Home مکالمہ پروفیسر محسن عثمانی ندوی سے ایک خوشگوار ملاقات ـ عبدالمالک بلند شہری

پروفیسر محسن عثمانی ندوی سے ایک خوشگوار ملاقات ـ عبدالمالک بلند شہری

by قندیل

 

کل گرامی قدر مولانا ڈاکٹر محسن عثمانی زید مجدہم کا میسیج موصول ہوا کہ دہلی میں ہوں تو ملاقات کیجیےـ ادھر کئی دنوں سے میرا ارادہ بھی ان کی عیادت کرنے کا تھاـ وہ کئی دنوں سے علیل تھے اور ابھی چند دنوں قبل ہی ان کے دل کاآپریشن ہوا تھا اور قلب میں پیس میکر مشین نصب کی گئی ہےـ آج حسب حکم ان سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا _وہ اپنے داماد اور ہمارے کرم فرما جناب احمد عبداللہ نشاط مدظلہ کے دولت کدہ پر قیام پذیر تھے _راقم سطور معینہ وقت پر حاضر ہوا اور ڈاکٹر صاحب کوہشاش بشاش دیکھ کر بڑی مسرت ہوئی ـ

ڈاکٹر محسن عثمانی بلاشبہ ملت اسلامیہ کا ایک انمول سرمایہ ہیں _دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کے ممتاز فیض یافتہ اور دار العلوم دیوبند کے نمایاں فاضل ہیں _ندوی تہذیب و ثقافت کے علمبردار اور قاسمی سوز و ساز کے حامل ہیں ـ سن ولادت ١٩٤٧ ہے اس لحاظ سے عمر مبارک ستر برس سے متجاوز ہوچکی ہےـ

آپ صاحب اسلوب ادیب، شگفتہ نثر نگار، بلند پایہ مفکر،دور اندیش ماہر تعلیم اور بے لوث داعی ہیں _قلم و قرطاس سے گہرا رشتہ ہے _تنقید و تحقیق، ادب و صحافت، سوانح و تاریخ،مذھب و سیاست ،فکر و اصلاح اور دعوت و تبلیغ سمیت متعدد اہم موضوعات پر آپ نے خوب لکھا اور بے تحاشہ لکھا بلکہ یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ آپ نے اپنی قوت فکر و عمل اور قلم کی طاقت کے ذریعہ پوری ایک لائبریری تیار کردی _آپ عربی، اردو اور انگریزی میں درجنوں کتابوں کے مصنف ہیں – آپ کی مشہور و معروف کتابوں میں مطالعہ شعر و ادب، حالات حاضرہ اور ہندوستانی مسلمان، حالات بدل سکتے ہیں، کتابوں کے درمیان، ستاروں کے درمیان، مطالعہ مذاھب، وحید الدین خان دانشوروں کی نظر میں،سلسلہ مشاہیر علوم اسلامیہ و سلاطین و ادباء و اطباء ،کلیم عاجز شخصیت اور شاعری،اردو زبان کا تحفظ اور ہماری ذمہ داری، دنیا کو خوب دیکھا، تقدیر امم کا رازداں، مصر کی عربی صحافت،فضائل اخلاق، یحدثونک عن السید ابی الحسن ،نجیب محفوظ فی میزان النقد اور قضیہ البعث الاسلامی وغیرہ ہیں ـ

آپ کو خدا نے اخاذ ذہن کا حامل بنایا ہے -مسائل کا تجزیہ اور تحلیل کرنے کی آپ میں بھرپور صلاحیت ہے _کسی بھی موضوع پر قلم اٹھاتے ہیں تو اس کے مالہ و ماعلیہ سے کماحقہ واقفیت حاصل کرکے ہی اٹھاتے ہیں – آپ کی تحریریں بڑی پرکشش ہوتی ہیں،سلاست وروانی اور شگفتگی و رعنائی آپ کی نگارشات کے لوازمات ہیں، آپ کی تحریروں سے فکری رہنمائی کے ساتھ ادبی ذوق کو بھی جلا ملتی ہے، امت مسلمہ کی بروقت رہنمائی کرنا اور انہیں درست راہ دکھانا آپ کا بنیادی کارنامہ ہے – ہندوستانی مسلمانوں کے موجودہ مسائل پر آپ نے بہت غوروفکر کیا ہے اور ان کے لیے مضبوط لائحہ عمل تیار کیا ہے _میرا ذاتی تاثر یہ ہے کہ اگر آپ کے افکار و نظریات کو قوت تنفیذ مل جائے تو واقعی حالات بدل جائیں ـ

ملاقات کا دورانیہ دو گھنٹہ کو محیط رہا _اس دوران میں بعض اہم موضوعات پر تبادلہ خیال ہوا اور آپ کے تجربات و مشاہدات سے استفادہ کرنے کا شرف حاصل ہوا _راقم کے دریافت کرنے پر بتایا کہ ندوۃ العلماء سے صرف عالمیت کی ہے اور بخاری شریف ندوہ میں نہیں پڑھی ہے اس زمانہ میں بخاری شریف صرف فضیلت کے درجہ میں پڑھائی جاتی تھی _انھوں نے مشکوۃ شریف مولانا اسباط لکھنؤی قدس سرہ سے پڑھی ہے _میں نے دریافت کیا کہ مولانا اسباط ندوہ العلماء ایسے معروف ادارہ کے استاذ حدیث ہوئے ہیں اس کے باوجود وہ پردہ خمول میں کیوں ہیں، نئی نسل ان سے بالکل ناواقف ہے اور ان کے حالات بھی کہیں دستیاب نہیں _اس پرفرمایا کہ وہ صرف مدرس اور معلم تھے – نہ شیخ طریقت تھے اور نہ ادیب و صحافی – نہ ان کی کوئی کتاب سامنے آسکی – علمی و فکری دنیا میں عام طور پر مصنفوں کو حیات جاوداں نصیب ہوتی ہے – بعض لوگ باصلاحیت ہونے کے باوجود لکھنے کی طرف متوجہ نہیں ہوتے _مولانا ابو العرفان خان ندوی(١٩٢٣-١٩٨٨) ، مولانا عمران خان ازہری(١٩١٣-١٩٨٦) اور مولانا محب اللہ لاری ندوی (١٩٠٥-١٩٩٣) یہ سب بہترین صلاحیتوں کے حامل تھے اس کے باوجود انھوں نے تصنیف و تالیف کے میدان میں قدم آزمائی نہیں کی _پھر فرمایا ندوۃ العلماء میں مولانا سید واضح رشید حسنی قدس سرہ بہترین عربی لکھنےوالے تھے _ان کا عربی اسلوب بڑا پرشوکت ہے _ان کے اندر حالات کا تجزیہ کرنے کی بھرپور صلاحیت تھی – چونکہ وہ انگریزی زبان کے اسرار و رموز سے بھی واقف تھے اور مغربی تہذیب و تمدن پر ان کا مطالعہ وسیع تھا اسی لیے ان کی تحریروں میں مواد کے ساتھ اسلامی تہذیب کی برتری بھی واضح طور پر موجود ہوتی تھی – ان کو خوب پڑھنا چاہیے – حسنی خانوادہ کا قلم و قرطاس سے مضبوط تعلق ہے اس میں کافی مصنفین ہوئے ہیں – مولانا محمد حسنی (١٩٣٥-١٩٧٩) ، مولانا محمد ثانی حسنی(١٩٢٥-١٩٨٢)، مولانا علی میاں (١٩١٤-١٩٩٩)،مولانا سید محمد رابع حسنی(پ ١٩٢٩) ،مولانا سید واضح رشید حسنی(١٩٣٣-٢٠١٩) ،مولانا سید بلال حسنی(١٩٦٩) اور مولانا سید محمود حسنی(١٩٧١) وغیرہ _مولانا بلال حسنی بڑے فعال و متحرک ہیں، ان کی علمی صلاحیت بھی اچھی ہے، میدان میں بھی اتر کر وہ کام کررہے ہیں، انھوں نے مولانا علی میاں ندوی سے خاص استفادہ کیا ہے اور فکر و نظر میں انھیں کے تابع ہیں – ان کی کتاب مولانا علی میاں دعوت و فکر کے اہم پہلو بڑی جامع اور بہترین ہے _

اس کے بعد دارالعلوم دیوبند کا ذکر آیا فرمایا ہم نے وہاں دو سال تعلیم حاصل کی _مشکوۃ اور دورہ شریف – بخاری شریف ہمیں مولانا فخر الدین مرادآبادی نور اللہ مرقدہ (١٨٨٩-١٩٧٢) سے پڑھنے کا شرف حاصل ہوا _ان کے علاوہ مولانا حسین بہاری، مولانا معراج الحق دیوبندی ہمارے اساتذہ میں ہیں –

پھر بات کا رخ امارت شرعیہ کی طرف مڑ گیا – فرمایا امارت شرعیہ ہندوستان کا ایک قدیم اور باوقار ادارہ ہے_اس کے تحفظ و بقا کی ذمہ داری ہم سب پر ہے _انتخاب امیر میں امارت کی دستوری شرائط کو نظر انداز کرنا باعث خلفشار ہے _راقم سطور نے عرض کیا کہ خطہ بہار میں مولانا ولی رحمانی (١٩٤٣-٢٠٢١)کے بعد مولانا خالد سیف اللہ رحمانی (پ ١٩٥٦) واحد ایسے عالم دین ہیں جو سیاسی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں، دینی فہم و فراست بھی انھیں حاصل ہے، حالات پر بھی ان کی گہری نگاہ ہے، عوام سے بھی ان کارابطہ مضبوط ہے اور وہ اپنی تدریسی و تصنیفی، فقہی و دینی خدمات کی بناء پر علمی و دینی حلقوں میں مشہور بھی ہیں امارت شرعیہ کی خلعت پروقار انھیں کے قامت موزوں پر جچتی ہے فرمایا کیا خوب کہی _اس سے اچھی بات اور کیا ہوسکتی ہےـ

پھر راقم سطور سے دریافت کیا کہ اترپردیش میں الیکشن ہونے والا ہے آپ کی اس سلسلہ میں کیا کوشش ہے – کس پارٹی کو سپورٹ کررہے ہیں، اویسی کے بارے میں کیا خیال ہےـ

راقم نے عرض کیااس موضوع پر تو ماہرین ہی بہترین رہنمائی کرسکتے ہیں البتہ اویسی کا جہاں تک تعلق ہے تو اس سلسلہ میں ان کے متعلق سب ہی جانتے ہیں کہ بنگال و بہار کی طرح اترپردیش میں بھی ان کا انجام ہوگا _ان کے ساتھ بعض مسائل ہیں – ایک تو وہ مضبوط پالیسی اپنانے سے عاری ہیں، زمینی سطح پران کا کوئی کام نہیں،وہ اژدحام، ہنگامہ اورنعرہ بازی سے خوش ہوجاتے ہیں – ابھی ان کا اترپردیش کا سیاسی دورہ ہوا تھا اس میں انھوں نے اپنی قوت اور شخصیت کابھرپور طریقہ سے مظاہرہ کیا تھا لاکھوں انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر تھا، خوب شور و غل تھا، ایک ہنگامہ بپا تھا-ان ہنگاموں سے ان کو یہ غلط فہمی ہوتی ہے کہ وہ عوام میں ہر دل عزیز ہیں اور فتح یقینی ہے _حالانکہ سیاسی میدان کی کچھ پالیسیاں ہیں کچھ آداب و اصول ہیں، کچھ پینترے ہیں جب تک ان کو نہیں آزمایا جائے گاتب تک کام نہیں بنے گا _اور دوسری بات یہ ہے کہ انھوں نے مجلس اتحاد المسلمین کو ون مین(one man) پارٹی بنارکھا ہے _اگر اتحاد المسلمین سے اویسی کو نکال دیا جائے تو وہ جسد بے روح کی مانند ہوجائے گی –

ہم نے مزید عرض کیا کہ قائدین ملت اسلامیہ کو متفقہ طور پر کسی ایک پارٹی سے اتحاد کرنا چاہیے، اپنے مطالبات اور شرائط ان سے منواکر ان کو سپورٹ کرنا چاہیے تب ہی کام بن سکتا ہے _اسی طرح اتحاد المسلمین کو تن تنہا میدان میں اترنے کی بجائے سماج وادی پارٹی یا بہوجن سماج وادی پارٹی سے برابری کی سطح پر گٹھ جوڑ کرلینا چاہیے غرض ان کے علاوہ اور بھی کئی حساس موضوعات پر گفتگو ہوئی جس کو یہاں نقل کرنا کار نامناسب ہے پھر انھوں نے ہندوستانی مسلمان آئینہ ایام میں از ڈاکٹر سید عابد حسین، دنیا کی کہانی از پروفیسر مجیب، ذکر حسین از ذاکر حسین سمیت بعض فکری و تاریخی کتابوں کے نام بتائے اور مطالعہ کی تلقین فرمائی ـ

ان سے ملاقات کرے ہر دفعہ کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ملتا ہے، غور و فکر کے نئے دریچے وا ہوتے ہیں، لگی بندھی راہ سے ہٹ کر کچھ سوچنے سمجھنے کا رجحان پیدا ہوتا ہے اور بصیرت زمانہ پیدا ہوتی ہے خدا انھیں اور ان ایسے تمام باکمال علماء و اسکالر کا سایہ دراز فرمائے، ان کو صحت و عافیت عطا فرمائے اور ہم خردوں کو ان کی قدر کرنے اور ان سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائےـ

You may also like

Leave a Comment