نوے کی دہائی میں جنم لینے والی نسل آج جذباتی تنہائی اور اداسی میں گرفتار ہے۔عہد جدید میں وقت کی رفتار نے اشیاء کو اتنا متغیر کردیا ہے کہ یہ پر تغیر حالات اور مشینی دنیا سے الگ خود کو ایلیئن اورکسی دوسری دنیا کی مخلوق سمجھنے لگی ہے۔جدید اصطلاح میں انہیں‘جنریشن می’ (یعنی’میری ذات پہلے‘ کی سوچ رکھنے والی نسل) کہا جاتا ہے۔ ان کی نفسیات، جذبات و خیالات، اور رویوں پر موجودہ زمانے میں کئی آراء سامنے آرہی ہیں۔
اس موضوع پر ماہر نفسیات جین ٹوینج نے اپنی کتاب (جنریشن می) میں تفصیلی گفتگو کی ہے۔ یہ کتاب 20ویں صدی کے اواخر اور 21ویں صدی کے اوائل میں پیدا ہونے والے افراد کے رویوں اور طرز عمل کو آشکارا کرتی ہے، جنہیں ہزار سالہ اور جنریشن زیڈ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ٹوینج کا استدلال ہے کہ یہ نسل، پچھلی نسلوں کے بالمقابل مختلف سماجی، معاشرتی اور ثقافتی عوامل، جیسے کہ والدین کیرویے، ٹیکنالوجی اور معاشی حالات کی وجہ سے زیادہ خود انحصار، اور انفرادیت پسند ہوتی ہے۔ اس کتاب نے نسلی اور زمانی فرق سے آنے والی تبدیلیوں اور رویوں کے بارے میں مفید بحث کی ہے، اور معاشرے پر اثر انداز ہونے والے اسباب سے باخبر کیا ہے۔
آج کے اس مضمون میں ہم اسی حوالے سے گفتگو کریں گے کہ ہندوستان کے معاشرتی تناظر میں ان کی نہ تو مناسب طریقے سے ہمت افزائی کی جاتی ہے اور نہہی ان کی کوششوں کو سراہا جاتا ہے بلکہ عام طور پر انھیں دقیانوس، غیر ذمہ دار اور بے حس و بے فکر نسل کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ حال ہی میں اس حوالے سے ان نوجوانوں کے احساس و جذبات پر کئی مطالعات سامنے آئے ہیں، جس پر میڈیا کی دلچسپی لائق تحسین اور خوش آئند بات ہے۔
جدید تحقیق کے مطابق اس جنریشن میں بے مصرف پیسہ خرچ کرنے کی بری لت ہے، ساتھ ہی مادیت سے مرعوب اور خوف زدہ ہو کر یہ ڈپریشن کی بھی شکار ہے،جس کی وجہ سے نئی نسل میں خود کشی کا میلان فروغ پا رہا ہے۔ مرکزی دھارے سے فرار اور بغاوت اس کی ضد ہے، روایتی طرز فکر سے اسے شدید نفرت ہے، یہ نسل تلخی تضاد اور تشدد کا آمیزہ ہے۔اس نسل کے افراد تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی معاشرے میں پلے بڑھے ہیں اور اپنے والدین اور دادا دادی کے برعکس خود بلوغت کے عبوری دور سے گزر رہے ہیں۔ نتائج میں یہ بھی کہا گیا کہ ترقی کے بہت سے چیلنجوں سے نبرد آزما ہونے کے ساتھ ساتھ یہ نسل خود کو جدید دور کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق ڈھال بھی رہی ہے۔ تحقیقات کے مطابق بیس سال کی عمر کے یہ نوجوان نفسیاتی تبدیلیوں کے ایک اہم مرحلے سے گزر رہے ہیں جن کو استہزا سے زیادہ حمایت، تائید اور بے خوف بنانے کی ضرورت ہے۔
اس صدی کے آغاز میں، عوامی نفسیات میں بے شمار بنیادی تبدیلیاں آئی ہیں اور سمجھنے اور حل کرنے کی کوششیں بھی کی جا رہی ہیں۔ ایسی ہی ایک کوشش امریکہ میں ہوئی ہے جس میں ابھرتی ہوئی بالغ نسل کے حوالے سے ایک نظریہ پیش کیاگیا ہے۔ اس بحث میں 18 سے 29 سال کی عمر کی اس نسل کو زندگی کے ایک نئے مرحلے کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ مثلاً جنسی تغیر و تبدیلی، معیشت کی طرف منتقلی، ہائی اسکول سے فارغ اور بالغ ہونے کے درمیان فرق کا بڑھنا وغیرہ۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ وہ معیارات جو بالغ ہونے کی نشان دہی کرتے ہیں (معاشی آزادی، مستقل ملازمت، اور شادی) ہر کلچر میں مختلف ہوتے ہیں اور اس کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔ اس حوالے سے جہاں ایک طرف مغربی ممالک میں اس پر کافی کام ہو رہا ہے، مشرقی ممالک خاص طور پر ہندوستان میں اس پر تحقیقی کام اب شروع ہوا ہے۔
ہندوستان میں انفارمیشن ٹکنالوجی کے میدان میں نوے کی دہائی میں ترقی کے آغاز کے بعدسماجی اور ثقافتی میدان میں تیزی سے تبدیلیاں آنی شروع ہوگئیں۔ صنعت کاری اور جدیدیت کے طوفان کی وجہ سے اکثریتی طبقےپر اس کا خاصا اثر پڑا۔ امریکہ کی طرح، یہ رجحان ہندوستان میں بھی نظر آتا ہے۔بنیادی طور پر ہندوستان کی آبادی کے متوسط اور اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھنے والے مالداروں میں یہ رجحان تعلیم، اعلیٰ ملازمتوں، محبت اور شادی وغیرہ میں آزادی کی وجہ سے واضح ہوتا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ نسل بہتر مواقع کی تلاش میں بڑی تعداد میں دیہات سے شہری علاقوں کی طرف ہجرت کر رہی ہے، جس کے نتیجے میں سماجی نقل وحرکت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس تبدیلی کی وجہ سے ذات پات کے نظام کی گرفت بھی کسی حد تک کمزور ہوئی ہے۔ یوں یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ اس رویے کی وجہ سے ہندوستان میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا ہے۔
پچھلی دہائی میں متوسط ہندوستانی گھرانوں میں تبدیلی کا ایک سلسلہ شروع ہوا ہے۔ جس میں گلوبلائزیشن، شہرکاری اور بدلتے ہوئے سماجی ماحول کے مطالبات کے ساتھ، اس نسل کو بہت سے مشکل چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ فکری آوارگی کے ساتھ ہی ساتھ منتقلی کے اس تجربے میں بنیادی تبدیلی بھی آئی ہے۔ مختلف ثقافتوں میں اس مرحلے کا سب سے بڑا پیرامیٹر اور معیار یہ ہے کہ جب تک بچے بڑے ہوتے ہیں، آزادانہ فیصلے کرنا شروع کر چکے ہوتے ہیں اور عمر کے اس مرحلے میں اپنی ذاتی ترجیحات کی بنیاد پر تمام امور میں اہم فیصلے کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ فیصلے ان کی مستقبل کی زندگی پر خوش گوار اثر ڈالتے ہیں، مادی کامیابی اور خوش حال زندگی گزارنے کی وجہ بنتے ہیں۔ کسی کی پسند کی وجہ سے کیے گئے فیصلوں میں اکثر کئی قسم کے عوامل شامل ہوتے ہیں۔ خاص طور پر ہندوستان کے تناظر میں، خاندانی ذمہ داریاں اور معاشرے کی توقعات ان کی زندگیوں پر حاوی ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عہد شباب میں بھی یہ نوجوان عام طور پر آزادانہ فیصلے نہیں کرپاتے۔
تاہم اب مابعد سامراجی یورپ اس تغیر پذیر منظر نامے کے درمیان، ہندوستانی نوجوان اپنی شناخت، اور اس کی تلاش کے ساتھ ساتھ اپنے لیے نئی سوچ کا تعین کر رہے ہیں۔ ہندوستان میں نیو کلیئر خاندانوں میں اضافے کی وجہ سے خاندانوں کا نظریہ بھی مختلف ہونے لگا ہے اورنئی نسل ،والدین اور بچوں کے درمیان فیصلہ سازی کے عمل سے فاصلہ بڑھنے لگا ہے۔ اس حوالے سے وقت رہتے اس پر کام کرنے اور ان سماجی و ثقافتی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے نیز ہموار زندگی کے سفر کی قیادت کرنے کے اخراجات میں توازن پیدا کرنے کے لیے خصوصی مہارتیں تیار کرنے کی ضرورت ہے۔
ہندوستان میں اس بابت ایک حالیہ تحقیق کے مطابق نوجوان، زندگی کے اس مرحلے پر اپنے خاندانوں سے آزاد اور خود مختار ہونے کے باوجود، اپنے والدین کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو سنجیدگی سے لیتے ہیں.ان اخلاقی اقدار کو سب سے اہم سمجھتے ہیں اور اپنے فرائض منصبی خوش سلیقگی سے پورا کرتے ہیں۔ تحقیقی نتائج بتاتے ہیں کہ یہ نوجوان اپنے والدین کے تئیں بڑے حساس واقع ہوئے ہیں.ماں باپ کے سلسلے میں روایتی طرز عمل کو پسند کرتے،پرانے خیال کے ہو جاتے ہیں، اان کی خدمت میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھتے، اور اپنی پسند کی زندگی گزارنے کے باوجود اپنے والدین کی دیکھ بھال کی ذمہ داری سے پیچھے نہیں ہٹتے۔ ہندوستان میں یہ طبقہ اپنی علیحدہ شناخت بنانے اور خود کفیل بننے کو ترجیح دیتا ہے۔ خود انحصاری کی طرف بڑھتے ہوئے بھی اپنے روایتی اقدار کے ساتھ ہم آہنگی برقرار رکھنے کا یہ رجحان ہندوستانی عوام کے تغیر پذیر منظر نامے کی بالکل درست اور حقیقی نمائندگی کرتا ہے۔
اس حوالے سے معاشی تحفظ، تعلیم اور کیریئر و روزگار کو بھی اس نسل نے اہمیت دی ہے۔ ایک بہتر مستقبل کے لیے معلومات پر مبنی معیشت، اعلیٰ درجے کی ڈگری، ذاتی نظریات اور بڑے شہروں کی طرف نقل مکانی بہت سنجیدہ اور اچھی طرح سے سوچ سمجھ کر اٹھائے گئے اقدامات لگتے ہیں۔ رومانوی تعلقات کا رحجان بھی بڑھا ہے۔افسانوی ادب، عشق و عاشقی کا لٹریچر عام ہوا ہے، حقائق کی جستجو، اور مقاصد کی تلاش میں سرگرمی لائق اعتنا ہیں، جو ہندوستانی شادیوں میں مغربی اور ہندوستانی طریقوں کے بڑھتے ہوئے مخلوط رجحان کو ظاہر کرتا ہے جو نوجوانوں کو اس طرح کے تعلقات میں اپنی بات رکھنے کی اجازت اور آزادی دیتا ہے۔ سماجی روایات اور مذہبی عقائد پر فعال طور پر عمل کرنے کے بجائے نوجوان، والدین،معاشی تحفظ، تعلیم اور کیریئر کے لیے اپنی ذمہ داریوں کو زیادہ اہمیت دے رہے ہیں۔ حالانکہ کئی لوگ یہ بھی مانتے ہیں کہ یہ نتائج سامراج کے بعد کے عالمگیر دورکی نشاندہی کرتے ہیں جس میں یہ لوگ رہتے ہیں۔
تاہم ان نتائج کو صحیح سیاق و سباق میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔متعدد تحقیقات بتاتی ہیں کہ اب بھی دیہی علاقوں اور دور افتادہ گاؤں اور بستیوں میں رہنے والے بہت سے نوجوان ہندوستانیوں کے خیالات کی عکاسی نہیں کرتے بلکہ جس سماجی و اقتصادی تناظر میں یہ نسل پروان چڑھی ہے اور جس طرح ان کی تعلیم، صحت کی دیکھ بھال اور گلوبلائزیشن تک رسائی ہے، وہ انہیں پچھلی نسلوں اور اپنے زیادہ تر دیہی ساتھیوں سے بہت مختلف بناتا ہے۔
یہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نسل کے لیے ان سب کا کیا مطلب ہے؟ مغرب کے مقابلے میں ہندوستان میں ابھرتی ہوئی یہ نسل مختلف نظر آسکتی ہے اور مختلف خیالات کی حامل ہوسکتی ہے۔ تاہم یہ مفروضہ قائم نہیں کیا جا سکتا کہ مغربی لوگوں کی تحقیق سے ہم ان لوگوں کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں وہ عالمی سطح پر بھی منطبق ہوتا ہو۔ آج کی نسل کو جس طرح مقبول میڈیا میں سست اور لاپرواہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے وہ بڑی حد تک یہ مفروضہ حقیقت سے میل نہیں کھاتا۔ کیوں کہ ہندوستان کی یہ نسل نہ صرف اپنے والدین کی اہمیت کو سمجھتی ہے، بلکہ اپنے طرز زندگی میں خاندان کے تئیں اپنی ذمہ داریوں کو بھی اہمیت دیتی ہے۔مذہبی فکر مشرقی تہذیب و ثقافت میں رچی بسی ہے، اور اس نے کئی موقعوں پر تشدد کی راہ بھی اختیار کی ہے۔اسی لیے مغربی افکار کی تیز و تند ہوا بھی روایت سے رشتہ کمزور نہ کرسکی۔
ان لوگوں کے لیے اس سے زیادہ اہم اور کیا ہو سکتا ہے؟ اس نسل کے لوگوں کو مختلف موڑ پر زندگی کی تلخ حقیقتوں، متضاد رویوں اور مخالف افکار کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس کے لیے ضروری ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر اور مکمل معلومات کے ساتھ ان کا سامنا کریں، اور درست فیصلہ کریں۔ بغاوت اور مزاحمتی رویوں سے خود کو دور رکھیں۔
نفسیاتی ماہرین اور تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ زندگی کے یہ فیصلے کئی قسم کے ہوتے ہیں۔ کچھ فیصلے ان کی اپنی بقا سے متعلق ہوتے ہیں اور کچھ فیصلے زیادہ عملی ہوتے ہیں، جن کے لیے انہیں اپنی حیثیت و شخصیت کا بار بار جائزہ لینا پڑتا ہے۔ اس بات کا تعین کرنے کے لیے کہ کون سا رویہ سازگار ہے یا کون سا عمل بے سمت، ثقافتی طور پر مشترکہ زندگی کے اہداف کا تعین کرنا بھی ضروری ہے۔ کیوں کہ جسے آج ”نارمل” یا معمول کے مطابق سمجھا جاتا ہے وہ گزشتہ دہائیوں میں ”عام” سمجھی جانے والی چیزوں سے کئی اہم طریقوں سے مختلف ہے۔ اس کے علاوہ، مغربی افکر میں یا گزشتہ دہائی کے پرانی نسل کے ہندوستانیوں کی طرف سے جو چیز عام سمجھی جاتی تھی وہ آج کے ہندوستان کی نسل سے مطابقت نہیں رکھتی ۔
بہتر نتائج حاصل کرنے کے لیے، ہندوستان میں اس نسل کے فیصلہ سازی کے عمل کو سمجھنا ضروری ہے اور یہ محض سروے کے وقت ایک چیک مارک لگانے سے ممکن نہیں ہوگا۔ خاص طور پر ہندوستان جیسے کمیونٹی پر مبنی معاشرے کے لیے، ہمیں اس ایجنسی کو پہچاننے کی ضرورت ہے جو کسی کی زندگی کے مقاصد کے لیے فیصلہ سازی کے عمل سے وابستہ ہو۔ اس بابت کامیابی کی پیمائش کے پیمانے میں تبدیلی بھی ضروری ہے۔
اس سوال کا جواب کہ آیا اس زمرے کے لوگوں کی صلاحیت کی صحیح نشاندہی کی گئی ہے یا نہیں، اس کا جواب ابھی تک نہیں مل سکا ہے۔ میڈیا میں انہیں کس طرح پیش کیا جاتا ہے، ان کے جذبات، و احساسات،تنہائیوں اور اداسیوں کو کس نظر سے دیکھا جاتا ہے، ان کو سمجھنے کی کوششیں کتنی مخلصانہ ہیں، اور ان کے نظریات اور اہداف اصل میں کیا ہیں، اس میں ابھی متضاد آراء پائی جاتی ہیں۔ لہذا، مرکزی دھارے کے ذرائع ابلاغ میں اہداف کی درست اور حقائق پر مبنی نمائندگی پر زور دینا بھی ضروری ہے۔ یہ اس لیے بھی اہم ہے کیوں کہ ہندوستان نے آج کی ابھرتی ہوئی نسل کی قائدانہ صلاحیت کو سراہا ہے، اور مستقبل میں مضبوط کردار ادا کرنے کی صلاحیت کو تسلیم کیا ہے اور جب تسلیم کر لیا تو اس کے لیے فراخ دلی کا مظاہرہ کرنے میں ہی بھلائی ہے۔
آج کی نسل نفسیاتی الجھنوں میں بری طرح پھنسی ہوئی ہے، متضاد رویوں اور مشینی دور نے ان کے کردار کو بے سمت کردیا ہے، مخالف رجحانات نے انہیں زمانے سے متنفر کردیا ہے اوروہ روایتی طرز عمل سے نالاں ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ مسلم حقائق کو بھی شک کی نظروں سے دیکھتی ہے،۔اس نسل سے تعلق رکھنے والے نوجوان خود ساختہ اصولوں پر اسے پرکھنے کی ناکام کوشش کرتی ہے، اور اہداف کے تعین، اور مقاصد کے حصول میں کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں۔ایسے میں یہ بات خوش آئند ہے کہ معاشرے میں ان کے مقام کا تعین اور ان کی افادیت و انفرادیت کو تسلیم کرکے ان کے متنوع کردار کو سراہا جا رہا ہے، ان کے فطری اور حقیقی مسائل پر سنجیدگی سے غور کیا جا رہا ہے، اگر معاشرہ اپنی پسند و ناپسند کو نئی نسل پر تھوپنے سے احتراز کرے، تو بہت حد تک رشتے استوار اور ان کی جذباتیت میں یکسانیت دکھائی دے گی۔ ان کی خواہشوں اور منصوبوں میں فکری صلاح، استحکام و اعتماد اور فلاح نظر آئے گی۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)