Home قومی خبریں شعبۂ اردو،سی سی ایس یو میں ادب نما کے تحت ’’عہد حاضر میں سر سید کا مشن‘‘ پر آن لائن پروگرام

شعبۂ اردو،سی سی ایس یو میں ادب نما کے تحت ’’عہد حاضر میں سر سید کا مشن‘‘ پر آن لائن پروگرام

by قندیل

میرٹھ : اگر نظر دوڑائیں تو سر سید کی اہمیت آج بھی اتنی ہی ہے جتنی پہلے تھی۔ سر سید کی مخا لفت بھی کافی کی گئی۔انہوں نے بہت سی گالیاں بھی برداشت کیں مگر وہ اپنے مقصد کے آ گے کسی بات پر غور نہیں کرتے تھے۔ سر سید لکھتے بھی تھے،تقریر بھی کرتے تھے اور خطبات احمدیہ اور قرآن کی تفسیر کے ذریعے لوگوں کو جھنجھوڑتے بھی تھے۔ یہ الفاظ تھے شیخ الجامعہ،مولا نا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ، حیدر آ باد کے پروفیسر خواجہ شاہد علیگ کے جو شعبۂ اردو، چودھری چرن سنگھ یونیورسٹی اور بین الاقوامی نوجو ان اردو اسکالرز انجمن (آیوسا) کے زیر اہتمام منعقد’’عہد حاضر میں سر سید کا مشن‘‘ موضوع پر مہمان خصوصی کی حیثیت سے اپنی تقریر کے دوران ادا کررہے تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ سر سید نے جو کام کیے ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ سر سید ادیب بھی تھے اور شاعر بھی تھے۔سر سید کا سب سے بڑا کام قوم کے اندر سائنٹفک ذہن بنانا تھا۔ انہوں نے سائنس کی کتابوں کے ترجمہ کرا ئے۔ انہوں نے سیاست، سماج اور صحافت کے ساتھ مذہب کو بھی اپنے مشن میں رکھا۔
اس سے قبل پرو گرام کا آغازسعید احمد سہارنپوری نے تلاوت کلام پاک سے کیا۔ہدیۂ نعت عظمیٰ پروین اورپروگرام کی صدارت کے فرائض معروف ادیب عارف نقوی جرمنی نے انجام دیے۔مہمانِ خصوصی کے بطور معروف مزاحیہ شاعر احمد علوی دہلی نے آن لائن شرکت کی۔ جب کہ مقررین کے طور پر پروفیسر صغیر افراہیم، علی گڑھ،پروفیسر جمال احمد صدیقی ،ڈاکٹر ہاشم رضا زیدی ، ڈاکٹر معراج الدین احمد اور آیو سا کی صدر لکھنؤ سے ڈاکٹر ریشما پروین نے شرکت کی ۔استقبالیہ کلمات و نظامت ڈاکٹر ارشاد سیانوی اور شکریے کی رسم ڈاکٹر سیدہ مریم الٰہی نے انجام دی۔
اس موقع پر صدر شعبۂ اردو پروفیسر اسلم جمشید پوری نے کہا کہ تعلیمی معاملات میں جو سر سید کا کردار ہے اس کی کوئی مثال نہیں۔ سر سید کی یہ سنت ہے کہ ہم تعلیمی ادارے قائم کریں۔ آج سر سید ہمارے درمیان نہیں ہیں مگر ان کا لگایا ہوا پودھا علی گڑھ یونیورسٹی کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔دوسری قوموں کے برا بر آنے کا ایک ہی فارمولہ ہے کہ ہم تعلیمی میدان کو وسیع کریں۔ ماڈرن انڈیا کی بنیاد بھی سر سید نے ہی رکھی۔ ان کے چھوڑے ہوئے کاموں کو آگے بڑھانا، اسکول و کالجز میں ان کی تعلیمات کو آگے بڑھانا یہ سب کام کرنے کی ہما ری ذمہ داری ہے۔ سر سید کے کاموں کو دہرا نا ہی سر سید کا مشن ہے۔
پروفیسر صغیر افرا ہیم نے کہا کہ مذہب کا معاملہ ہو یا سیاست کا میدان تعلیم ہی وہ واحد حل ہے جس پر چل کر ہم کامیاب ہوسکتے ہیں۔ آج ہمارے یہاں مدرسوں کی کمی نہیں ہے،کاش! مدرسوں میں ان باتوں کو بھی شامل کرلیتے جو سر سید کے مشن میں شامل تھیں۔ سر سید نے مدارس کی تعلیم پر زور دیا اور وہاں سے ہر طرح کی تعلیمات کو عام کیا۔ سر سید نے یہ ثابت کیا کہ ہم انگریزی زبان کے ذریعے تمام معلومات اور کاموں کو سمجھ سکتے ہیں۔ سائنٹفک سوسائٹی کے ذریعے جدید ٹیکنالوجی کی تعلیم پر زور دیا۔ہم کو میڈیکل سائنس اور انگریزی کی تعلیم پر زور دینا چاہئے تبھی ہم کامیاب ہوں گے،جب بے لوث خد مت کی جاتی ہے تو وہ ضرور کامیابی حاصل کرتی ہے۔ ہر ایک انسان کی کامیابی کا بڑا ہتھیار صرف تعلیم ہی ہے۔
پروفیسر جمال احمد صدیقی نے کہا کہ ہم سر سید کی حیات و خدمات پر غور نہ کر کے یہ غور کر لیں کی ان کی سوچ کیا تھی، قوم کا درد کیا تھا، سر سید کا مشن کیا تھا ان تمام باتوں کو دیکھتے ہوئے میں کہوں گا کہ سر سید کے مشن کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسا کام کرنا چاہئے کہ سر سید کی روح کو سکون ملے۔ موجودہ دور میں114ممالک میں سر سید ایسو سی ایشن قائم ہوچکی ہے۔ ہندوستان کی ترقی صرف اور صرف تعلیم سے ہی ہو سکتی ہے اور قوم کی ترقی کے لیے جدید تعلیم کی اہم ضرورت ہے ۔اگر ہم سب سر سید کی تعلیمات اور مشن کو دھیان میں رکھتے ہوئے تعلیمی کا رناموں کو آگے بڑھائیں گے تو سر سید کو یہ سچی خراج عقیدت ہوگی۔
ڈاکٹر ریشما پروین نے کہا کہ ہمیں سوچنا ہوگا کہ آگے کیا کرنا ہے۔ علی گڑھ سے نکلنے کے بعد بھی مجھے ایسا لگتا ہے کہ سر سید ہم سب کے ہیں،کیا ہم نئی نسل کو وہ چیز دے پا رہے ہیں جو دینا چاہئے۔ سر سید کے مشن کو آگے بڑھا نے کے لیے ہم کیا کررہے ہیں۔ اس سوال پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ ہم آنے والے لوگوں اور نسلوں میں سر سید کے تعلیمی جذبات کو پیدا کریں۔
ڈاکٹر ہاشم رضا زیدی نے کہا کہ اگر سر سید نہ ہو تے تو نہ جانے اس قوم کا مستقبل کیا ہوتا۔آپ نے نازک حالات میں بھی بڑے صبر و تحمل سے کام لیا اور ہمہ وقت اپنے کارناموں اور مشن میں لگے رہے۔ آپ نے کسی ایک فرد کے لیے کام نہیں کیا بلکہ پوری قوم کے رہبر بن کر سامنے آئے اور سماج کے ہر فرد کے لیے کام کیا تبھی تو پونے دوسو سال گذرنے کے بعد بھی عصر حاضر میں بھی آپ کے مشن کی بڑی اہمیت ہے۔
ڈاکٹر معراج الدین نے کہا کہ آج کے عہد میں سر سید کی کمی محسوس ہوتی ہے ۔کیو نکہ سر سید کے بعد سے آج تک علی گڑھ مسلم یونیورسٹی جیسی کو ئی دوسری یونیورسٹی قائم نہیں ہو سکی۔ سر سید کے بعد تعلیمی میدان میں جو کام ہو نا چاہئے تھا وہ نہیں ہو سکا۔ اب تعلیم ہی واحد ایسا راستہ ہے جو سر سید کے مشن کو آ گے بڑھا سکتا ہے۔ آج پھر ہمیں ایسی ہی یونیورسٹیز کی ضرورت ہے۔ قومی اتحاد، بھائی چارے کے فروغ کے لیے ہمیں سر سید کے مشن کو عام کرنا ہوگا۔ ان کے مشن پر چل کر ہی ہم زندگی میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔
اپنی صدارتی تقریر میں عارف نقوی نے کہا کہ سر سید اس بات کو سمجھ رہے تھے کہ ہما را کیا علم تھا اور ہم نے اس کو کہاں چھوڑ دیا۔1857ء سے پہلے یا بعد کے حالات کو دیکھیں تو پتہ چلے گا کہ بہت سے لوگ ملک آزاد کرا نے میں لگے ہوئے تھے مگر ایسے بھی لوگ تھے جنہوں نے اپنے مفاد کے لیے انگریزوں کا ساتھ دیا۔ ایسے نازک وقت میں سر سید نے سوچا کہ ہمیں اپنی قوم کو کہاں لے جانا ہے۔ سر سید کے سامنے ماضی کی سائنس کا پس منظر تھا،جسے سر سید نے شروع کر نے کی کوشش کی۔ اسی لیے ہمیں سائنس کے ساتھ ساتھ علم، سماج اور قوم کے مستبل کے بارے میں سوچنا چاہئے۔عام لوگوں اور گائوں دیہات میں بھی سر سید کے مشن کو لے جانا چاہئے۔
پروگرام میںڈاکٹر آصف علی ،ڈاکٹر شاداب علیم،ڈاکٹر الکا وششٹھ ،رما نہرو،سعید احمد سہارنپوری، محمد شمشاد،شاہا نہ پروین، فیضان ظفر وغیرہ آن لائن موجود رہے۔

 

You may also like

Leave a Comment