ہمارے وزیراعظم نریندر مودی نے کورونا وبا کے دوران ملک بھر کے شہریوں کو ایک نصیحت کی تھی ’ اَپدا میں اَوسر ‘ یعنی ’ آفت میں مواقع ‘۔ جنہیں اِس ’ قول ‘ کا مطلب اُن دنوں سمجھ میں نہ آیا ہو ، ایک مثال سے وہ اسے اچھی طرح سمجھ لیں گے ؛ اِن دنوں صحافیوں پر پولیس کے اور سیاست دانوں پر ای ڈی کے چھاپے پڑ رہے ہیں ۔ یہ کارروائیاں اچانک بہار ذات سروے رپورٹ کو عام کرنے کے بعد شروع کی گئی ہیں ۔ بہار ذات سروے سے مودی اور اُن کی سرکار پریشان تھی ، ہنوز پریشان ہے ، بالخصوص اس لیے کہ چھاپے کی اِن کارروائیوں پر عوام کا ردعمل بی جے پی کے حق میں نہیں ہے ۔ یہ تو بہت پہلے سے کہا جا رہا تھا کہ ، مودی سرکار کو صرف اپوزیشن کا کرپشن نظر آتا ہے ، حکمراں جماعت اور اس کی حلیف سیاسی پارٹیوں کا کرپشن نظر نہیں آتا ، اور کارروائی کے لیے وہی صحافی نظر آتے ہیں جو مودی حکومت پر نکتہ چینی کرتے ہیں ، گودی میڈیا ہر طرح کی کارروائی سے محفوظ رہتا ہے ، اِن تازہ چھاپوں سے مذکورہ بات ایک حد تک ثابت ہو گئی ہے ۔ عام آدمی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ سنجے سنگھ کی ساکھ ایک صاف ستھرے سیاست داں کی ہے ، اُن کی گرفتاری پر عام ردعمل افسوس اور تشویش کا ہے ، عوام کو یہ لگ رہا ہے کہ مرکزی حکومت دہلی کی کیجریوال حکومت کے پپیچھے بیکار میں ہاتھ دھو کر پڑی ہوئی ہے ۔ ابھیسار شرما ، بھاشا سنگھ اور ارملیش جیسے صحافیوں پر چھاپوں کے سبب بھی عوام میں اور دنیا بھر میں مرکز کی مودی حکومت کی تھو تھو ہو رہی ہے ، جو ویسے بھی پہلے سے ہو رہی ہے ۔ لیکن ذات سروے رپورٹ کی ’ آفت ‘ کے خلاف یہ چھاپے بی جے پی نے ’ اَوسر ‘ سمجھ کر ہی ڈلوائے ہیں ، بی جے پی نے ان چھاپوں کو مواقع ہی جانا ہے ، کیونکہ ان چھاپوں کے سبب ذات سروے کی رپورٹ کے ہنگامے سے لوگوں کی توجہ قدرے ہٹی ہے ۔ لیکن مودی یہ بھول گیے ہیں کہ یہ اَوسر عارضی ہے ، اِن چھاپوں کی طرف سے لوگوں کی توجہ جلد ہی ہٹ جائے گی ، اور وہ پھر اُس ہنگامے کی طرف ، جو ذات سروے کی رپورٹ سے اٹھا ہے ، متوجہ ہو جائیں گے ۔ کورونا کے دنوں میں بھی اَوسر عارضی تھا ۔ ملک کی ندیوں میں ان گنت لاشیں تیر رہی تھیں ، شمشان گھاٹوں پر مردے جلانے کے لیے لکڑیاں ختم ہو گئی تھیں ، قبرستانوں میں تدفین کے لیے زمینیں نہیں بچی تھیں ۔ کچھ دن ’ کورونا ویکسین ‘ کا غلغلہ رہا ، لیکن کورونا کے ایّام میں آکسیجن سلنڈروں کی قلّت اور زندگی گذارنے کی سختی ، ہزاروں کلو میٹر تک لوگوں کا کا پیدل سفر ، یہ سب اَوسر نہیں اَپدا ہی تھا ، اور جب بھی کورونا کی تاریخ لکھی جائے گی ، مودی حکومت کی کارگردگی کو سیاہ حرفوں میں تحریر کیا جائے گا ۔ چھاپے ڈال کر چند روز کے لیے مسائل سے لوگوں کی توجہ ہٹائی تو جا سکتی ہے ، لیکن مسائل کو دبایا نہیں جا سکتا ۔ کورونا کی مثال اس لیے دینا پڑی کہ اِن دنوں ’ دی کشمیر فائلس ‘ کے فلم ساز وویک اگنی ہوتری کی ایک فلم ’ ویکسین وار ‘ آئی ہے ، ایک پروپیگنڈا فلم ، اس میں کورونا دور کی مشکلات اور مصائب کو نظرانداز کر کے کورونا ویکسین بنانے کا ’ عظیم کارنامہ ‘ کن دشواریوں سے گذرا اور کیسے ’ قوم دشمنوں ‘ نے اس کے خلاف سازشیں کیں ، دکھانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ مودی نے اس فلم کی خوب تعریف کی ، لوگوں سے فلم دیکھنے کی اپیل کی ہے ، لیکن فلم ڈبہّ ہوگئی ہے ۔ پروپیگنڈا لمبے عرصے تک جھوٹ کو چھپا نہیں سکتا ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)