جب بھی کسی بڑی شخصیت کا انتقال ہوتاہے تو لوگ سوشل میڈیا پر اس کی اطلاع دینے میں پہل کا کریڈٹ لینا چاہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فیس بک اور واٹس ایپ جیسے پلیٹ فارموں پر ایک خبر اتنی بار سامنے آتی ہے کہ اسے دیکھ کر الجھن ہونے لگتی ہے۔ اتنا ہی نہیں سوشل میڈیا پر مرحوم شخصیت کے ساتھ اپنی آڑی ترچھی تصویریں شیئر کرنے کی وبا بھی عام ہے۔ بڑی شخصیات کے ساتھ اپنی تصویریں شیئر کرکے آدمی خود بھی بڑا ہوجاتا ہے یا نہیں، مجھے نہیں معلوم۔گزشتہ ہفتہ اس وقت بھی یہی حالت دیکھنے کو ملی جب مشہور ترقی پسند نقاد پروفیسر شارب ردولوی نے لکھنؤ میں وفات پائی۔ سوشل میڈیا پر تعزیت کرنے والوں کا ہجوم دیکھ کر مجھے اندازہ ہوا کہ ان کے جنازے میں ہزاروں لوگ شریک ہوں گے۔ علمی و ادبی حلقوں میں ان کی شخصیت خاصی مقبول تھی اور لکھنؤ میں تو ان کے چاہنے والوں کا ایک بڑا حلقہ تھا۔لیکن مجھے یہ جان کر سخت حیرت اور تکلیف ہوئی کہ جب ان کا جنازہ اٹھا تووہاں اتنے لوگ بھی موجود نہیں تھے،جو انھیں کاندھا دے سکیں۔ اس کے بعد ان کی تجہیز وتکفین کے مراحل میں بھی شرکاء کی تعداد دوہندسوں کو پار نہیں کر سکی۔ ہاں جب انھیں قبرستان لے جایا گیا تو وہاں ضرور 2درجن کے قریب سوگوار موجود تھے۔ظاہر ہے پروفیسر شارب ردولوی ادبی دنیا میں جس قدوقامت کے انسان تھے، اس اعتبار سے ان کے جنازے میں ہزاروں نہیں تو سیکڑوں لوگوں کو ضرورشریک ہونا چاہئے تھا، لیکن یہ تعداد 2درجن تھی، جو ایک المیے سے کم نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ مجھے اس موضوع پر قلم اٹھانا پڑا۔
میں کئی برس قبل پروفیسر محمدحسن کے جلوس جنازہ کا آنکھوں دیکھا حال لکھ چکا ہوں جو خاصا عبرتناک تھا۔ ان کی تجہیز وتکفین کے دوران وہ بنیادی لوازمات بھی پورینہیں کئے گئے تھے جن کا اہتمام ایک عام مسلمان کے آخری سفر کے دوران کیا جاتا ہے۔اس مضمون کو پڑھ کر ایک ترقی پسند ادیب نے کہیں یہ تبصرہ کیا تھا کہ ”مرنے کے بعد انسان کے جسد خاکی کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔اس لیے اس پر آنسو بہانا فضول ہے۔“ میں اس نظریہ سے اتفاق نہیں کرتا کیونکہ مرنے کے بعد انسان کے جنازے کے ساتھ ’حسن سلوک‘ ہونا چاہئے جو ہماری تہذیب اور کلچر کا حصہ ہے۔دنیا کے دیگر مذاہب کا حال تو مجھے نہیں معلوم، لیکن ہاں اسلام نے احترام آدمیت پر جتنا زور دیا ہے، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ انتقال کے بعد بھی اسی جذبے کے تحت پورے احترام و عقیدت کے ساتھ میت کی آخری رسوم پوری کی جانی چاہئیں۔ پروفیسر رشید احمد صدیقی نے لکھا ہے کہ ”علی گڑھ میں میت کے آخری سفر کے دوران کتنے آداب ملحوظ رکھے جاتے ہیں۔“یہ وہ باتیں تھیں جو میں نے پروفیسر محمد حسن کے آخری سفر کا آنکھوں دیکھا حال بیان کرتے ہوئے لکھی تھیں۔بہرحال مجھے یہاں پروفیسر شارب ردولوی پر گفتگو کرنی ہے۔
پروفیسر شارب ردولوی اودھی تہذیب کے پروردہ ایک بلند قامت نقاد، ادیب وشاعر تھے۔ ان کی شخصیت میں بلا کی جاذبیت تھی۔وہ لباس وافکار دونوں کے معاملے میں ندرت کے طرفدار تھے۔طبیعت میں بلا کا انکسار اور عاجزی تھی۔یہی وجہ ہے کہ علمی و ادبی حلقوں میں انھیں بڑے احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔وہ اردو ادیبوں اور شاعروں کی اس نسل کی آخری نشانی تھے جو ایک مخصوص ادبی اور تہذیبی ماحول میں پروان چڑھی تھی اور جس نے ہمارے علمی و ادبی سرمائے میں بیش بہا اضافے کئے۔اب ایسے لوگ نظر نہیں آتے۔
پروفیسرشارب ردولوی کی زندگی کا بیشتر حصہ یہاں دہلی میں درس وتدریس میں گزرا۔ سبکدوشی کے بعد وہ اپنی جڑوں کی طرف لوٹ گئے۔قرۃ العین حیدر نے ”آخرشب کے ہم سفر“ میں لکھا ہے کہ آخری عمر میں انسان اپنی جڑوں کی طرف لوٹتا ہے۔“پروفیسر شارب ردولوی نے بھی ایسا ہی کیا۔ اسی لیے وہ ریٹائرمنٹ کے بعد لکھنؤ چلے گئے اور وہاں انھوں نے سرگرم زندگی گزاری اور آخری وقت علمی وادبی محفلوں کی شان بڑھاتے رہے۔ ان کے بعد اب لکھنؤ میں اس پایہ کا کوئی دوسرا ادیب یا دانشور موجود نہیں ہے۔میں جب بھی کسی ادبی تقریب میں لکھنؤ گیا تو وہاں پروفیسر شارب ردولوی کو ہمیشہ اسٹیج پر صدارت کرتے ہوئے دیکھا۔وہ بلاشبہ ا ردو کے سب سے بزرگ ادیب و نقاد تھے اور 88 برس کی عمر میں بھی ان کا حافظہ پوری طرح درست تھا۔ وہ اسی انداز میں علمی و ادبی گفتگو کرتے تھے جیسی میں نے انھیں اب سے چالیس برس پہلے دہلی کی ادبی محفلوں میں کرتے ہوئے دیکھا تھا۔پچھلے دنوں جب میں اترپردیش اردواکادمی کی گولڈن جوبلی تقریب میں شرکت کے لیے لکھنؤ گیا تو وہ اس یادگار تقریب کی صدارت کررہے تھے اور انھوں نے اسی رنگ میں تقریر بھی کی۔ اس تقریب کو اردو صحافت کے دوسوسال کے عنوان سے منسوب کیا گیا تھا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس میں صحافیوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر تھی۔اسی تقریب میں پروفیسر شارب ردولوی نے میرتقی میر کے تین سو سال پورے ہونے پر اکادمی کو ایک تقریب منعقد کرنے کا مشورہ بھی دیا تھا، جو منظور کرلیا گیا تھا۔
پروفیسر شارب ردولوی یکم ستمبر 1935کو بارہ بنکی کے مردم خیزخطے ردولی کے ایک زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ابتدائی تعلیم وہیں ہو ئی۔ اس کے بعد انھوں نے لکھنؤ یونیورسٹی سے بی اے اور ایم اے کرنے کے بعد پی ایچ ڈی بھی کی۔ دوران تعلیم جن اساتذہ سے انھوں نے کسب فیض کیا، ان میں پروفیسر مسعود حسن رضوی ادیب،پروفیسر احتشام حسین، پروفیسر آل احمد سرور اور پروفیسر نورالحسن ہاشمی کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ انھوں نے ’جدید تنقید کے اصول‘ کے موضوع پر1965میں پروفیسراحتشام حسین کی نگرانی میں ڈاکٹریٹ مکمل کی۔ڈاکٹریٹ کرنے سے قبل ہی وہ دہلی کے دیال سنگھ کالج میں لیکچرر کے طورپر خدمات انجام دے رہے تھے۔جنوری 1990میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی کے شعبہ اردومیں ان کا تقرربطور ریڈر ہوا اور 1993میں وہ یہاں پروفیسر بنے اور یہیں سے2000 میں سبکدوش ہوئے۔ان کا ابتدائی ذوق شاعری تھا، لیکن ادبی حلقوں میں ان کی پہچان ایک ممتازمحقق اور نقاد کے طور پر ہوئی۔انھوں نے کوئی چھ سال ترقی اردو بیورو میں بطور پرنسپل پبلی کیشن آفیسر بھی خدمات انجام دیں۔
یہ بات کم ہی لوگوں کو معلوم ہے کہ انھوں نے لکھنؤ یونیورسٹی کے زمانہ طالب علمی کے دوران 1955میں ایک پندرہ روزہ اخبار”پاسبان طلبہ“ شائع کیا تھااور اسی برس کچھ عرصہ لکھنؤ کے روزنامہ ”اردو“ کے مدیر بھی رہے۔1955میں ہی انھوں نے معروف وممتاز صحافی حفیظ نعمانی کے ساتھ روزنامہ ”تحریک“بھی نکالا تھا۔حفیظ نعمانی اس کے مدیرتھے اور شارب ردولوی نائب مدیر۔ان کی پہلی کتاب ”مراثی انیس میں ڈرامائی عناصر“1959میں شائع ہوئی تھی۔ 1936سے1960کادرمیانی دور ترقی پسند تحریک کے عروج کا دور تھا۔اپنے علمی اور ادبی سفر کے آغاز میں ہی پروفیسر شارب ردولوی اس تحریک سے وابستہ ہوگئے تھے۔ اس دوران انھیں جن شخصیات کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا، ان میں سجاد ظہیر،پروفیسراحتشام حسین اور علی سردار جعفری کے نام قابل ذکر ہیں۔ان کی فکر اور تحریروں پر سب سے زیادہ اثر اپنے استادپروفیسر احتشام حسین کا تھا۔ پروفیسر قمر رئیس کے لفظوں میں:
”ڈاکٹر شارب ردولوی کا شمارسید احتشام حسین کے تلامذہ ارشد میں ہوتا ہے۔ انھوں نے اردو تنقید میں سائنٹفک تجزیہ اور معروضی طرزفکر کو رواج دیا، جو احتشام حسین کے تنقیدی اسلوب کا امتیازی عنصر رہا ہے۔قدیم ادب کے نمونے ہوں یا جدید یا معاصر ادب کے رجحانات وہ یکساں سہولت سے ان کا جائزہ لیتے ہیں اور اکثر صحیح نتائج تک پہنچتے ہیں۔“(’ترقی پسند ادب کے معمار‘صفحہ310)
پروفیسر شارب ردولوی نے 18/اکتوبر 2023کو لکھنؤ میں مختصر علالت کے بعد وفات پائی اور کربلاعباس باغ میں مدفون ہوئے۔ان کی وفات پر علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آتا ہے۔
جوبادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتےجاتےہیں
کہیں سے آب بقائے دوام لے ساقی!