پروفیسر خالد محمود پر کسی قسم کی گفتگو سے پہلے میں ایک کہانی سنانا چاہتا ہوں۔ وہ کہانی ہے ایک سپاہی زادے کی، جس کے پاس نہ گھوڑا تھا نہ تلوار۔ لے دے کے جنوں پیشہ بزرگوں کی نشانی تیشہ تھا۔ اِس ہتھیار کو لیکر ایک دن وہ اپنے گھر سے نکلا اور اپنی حکمت و دانائی سے نہ صرف گھوڑے اور تلوار کا مالک بنا بلکہ شب وروز کی انتھک محنت سے فتوحات کا وہ ریکارڈ قائم کیا کہ اس کے نام کا ڈنکا دور دور تک بجنے لگا۔
حضرات۔ یہ سپاہی زادہ کوئی اور نہیں خود خالد محمود ہیں، جو الف لیکر گھر سے نکلے اور پھر تمام حروف تہجی پر نہ صرف دسترس حاصل کی بلکہ انھیں حروف کو ہتھیار بناکر دور دور تک شعرادب کے قلعوں کو فتح بھی کیا۔ ان کی فتوحات کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ ڈاکٹر خالد محمود نے اپنی جہد مسلسل کی ابتداء ایک اسکول ماسٹر کی حیثیت سے کی پھر لیکچرر، پروفیسر اور صدر شعبہ تک کے تمام مراحل طے کرکے وہ آج جامعہ ملیہ اسلامیہ جیسی عالمی شہرت یافتہ یونیورسٹی کی ملازمت سے سبکدوش ضرور ہوگئے ہیں لیکن اپنے منصب استادی پر آج بھی فائز ہیں کہ استاد کبھی ریٹائر نہیں ہوتا۔ یہ عہدہ یہ منصب بھی نبوت اور ولایت کی طرح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ جسے یہ نعمت بخشتا ہے قیامت تک کے لئے بخشتا ہے۔
خالد صاحب کی ہشت پہلو شخصیت کے ہزار رنگ ہیں اور ہر رنگ اپنے آپ میں روشن اور تابناک ہے، قطع نظر اِس بات سے کہ اردو زبان و ادب ان کا ذریعہ معاش رہا، انھیں اس زبان سے والہانہ عشق بھی ہے،اِن کے اِس عشق کے گواہ سرونج کے دروبام بھی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے سبزہ زار بھی۔ بھوپال کا تذکرہ میں نے دانستہ طور پر نہیں کیا کہ یہاں کے چپے چپے پر ان کی مجنوں باشی کے نشان روشن ہیں۔ بحیثیت مدرّس انھوں نے اپنے پیشے کی ہمیشہ لاج رکھی۔ طالب علموں کو وہی سبق دیا جو میر تقی میرؔ کے والد نے خود میرؔ کو دیا تھا یعنی عشق کرو بیٹا عشق، اپنی زبان سے عشق، اپنی تہذیب سے عشق۔ انھوں نے اپنے طالب علموں کو شعروادب کے رموز ہی نہیں سمجھائے بلکہ اپنا گرویدہ بھی بنایا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بحیثیت صدر شعبہ اردو اُنھوں نے کئی تاریخی اور یادگاری کام کئے۔ ان کے عہد میں کئی اہم اور وقیع کتابیں منظرِ عام پر آئیں۔ پہلی بار شعبہ اردو کا اپنا ایک میگزین شائع ہوا۔ بے مثال سیمینار ہوئے۔ ارمغان کے علاوہ اردو صحافت ماضی اور حال، اردو زبان اور ابلاغِ عامہ، ترجمے کے فنی اور علمی مباحث وغیرہ وہ تاریخی کام ہیں جو ہمیشہ خالد صاحب کی ادبی اور تنظیمی صلاحیتوں کی یاد دلاتے رہیں گے۔
خالد محمود صاحب کے دورِ اقتدار کا ایک اہم کارنامہ ”ٹیگور ریسرچ اینڈ ٹرانسلیشن اسکیم“ ہے، جس کے لیے وزارت ثقافت حکومتِ ہند نے چھیانوے لاکھ روپئے کی گرانٹ منظور کی۔ اس پروجیکٹ کے تحت اردو میں ٹیگور شناسی کا ایک نیا دور شروع ہوا۔ ورکشاپ اور سیمینار ہوئے، ٹیگور کی تخلیقات کے اردو میں تراجم ہوئے۔ جس کے نتیجے میں ”رابندرناتھ ٹیگور فکروفن“کے علاوہ تصنیف وترجمے کے حوالے سے تقریباً ایک درجن کتابیں منظرعام پر آئیں۔
پروفیسرخالد محمود کو جب مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ کے مینجنگ ڈائرکٹر کی اضافی ذمہ داری سونپی گئی، اس وقت مکتبہ کی حالت ایک ڈوبتے جہاز جیسی تھی۔ انھوں نے اپنی سوجھ بوجھ اور دانائی سے اس ادارہ کو ایک نئی زندگی عطا کی۔ میں یہاں ان تفصیلات میں نہیں جاؤں گا کہ کس طرح انھوں نے مکتبہ جامعہ کی آمدنی بڑھانے کے لیے عملی قدم اُٹھائے۔ اس کے دفاتر کے لیے ایک پائیدار عمارت حاصل کی یا پھر اس کے پریس کے لیے زمین کا انتظام کیا لیکن یہ ضرور بتانا ضروری ہے کہ ان کی ذاتی کوشش سے چارسو ٹائٹل پر مشتمل تقریباً چار لاکھ کتابوں کی اشاعت فروغِ اردو کے مالی تعاون سے ممکن ہوسکی۔ ظاہر ہے ان سب اہم کاموں کے لیے ادبی بصیرت بھی چاہئے اور تنظیمی صلاحیت بھی اور ان دونوں چیزوں کی اس سپاہی زادے کے پاس کمی نہیں تھی۔
ڈاکٹر خالد محمود نے اپنی خداداد صلاحیتوں سے ایک قلعہ اور فتح کیا یعنی دہلی اردو اکادمی کے وائس چیئرمین بنے۔ بحیثیت وائس چیئرمین یہاں بھی انھوں نے اپنی فکر کے نئے چراغ روشن کیے اور اکادمی کو نئے رنگ وروغن سے آراستہ کیا۔
یہ تو تھا ڈاکٹر خالد محمود کی منصبی اور تنظیمی صلاحیتوں کا ایک اجمالی تعارف۔ جہاں تک ان کے ادبی اور لسانی سروکار کا تعلق ہے تو وہ شاعر بھی ہیں اور ادیب بھی۔ تنقید نگار بھی ہیں اور ترجمہ نگار بھی۔ ان کی اب تک ایک درجن سے زائد کتابیں منظرعام پر آچکی ہیں، جن میں شعری دیوان بھی ہیں اور خاکوں اور انشائیوں پر مشتمل مجموعے بھی۔ تحقیق اور تنقید و ترجمے کے تعلق سے کتابیں بھی۔ ان کے علاوہ وہ کتابیں الگ ہیں جو مختلف تعلیمی اداروں کے لیے درسی نصاب کے طور پر ترتیب دی گئی ہیں۔ ان کی شاعری میں جہاں زبان و بیان کی ندرت اور معنی کی رنگارنگی نظر آتی ہے وہیں نثر میں بھی شگفتگی اور شوخی کے کے رنگ نمایاں ہیں۔ خالد صاحب گل افشانی و گفتار کی زندہ مثال ہیں، چنانچہ وہ بات کریں یا نثر لکھیں ایک سی خوشبو آتی ہے۔ ان کے انشایئے اور خاکے اس بات کا بین ثبوت ہیں۔ ڈاکٹر عزیز اندوری آج ہمارے بیچ نہیں ہیں، جب وہ حیات تھے اس وقت خالد صاحب نے ان کے خاکے میں کچھ اس طرح رنگ بھرے تھے:
”ان کے (عزیز اندوری) ادبی مشاغل، اقتصادی مشاغل اور دلچسپ مشاغل ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیں۔ انہوں نے بہت لکھا مگر دوسروں کے لئے زیادہ، اپنے لئے کم۔ مختلف ناموں سے لکھے ہوئے نہ جانے کتنے مقالے آپ نے پڑھے ہوں گے اور آپ کو خیال بھی نہ آیا ہوگا کہ یہ عزیز اندوری کے رشحاتِ قلم کا نتیجہ ہیں۔ مصحفی کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کو غزلیں لکھ کر دیا کرتے تھے۔ اس سخاوت کے دوران اکثر یوں بھی ہوا ہے کہ اچھی غزلیں شاگردوں کو دے دیں اور کمزور خود رکھ لیں۔ عزیز اندوری بھی اپنے عہد کے مصحفیؔ ہیں۔ ان کی شاعری تو خیر کوئی کیوں لیتا، البتہ نثر میں انہوں نے وہ ایثار دکھایا کہ مصحفیؔ کو بھی شرمندہ کردیا۔ اچھی تحریریں دوسروں کو دے کر کمزور تحریریں خود رکھ لینا کوئی معمولی بات نہیں۔ اسلام نے کہا ہے جو چیز تم اپنے لئے پسند کرو وہی اپنے لئے بھی پسند کرو۔ اس معاملے میں عزیز اندوری نے اسلام کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے“۔
اسی طرح عبداللطیف اعظمی کے سلسلے میں لکھتے ہیں کہ:
”لطیف صاحب جب متحرک ہوتے ہیں تو سراپا تحریک نظر آتے ہیں بلکہ دیکھنے والوں میں بھی تحریک پیدا کردیتے ہیں۔ لطیف صاحب چلتے وقت سیکنڈوں سے زیادہ نظر نہیں آتے، وہ تو بس چھلاوہ ہیں، چشم زدن میں اپنے گھر اور اپنے گھر سے اردو گھر (جسے وہ اپنا ہی گھر سمجھتے ہیں)، اردو گھر سے جامع مسجد اور جامع مسجد سے مکتبہ جامعہ پہنچتے ہیں“۔
خالد محمود نے انشایئے اور خاکے کافی تعداد میں لکھے ہیں۔ انشائیوں اور خاکوں پر مشتمل ان کا ایک مجموعہ ”شگفتگی دل کی“ ۳۰۰۲ء میں منظرعام پر آیا تھا۔ ظاہر کہ اس درمیان دریا سے کافی پانی بہہ چکا ہے، اب اگر وہ اسے کتابی شکل میں سمیٹ لیں تو ان کی فہرست کتب میں اک گراں بہا اضافہ ہوسکتا ہے۔
جہاں تک ان کی شاعری کا معاملہ ہے تو یہ کھیل بھی انھوں نے لڑکپن سے کھیلنا شروع کردیا تھا۔ میرا خیال ہے کہ انھوں نے بھی میری طرح جدیدیت کے عہدِ شباب میں ہی آنکھیں کھولی ہوں گی۔ یہ اور بات کہ اختر شیرانی، ساحرؔ لدھیانوی، مجازؔ اور مخدومؔ جیسے شعراء کی صدائے بازگشت نے بھی کانوں کو متاثر کیا ہوگا مگر کسی سلمیٰ یا کسی نورا سے دل لگانے کے بجائے خالد صاحب غزل کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوئے اور خوب ہوئے۔ ایسا نہیں ہے کہ انھوں نے نظموں کو اپنے جوہر سخن سے آراستہ نہیں کیا، انھوں نے نظمیں بھی کہی ہیں،اور کہیں ایک معلم کے جذبات کی ترجمانی کی ہے تو کہیں جذباتی اور جنسی رشتوں کی شکست و ریخت کا نوحہ لکھا ہے۔ کبھی دعوت انبہ کی منظوم تصویر کشی کی ہے تو کبھی اپنے ہی چاک گریباں کو سیا ہے لیکن ان کا غالب رجحان غزل کی طرف ہی رہا۔
سچی اور کھری شاعری نہ تحریکوں کے دام میں آتی ہے نہ، رویوں کا طوق پہنتی ہے بلکہ عصری حسیت کا سارا نشاط وملال اپنی زمینوں میں جذب کرتی رہتی ہے۔ خالد محمود صاحب کی غزلیں بھی اسی خصوصیت سے عبارت ہیں۔ ڈاکٹر شہپر رسول نے ان کی غزلوں کے تعلق سے بڑے پتے کی بات کہی ہے کہ:
”خالد محمود کی غزل میں زندگی کے آلام ومصائب، حادثوں، واقعوں، شکستوں اور خواب شکن کیفیات کا اظہار تو ملتا ہے لیکن مایوسی کی فضا کے لیے ان کے شعری رویے میں کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ انھوں نے مذکورہ حالات و کیفیات سے صبر،شکر اور قناعت کشی کرنے کا فن سیکھا ہے“۔
خالد صاحب کی غزلوں میں غمِ دوراں بھی ہے اور غمِ جاناں بھی۔ انھوں نے تشبیہوں اور استعاروں کی مدد سے جو شعری پیکر تراشے ہیں ان کے بطون میں معنی کا ایک ایسا جہاں روشن ہے جس میں کائنات کے تئیں خلوص بھی اور خالق کائنات کے حضور عاجزی اور انکساری بھی۔
سوچتے ہیں سیکڑوں مالک بنا لینے کے بعد
ایک دامن سب کے آگے کس طرح پھیلائیں گے
٭
تمہیں اِک آئینہ ہو اور تم ہو
مجھے سب آئینہ ہے اور میں ہوں
٭
کوہ گراں کے سامنے تیشے کی کیا بساط
عہدِ جنوں میں ساری شرارت لہوکی تھی
٭
ہر اِک زخم پر دل نے آواز دی
مرے محترم! مہرباں! آشنا
٭
ہرکس و ناکس پہ کرلیتا ہے فوراً اعتبار
بے خبر کتنا ہے خالدؔ باخبر ہوتے ہوئے
باخبر ہوتے ہوئے بھی بے خبر رہنا شانِ درویشی ہے اور خالد صاحب اپنی محبت اور اپنی فطرت اور اپنے والہانہ پن کے سبب یقینا درویش کہلائے جانے کے مستحق ہیں۔ شب وروز کا ایک طویل سفر طے کرکے وہاں تک آگئے ہیں کہ جہاں ان کے نام اور کام دونوں پر گفتگو ناگزیر ہوجاتی ہے۔ مگر یہ سفر ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ خالد محمود صاحب آگے کے سفر میں اپنے باقی علمی اور ادبی اثاثہ کی تریب و اشاعت پر خصوصی توجہ دیں گے کہ اب یہ سرمایہ صرف ان ہی کا نہیں بلکہ بعد کی نسلوں کی امانت بھی ہے۔
پروفیسر خالد محمود:ایک مسافر لفظ و بیاں کا – ضیاؔ فاروقی
previous post