، پیچھے پیچھے بچوں کو ، بغیر کسی دلاسے کی امید کے روتے لڑکھڑاتے ہوئے، جاتے دیکھا ۔
مَیں سوتا پڑا تھا کہ امّاں نے مجھے جگا دیا ۔ ایک اور چیک پوائنٹ آ گیا تھا ۔ وہاں بہت سارے فوجی تھے ، سب بیک وقت چیختے چلّاتے حکم دے رہے تھے ۔ سڑک کے بیچوں بیچ ایک رکاؤٹ کھڑی کی گئی تھی ۔ رکاؤٹ سے تھوڑے ہی فاصلے پر ایک گڑھا تھا ۔ گڑھے میں تین آدمیوں کی لاشیں گٹھری کی طرح پڑی تھیں ۔ ان میں سے ایک کو دانتوں کے بیچ سے گولی ماری گئی تھی ۔ دوسرے کے جسم کو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا تھا اور اس کا چہرہ یوں مسخ تھا کہ لگ رہا تھا جیسے وہ مارے ہنسی کے مر گیا ہے ۔
فوجیوں نے چیخ کر ہم سب سے کہا کہ نیچے کود آئیں ۔ پھر وہی شروع ہوا ، لاری کے پورے اسباب اور اوپر رسی سے باندھے گیے سامانوں کا کھولا جانا ، مکمل مگر سستی سے کی جا رہی تلاشی سے گزرنا ۔ پھر اُن ایک یا دو لوگوں کا ، جو ثابت نہیں کرپاتے کہ وہ باغی قبیلے سے نہیں ہیں ، انتطار کرنا ، اور کبھی کبھی اُن کے بغیر جانے پر مجبور ہونا ۔
’’ سب نیچے اترو ! سب کودو نیچے !‘ ‘ فوجی چلّا رہے تھے ۔ ہم سب ہچکچاہٹ کے ساتھ نیچے کود آئے ۔ اُنہوں نے ہمیں سڑک پر قطار سے کھڑا کر دیا ۔ شام قریب تھی اور پکے ہوئے سورج کا جلنا ویسا ہی ہمیشہ جیسا تھا ۔ جنگل کیڑے مکوڑوں سے پٹا پڑا تھا ۔ فوجیوں میں سے زیادہ تر کی اُنگلیاں لبلبیوں پر تھیں ۔ لاری کی تلاشی لیتے ہوئے ایک سپاہی لگاتار اپنی ناک چِھنَک اور ہلکی سبز رنگ کی گھاس پر رینٹھ پھینک رہا تھا ۔ انہوں نے ڈرائیور سے سوال کیے جس پر غلامانہ کپکپاہٹ طاری تھی ۔ وہ ہمیں ایک جانب ، جھاڑیوں میں ، پوچھ گچھ کے لیے لے گیے ۔ مَیں وہاں پکے ہوئے جلتے سورج کے نیچے بھوکا ، اکتایا ہوا ، اور مونیکا کو یاد کرتا کھڑا رہا ۔ کبھی کبھار عورتوں میں سے کسی ایک کی رونے کی آواز میرے کانوں میں آ جاتی ۔ مَیں نے کسی کے سر سے بندوق کے کندے کے ٹکرانے کی آواز سنی ۔ لیکن میرے کانوں میں کسی کے بھی رونے کی آواز نہیں آئی ۔
بڑی دیر تک وہ ہماری تلاشی لیتے اور پوچھ گچھ کرتے رہے ۔ سورج پکے ہوے آگ برساتے سرخ رنگت کی جگہ ہلکے زرد رنگ کا ہو گیا ۔ مَیں نے مونیکا کو یاد کرتے ہوئے ہلکی سبز رنگی گھاس پر اپنی ناک چِھنکی ۔ وہ سپاہی جو خود اپنی ناک چِھنک رہا تھا میرے قریب آیا ۔
’’ یو ڈے کراس؟‘‘ ( کیا تم پاگل ہو ؟) وہ مجھ پر چیخا ۔
مَیں نہیں سمجھ سکا تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے لہٰذا اُس نے میرے سر پر ایک ہتڑ جما دیا ۔ ناچتے تاروں میں سے ایک میں مجھے مونیکا کے مکھوٹوں میں سے ایک مکھوٹا دکھائی دیا ۔
’’ کیا تم پاگل ہو؟‘‘ وہ مجھ پرپھر چیخا ۔
مَیں ابھی بھی نہ جان سکا تھا کہ وہ کس بارے میں بات کر رہا ہے ۔ مجھے اُس نے اُلٹے ہاتھ سے ایسا کَس کر تھپڑ مارا کہ مَیں اُڑتا ہوا ہلکی سبز رنگی گھاس کے جھرمٹ میں جا گرا ۔ امّاں میری حالت پر چلّاتی ہوئی اس کی آنکھیں نوچنے کے لیے جھپٹ پڑیں اور اُس نے اُنہیں اس زور سے ڈھکیلا کہ وہ بھی میرے پاس ہی آ گریں ۔ وہ اٹھیں ، اُن کی چادر ناک سے تر تھی ؛ اُن کی وِگ گڑھے میں جا پڑی تھی ۔ مَیں ہلکی سبز رنگی گھاس پر پڑا رہا ، مَیں اٹھنا نہیں چاہتا تھا ۔ میرا سَر دُکھ رہا تھا ۔ میرے پیچھے جھاڑیوں میں کوئی اور فوجی کسی عورت کو پیٹ رہا تھا ۔ فوجی جس نے مجھ پر ہاتھ اُٹھایا تھا میرے قریب جہاں میں پڑا ہوا تھا آیا ۔ اُس کے کولہے سے لٹکی بندوق کی نال میری طرف تنی ہوئی تھی ۔ امّاں ، جنہیں بندوقوں سے خوف آتا تھا ، اُس کے پیچھے کانپ رہی تھیں ۔ کسی نے اس فوجی کو پکارا ۔
’’ فرینکو نیرو‘ ‘، آواز آئی ،’’ اب اس بیچارے لڑکے کو اکیلا چھوڑ دو ، آں ہاں ۔ ‘‘
فرینکو نیرو آواز کی سمت اپنی بندوق لہراتے ہوئے مڑ گیا ، پھر بندوق لہراتے ہوئے میری طرف گھوما ۔ اُس کی آنکھوں میں وحشت تھی ۔ میں یہ سوچ کر کہ وہ پاگل ہے ، ڈر گیا ۔
’’ تم امیر باپوں کے چھوکرے ۔ تم سمجھتے ہو کہ اسکول جاتے ہو اس لیے جیسا من چاہے ویسی حرکت کرو گے ؟ پتا نہیں یہ جنگ ہے؟ بکرے ! پدّی بکرے !‘‘
امّاں ، کمزور سی آواز میں ، بولیں :’ ’ میرے بچے کو اکیلا چھوڑ دو ، سُنا ۔ اوپر والے نے مجھے بہت سی اولادیں نہیں دی ہیں ۔‘‘
فرینکو نیرو نے انہیں دیکھا ، پھر مجھے دیکھا ۔ اکڑ دکھاتے ہوئے وہ مڑا اور جھاڑیوں کی جانب چلا گیا جہاں مسافروں سے پوچھ گچھ کی جا رہی تھی ۔ پھر انہوں نے ہمیں طلب کیا ۔
جھاڑیوں کے پیچھے تین فوجی گانجا پی رہے تھے ۔ تھوڑی ہی دور پر نظروں سے قدرے چھپے ، دو فوجی صاف رنگ کی جلد والی ایک عورت سے کھینچا تانی کر رہے تھے ۔ گانجا پینے والے فوجیوں نے امّاں سے سوال کیے لیکن مَیں نے اُن کے جواب نہیں سُنے کیونکہ تھوڑے فاصلے پر فوجی جو کچھ کر رہے تھے اُس پر میری پوری توجہ تھی ۔ فوجیوں نے امّاں سے پوچھا کہ وہ ملک میں کہاں سے آئی تھیں اور مَیں ، جب کچھ دور سپاہی عورت سے الجھے ہوئے تھے ، اور بالآخر اُس پر قابو پا گیے تھے ، مونیکا کو یاد کر رہا تھا ۔ اُنہوں نے امّاں سے چیختے ہوے کہا کہ وہ جس جگہ سے آنے کی دعویدار ہیں وہاں کی زبان میں مسیحی دعا پڑھیں : اور جب صاف جلد والی عورت کی ٹانگیں جبراً پھیلا دی گئیں تب امّاں کچھ ہچکچائیں ۔ پھر امّاں نے روانی سے ابّا کی زبان میں دعا پڑھ دی ۔ وہ باغی قبیلے کی تھیں لیکن ابّا نے بہت پہلے انہیں ڈانٹ ڈپٹ کر اپنی زبان میں طاق کر دیا تھا ۔ امّاں نے بھانپ لیا تھا کہ وہ ترجمان جس کا کام زبانوں کا جانچنا تھا ، خود یہ زبان اچھی طرح سے نہیں جانتا : لہذا انہوں نے دعا لمبی کر دی ، محاوروں کی تہہ تک اتر گئیں ، انہیں امّاں اور ابّا کی گالیاں دیتی رہیں ، موادی اندام نہانیوں کو کُوستی رہیں جنہوں نے اُن کی پوری خباثت کے ساتھ اُنہیں باہر لا پھینکا تھا ، سڑے ہوئے اعضاء تناسل کو مغلظات بکتی رہیں جو ان کی ماوؤں کی کرم زدہ انتڑیوں کو کھودتے تھے ۔ اورجھاڑیوں کی وجہ سے قدرے چھپے ہوئے فوجی عورت پر اُس وقت تک وحشیانہ انداز میں سواری کرتے رہے جب تک سورج کا تمہاری آنکھوں میں اترنے کا سست رفتار سفر نہیں شروع ہوا ، مونیکا ۔ فوجیوں نے امّاں کا پڑھنا کچھ مطمئن ہوکر سُنا ۔ پھر وہ میری طرف گھومے اور مجھ سے ہیل میری پڑھنے کو کہا ۔ جھاڑیوں میں سپاہی اپنے مردانہ آلے کو ، عورت پر بے دردی سے استعمال کرنے کے بعد ، پتّوں سے پونچھ رہا تھا ۔ پوچھ گچھ کرنے والے فوجی سے مَیں نے کہا کہ میں اپنی زبان بہت اچھی نہیں بول پاتا ۔
’’کیوں نہیں؟‘‘ اس نے گرجدار آواز میں پوچھا ۔
مَیں نے سوال سن لیا تھا لیکن اس کا کوئی جواب ڈھونڈ نہیں پایا ۔ جھاڑی میں عورت زمین پر چُپ چاپ پڑی تھی : اُس کا چہرہ بگڑ گیا تھا ، وہ پسینے سے تربتر تھی ۔
’’ مَیں تم سے بات کر رہا ہوں ، بے وقوف !‘ ‘ وہ چیخا۔’ ’ اگر تمہیں اپنی زبان نہیں آتی تو تم اپنی ماں کے ساتھ نہیں جا سکتے ، سنا تم نے؟‘‘
مَیں نے سر ہلایا ۔ ان کے گانجے کا دھواں مجھے گدگدانے لگا تھا ۔ امّاں جلدی سے قریب آئیں اور سمجھانے لگیں کہ میں گھر میں نہیں پَلا بڑھا تھا ۔ زمین پر پڑی عورت بے سرے انداز میں رونے لگی تھی۔ امّاں میری طرف گھومیں ، مجھے چٹکی کاٹی ، سر پر ایک ہاتھ جمایا ، زور دیتے ہوئے کہا کہ میں اپنے ابّا کی زبان بولوں ، بچوں کے گیتوں سے ، کہانیوں کے ابتدائیوں سے مجھے اشارے دیے ۔ اُس وقت مجھے ایک بھی لفظ نہ یاد آیا : سب میرے ذہن سے سَن سے اڑ گیا تھا ۔ یہی نہیں اچانک میرے مَن میں خواہش جاگی کہ میں زور زور سے ہنسوں ۔
کچھ غلطی ترجمان کی تھی ۔ اس نے کہا : ’’ اگر یہ تُمہاری زبان کا ایک لفظ بھی نہیں بول سکتا تو یہ تمہارا بیٹا نہیں ہو سکتا ۔‘‘
میرے حلق سے قہقہہ پھوٹ پڑا اور نہ ہی امّاں کے سنسی جیسے ناخن سے ، نہ ہی سپاہیوں کے چڑھتے ہوئے پارے سے ، میرا قہقہہ تھم پایا ۔ جلدی ہی فرینکو نیرو مجھے جنگل کے کافی اندر تک گھسیٹ لے گیا ۔ امّاں زور زور سے بین کرنے لگیں ، ان کے سر کے سارے بال بکھر گیے تھے ۔ زمین پر پڑی عورت غیر انسانی آوازیں نکالنے لگی تھی ۔ خوف نے مجھے جکڑ لیا اور میری زبان سے زور سے ایک قدیم لفظ نکل پڑا جو میں جانتا تھا اور امّاں نے اسے سہارا بنا لیا ، چلّائیں ، لڑکے نے بات کی ہے ، اس نے ابھی کہا ہے کہ وہ ہگے گا ۔ فرینکو نیرو رُک گیا ، اُس کی انگلیوں کی آہنی گرفت میری کلائیوں پر مضبوط تھی ۔ اُس نے دوسرے سپاہیوں کی طرف دیکھا ؛ پھر امّاں کو ، اور مجھے دیکھا ۔ پھر اُس نے اپنے منھ سے نکلنے والی کھردری آواز سے مجھے بُری طرح سے چونکا اور ڈرا دیا ۔ امّاں نے تیزی سے میری طرف لپکنے ، اور لاری کی طرف ڈھکیلنے میں رتّی بھر تاخیر نہیں کی ۔ رکاؤٹ تک ارد گرد کھڑے ہوئے فوجی مذاق اڑانے لگے ۔ لاری میں ، ہم بیٹھے دوسروں کے منتظر رہے کہ وہ ثابت کریں کہ وہ دشمنوں میں سے نہیں ہیں ۔ زمین پر پڑی عورت نگاہوں سے اوجھل ہوگئی تھی ، لیکن میں ابھی بھی اس کا رونا سُن رہا تھا ۔ جب ہم چلے تو آسمان سیاہ ہو رہا تھا ۔ ہمیں اُس عورت کو چھوڑ کر جانے کے لیے مجبور کر دیا گیا ۔
امّاں مسلسل مجھے سرزنش کرتی رہیں ۔ جو اُن کی زبان نہیں بول پاتا وہ اسے گولی مار دیتے ہیں ، وہ بولیں ۔ جب وہ سرزنش کر رہی تھیں تب میری سوچ میں مونیکا بسی تھی ، جو صرف وہی کرتی تھی جو وہ کرنا چاہتی تھی ۔ مَیں سوچ رہا تھا کہ جب وہ اُس کے لیے آئیں گے تو کیا اُسے کچھ کہنے کی مہلت مل بھی سکے گی ۔
باقی کا سفر بھی چین بھرا نہیں تھا ۔ ٹارمیک کی سڑک سے گزرتے ہوے دوڑتے بھاگتے جنگ زدہ چہرے ، مجھے غنودگی میں لرزتے واہموں کی طرح نظر آتے ۔ بکتر بند ٹرک ، کنٹیلے پودوں سے کیمو فلاج ، سڑک پر دونوں طرف تیزرفتاری سے آ جا رہے تھے ۔ جہاز سروں کے اوپر چنگھاڑ رہے تھے ۔ رہ رہ کر ڈرائیور پر پاگل پن کا دورہ پڑ جاتا اور وہ لاری بیچ سڑک ہی پر کھڑی کرکے جھاڑیوں کی طرف بھاگ پڑتا ۔ کبھی کبھی یہ سمجھا کر ، کہ ہم محفوظ ہیں ، اُسے واپس بلانے میں وقت لگتا ۔
’’ اس دیوانگی میں اب مَیں کبھی موٹر نہیں چلاوں گا ‘‘ ، وہ بار بار کہتا ۔ قوت بخش چشموں کے پانی جیسی جنگ کی لذت ، جنگ کا قہقہہ : شاید اسی لیے اس کی یاد میرے لیے ایک حسین وقت سی تھی ۔ اور اس لیے کہ لاری میں ، سڑک پر پڑی پیچھے کی طرف بھاگتی لاشوں ، اور اپنی جیپوں میں شور مچاتے سپاہیوں کے بیچ ، ہم سب خاموش تھے ۔ ہماری خاموشی کا وزن بڑا بھاری تھا ۔ جب بالآخر ہم پہنچ گیے تو مجھے یوں لگا جیسے میں نے بہت سی زندگیاں گزرتی دیکھ لی ہیں ۔
جب ہماری لاری قصبے کے گیراج میں مُڑی تو زوردار داد و تحسین اور شورشرابہ پھوٹ پڑا ۔ تمام خاموش پڑے گھروں سے لوگ ہماری طرف دوڑ پڑے ۔ ان کے ساتھ ، وجہ جانے بِنا خوشی سے چلّاتے بچے دوڑے ۔ ہم اُترے تو لوگوں نے ، جو جاننا چاہتے تھے کہ جنگ کیسی چل رہی ہے ، ہم نے کتنے مردہ جسم دیکھے ہیں ، ہمیں گھیر لیا ۔ ڈرائیور نے اُنہیں وہ تمام کہانیاں سُنائیں جو وہ سُننا چاہتے تھے ۔ امّاں کو بائیسکل ٹیکسیاں ناپسند تھیں ، اور صرف یہی ٹیکسیاں چل رہی تھیں ، لہٰذا وہ ہمیں پیدل گھر لے گئیں ۔ ہر طرف فوجی ہی فوجی تھے ، گلیوں میں ہیجان پھیلا ہوا تھا ، اور اس کی چُھوٹ عمارتوں و جھونپڑیوں پر پڑ رہی تھی ۔
جب ابّا نے ہمیں گلی کے سرے سے آتے ہوئے دیکھا تب اُن کی زور کی آواز سنائی دی کہ مرغا پکڑو ۔ یہ ایک سرکش مرغا نکلا ، اس کے پیر سے ایک لال رنگ کا کپڑا بندھا ہوا تھا ، ایک ایسا مرغا جسے مہنگے داموں لیا گیا تھا اور کھانے کی قلّت کے ان دنوں میں بچا کر رکھا گیا تھا ۔ ہمارا کئی دنوں سے انتظار تھا ، ابّا کو اندیشہ تھا کوئی بُری بات ہو گئی ہے ۔ سب مرغے کو کچھ کچھ پسند کرنے لگے تھے ۔ ابّا نے مقامی شراب اوگوگورو کی ایک بوتل اجداد کی شکرگزاری میں کھول لی تھی کہ انہوں نے ہماری محفوظ گھر واپسی کرائی تھی ، اور خوب چھڑکاؤ کیا تھا ۔ ابّا نے مجھے جڑی بوٹیوں کے پانی سے نہلوایا ، تاکہ مجھ پر سے سفر کے بد اثرات دھل جائیں ۔
پھر مرغا ذبح کیا گیا ، پکایا گیا ، اور پرتگالی سارڈین مچھلیوں ، ابلی ہوئی کسابی ، چھوٹے ہرے ٹماٹروں اور تھوڑی سی شکر قندی کے ساتھ پیش کیا گیا ۔
اور پھر میں اپنی چھوٹی سی کھڑکی سے باہر جھانکنے لگا ، ہلتے ڈولتے گلی میں دور تک ، پیلے پتوں والے امرود کے درخت اور میری پیدائش کے سال لگاے گئے دھبے دار تنے والے سنترے کے پیڑ کے پرے ، گڑھل اور گلِ صلیبی کے کنج سے آگے ، اُس گھر کو دیکھتے ہوئے ، جو دراصل ایک کوٹھی تھی ، جہاں وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ ، جن کی تعداد دس تھی ، ایک کمرے میں رہتی تھی ۔ اور اپنے دماغ کے ایک چھوٹے سے حصے میں مَیں نے بیٹھک سے آتی ہوئی بوڑھوں کی ، شراب کی زیادتی سے لڑکھڑاتی آوازیں سنیں ، دھیمے دھیمے قصبے کے حالات پر باتیں کرتے ، ان کی جو مر چکے تھے ، یا پاگل ہو گیے تھے یا ان کی جو فوج میں بھرتی ہو گیے تھے اور اچھی باتوں کی یقین دہانی کراتے کراتے جنگ کے جنون میں گھوم کر اپنوں ہی پر گولیاں برسانے لگے تھے ۔
جب امّاں مجھے سونے کے لیے تاکید کرنے آئیں تو مَیں نے ان سے ، جیسے یہ ان ہی کی ذمہ داری تھی ، پوچھا : ’’ مونیکا کہاں ہے؟‘‘
’’ تم یہ مجھ سے کیوں پوچھ رہے ہو؟ کیا ہم دونوں ابھی سفر سے نہیں لوٹے؟‘‘
’’ وہ کہاں ہے؟‘‘
امّاں نے ٹھنڈی سانس بھری ۔ ’ ’مَیں کیا جانوں ؟ میرے جانے سے پہلے وہ ہمارے ہی ساتھ رہ رہی تھی ۔ قصبہ والوں نے ان کے گھر سے انہیں دوڑا لیا تھا اور اب سب گھر والے جنگلوں میں بکھرے پڑے ہیں ۔ انہوں نے اس کے بھائی کو قتل کر دیا ہے ۔‘‘
’’ کس کو؟‘‘
’’ اوگو کو ۔‘‘
مجھے لگا جیسے بیمار پڑ گیا ہوں ۔ ’’ تو پھر وہ کہاں ہے؟‘‘
’’ یہ کیسا سوال ہے؟ گھر میں کسی کو نہیں پتا کہ مونیکا کہاں ہے ۔ کبھی کبھار وہ کھانے کے لیے گھر آتی ہے اور پھر کئی دنوں کے لیے لاپتہ ہو جاتی ہے اور پھر آ جاتی ہے ۔ تم جانتے ہی ہو کہ وہ کیسی ضدی ہے ۔ جس دن میں تمہیں لینے آئی تھی اُس سے ایک روز پہلے وہ بازار گئی تھی اور وہاں کسی سپاہی سے الجھ بیٹھی تھی۔ سپاہی اسے گولی مارتے مارتے رہ گیا ۔ یہ تو تمہارے ابّا کی نیک نامی تھی جس نے اُسے بچا لیا ۔‘‘
مَیں باہر جانا ، اُسے ڈھونڈنا چاہتا تھا ۔
’’ ہم سوچ رہے ہیں کہ اُسے گاوں بھیج دیں ۔ اُس کا رویہ دیکھ کر لگتا ہے وہ اُسے جنگ تھمنے سے پہلے ہی مار دیں گے ۔ تم نے اسے ہمیشہ پسند کیا ہے ۔ جب وہ واپس ائے تو اسے سمجھاؤ ۔ تم جلد ہی مرد بن جاو گے ، پتا ہے ۔‘‘
امّاں کی آخری بات سے خوش ہو کر ، کیونکہ مَیں ابھی دس سال کا ہی تھا ، اٹھ پڑا ۔
جب مَیں دروازے سے باہر نکل رہا تھا ، ابّا بولے :’ ’ دور مت جانا ۔ کرفیو لگا ہوا ہے ۔ یہ چھٹیاں نہیں ہیں ، سنا تم نے؟‘‘
پچھواڑے ملنے والے دوسرے بچوں نے بتایا کہ انہوں نے اسے پورے دن نہیں دیکھا ۔ مَیں قصبے کے بازار گیا جو سڑک کے کنارے کنارے پل تک پھیلا ہوا تھا ۔ اُسے نہیں پا سکا ۔ مَیں نے قصائیوں کے تمام خالی پڑے باکڑے دیکھے ، جہاں وہ اکثر اوجھڑیاں لینے آتی تھی ، اور