علی گڑھ:علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں شعبۂ تاریخ کے پروفیسر اور متعدد کتابوں کے مصنف پروفیسر محمد سجاد کی نئی کتاب ’بھگوا سیاست اور مسلم اقلیت‘ عنقریب منظر عام پر آنے والی ہے۔ اس کتاب میں انھوں ہندوستان کے موجودہ سماجی و سیاسی ماحول خصوصا فرقہ وارانہ سیاست کے عروج کے اسباب اور پس منظر کا جائزہ لیا ہے اور اس سلسلے میں اہم معلومات فراہم کی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ اس کتاب کے ذریعے ایک مکالمہ شروع کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک تجویز رکھنے کی کوشش کی گئی ہے کہ آج کے مشکل تر اور نا مساعد حالات کے پیش نظر ہندوستانی مسلمان اپنی ترجیحات کو از سر نو طے کرنے کی فکر یا ایسا تجربہ کر سکتے ہیں یا نہیں؟ سوشل میڈیا پر شمالی ہند کے مسلم نوجوانوں کی بڑی آبادی بہ ظاہر زیادہ دلچسپی انتخابی سیاست کی توڑ جوڑ، سیاست دانوں کے نجی و پبلک معاملات پر دکھاتی ہے۔ کبھی کبھی تو ایسا لگنے لگتا ہے کہ انتخابی سیاست کی دنیا میں جو گراوٹ آئی ہے، اس کے خلاف بولتے ہوئے یا احتجاج کرتے ہوئے بیش تر کا مقصد شاید انہی خرابیوں میں ملوث ہو کر ذاتی مفادات حاصل کرنا ہے۔
پروفیسر سجاد کے مطابق اس کتابچہ کے ذریعے ایک ادنی کوشش کی جا رہی ہے کہ انتخابی سیاست کے رموز و نکات کو مطالعہ اور مشاہدہ کے ذریعہ باریکی سے سمجھنے کا عمل تو جاری رکھا جائے، لیکن فوقیت اور ترجیح دی جائے تعلیمی و اقتصادی ترقی پر۔ ساحلی صوبوں کیرالہ، حیدرآباد اور آسام میں جہاں مسلم سیاسی جماعتیں ہیں، وہاں ڈیموگرافکس کے علاوہ یہ بھی سچ ہے کہ ان علاقوں میں کئی تنظیمیں تعلیمی و اقتصادی میدان میں بھی قابل تعریف اقدام کر رہی ہیں۔ عمومی طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ جنوبی ہند کے بیشتر بڑے شہروں اور خطوں میں مسلمانوں کی جدید تعلیم کے لئے کئی تنظیموں نے متعدد تعلیمی و تحقیقی ادارے بھی قائم کیے ہیں۔ مثلاً 1966 میں قائم شدہ، الامین ایجوکیشنل سوسائٹی بنگلور، مسلم ایجوکیشنل سوسائٹی (کیرالہ قائم شدہ، 1964) اور 1955 میں قائم کیرل مسلم ایجوکیشنل ایسو سی ایشن اور 1902 میں قائم مسلم ایجوکیشنل ایسو سی ایشن آف ساؤدرن انڈیا (چینئی) وغیرہ۔ آندھرا پردیش، تلنگانہ میں بھی کئی ایسی تنظیمیں ہیں۔ سلطان العلوم ایجوکیشنل سوسائٹی، ادارۂ ادبیات اردو، دی مسلم ایجوکیشنل سوشل آرگنائزیشن، مدینہ گروپ آف ایجوکیشنل انسٹی ٹیوشنس وغیرہ۔
یہاں تک کہ مدھیہ پردیش اور راجستھان جیسے صوبوں (جہاں زعفرانی تسلط 1990 کی دہائی سے ہی قائم ہے) میں بھی مسلمانوں نے تمام مشکلات کے باوجود ایسے کچھ اقدام کیے ہیں۔ مثلاً مسلم ایجوکیشن سو سائٹی اور آل انڈیا مسلم بیک ورڈ کلاسز فیڈیریشن (مدھیہ پردیش)۔ ممکن ہے ایسی اور بھی تنظیمیں وہاں ہوں گی۔ راجستھان میں جودھپور ریاست کے راجہ امید سنگھ کی فراخ دلی سے 1929 میں قائم مارواڑ مسلم ایجوکیشنل اینڈ ویلفیئر سوسائٹی نے بھی کئی (تقریباً 31) اسکول، کالج اور اسپتال قائم کیے ہیں۔
ایسے میں بہار، اتر پردیش، مغربی بنگال، جیسے صوبوں میں بھی ایسے اقدام اگر مسلمانوں کا اہل ثروت طبقہ اور دیگر خواص کرنے لگیں گے تو حالات میں خاطر خواہ تبدیلی آ سکتی ہے۔ اس کے برعکس ان صوبوں میں سر دست ایسے کئی لوگ اپنی دولت کا بہت بڑا حصہ الیکشن کا ٹکٹ حاصل کرنے اور چناؤ کی مہم میں (شکست کھا کر) خرچ کر دیتے ہیں۔ انتخابی سیاست چونکہ بری طرح جرم زدہ بھی ہے اور شدید بدعنوانی کی بھی شکار ہے، لہذا سیاسی عروج حاصل کرنے کے متمنی بعض لوگ جرم کا راستہ بھی اختیار کر رہے ہیں اور اس کے لئے مذہب کا بے جا استعمال اور وسیع تر سماجی یا فرقہ پرستانہ حمایت تیار کرنے کی چال بازیاں اور تگڑم بھی کی جاتی ہے۔ حصول اختیارات کے طریقوں میں ایک طریقہ جرم کو بھی مانا جاتا ہے اور اس طرح پڑھنے، لکھنے اور تجارت و ملازمت کرنے والے نوجوانوں کو گمراہ کر کے جرم کی اندھیری دنیا میں دھکیل دیا جاتا ہے۔
یعنی ایک وسیع تر اور مضبوط سماجی مہم جرائم کا راستہ اختیار کرنے کی روش کے خلاف بھی شروع کرنی ہوگی۔ اس کتاب کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ مسلمان اپنی سماجی و سیاسی ترجیحات از سر نو طے کریں،امید ہے کہ اس کتاب سے مسلمانوں کے درمیان ایک نیا ڈسکورس شروع ہوگا۔
پروفیسر محمد سجاد کی تازہ تصنیف ’بھگوا سیاست اور مسلم اقلیت‘عنقریب منظرعام پر
previous post