پروفیسر شہزاد انجم یہ نہ کریں ! – شکیل رشید

گزشتہ ہفتہ اس کالم میں میری ایک تحریر دارالمصنفین اعظم گڑھ پر پر شائع ہوئی تھی ، اس تحریر پر جو سوال جواب ہوئے ، جو باتیں لوگوں نے لکھیں ، وہ زیادہ تر ’ موضوع ‘ سے ہٹ کر تھیں ۔ موضوع تھا دارالمصنفین کی خستہ حالی اور لوگ باتیں کر رہے تھے کہ علامہ شبلی نے تو کبھی اس ادارے میں بیٹھ کر کوئی کتاب نہیں لکھی ، یا یہ کہ دارالمصنفین کے بانی تو سیّد سلیمان ندوی تھے وغیرہ ۔ مجھے ان باتوں کا کوئی جواب نہیں دینا ہے ، سوائے یہ کہنے کے کہ ہم مسلمانوں کا اپنے پرکھوں کے ذریعے قائم کیے گیے اداروں کے تعلق سے رویہ انتہائی افسوس ناک اور انتہائی لاپروائی کا ہے ۔ میں یہ بات اس لیے کہہ رہا ہوں کہ جو ردعمل آئے تھے ان میں ایک ردعمل علی گڑھ کی ’ مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ ‘ کی برانچ کے انچارج صابر صاحب کا بھی تھا ، انہوں نے ’ مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ ‘ کی حالتِ زار کی جانب میری توجہ مبذول کروائی تھی ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ لوگ ان کی اپیل پر بھی کچھ کہتے ، لیکن کسی کی جانب سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ۔ صابر صاحب نے جو کچھ لکھا تھا ، آپ حضرات کے سامنے ہے : ’’ محترم شکیل رشید صاحب ! اللہ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ، آپ نے بہت بڑا کام دارالمصنفین کی حالت کو عوام کے سامنے لا کرکیا ہے ۔ اب دارالمصنفین سے محبت رکھنے والوں کو اللہ توفیق دے کہ ادارہ کی مدد فرمائیں ۔ اس وقت نوٹ بندی اور کورونا سے کافی ادارے متاثر ہیں ان میں سے ایک ادارہ ’ مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ ‘ بھی ہے ، جو ’ جامعہ ملیہ اسلامیہ ‘ کی سرد مہری کی وجہ سے Indirectly بند ہو چکا ہے ۔ شاخوں کو چھوڑ کر صدر دفتر کافی مہینوں سے بند سا ہی ہے ۔

آپ سے درخواست ہے ، اس پر بَھی کچھ لکھیں ۔ اللہ کرے آپ کی کوشش سے ادارے دوبارہ زندہ ہو جائیں ۔‘‘ کیا یہ افسوس ناک بات نہیں ہے کہ ایک ادارہ جس کی بنیاد ہمارے بزرگوں نے ڈالی تھی ، اب بے دَم ہے ! میرا اس ادارے سے ایک لمبے عرصہ سے تعلق ہے ، میں نے یہاں سے بہت اہم اور قیمتی کتابیں خریدی ہیں ، مجھے اس سے ایک قلبی لگاؤ ہے ۔ اور میرے جیسے نہ جانے کتنے ہوں گے جنہیں اس ادارے سے قلبی لگاؤ ہوگا ۔ وہ اس ادارے کو ڈوبتے ہوئے کیسے دیکھ سکتے ہیں ! ادھر ایک عرصے سے ’ جامعہ ملّیہ اسلامیہ ‘ کے کریکٹر کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ، یرقانیوں کی آنکھوں میں یہ یونیورسٹی کھٹک رہی ہے ۔ اور ’ مکتبہ جامعہ ‘ بھی ، بہت سے لوگ ہیں جو بند دیکھنا چاہتے ہیں ۔ جب پروفیسر شہزاد انجم اس ادارے کے سربراہ بنائے گیے تھے تب امید جاگی تھی ، مگر سنا ہے کہ انہوں نے استعفیٰ کے کاغذات دے دیے ہیں ، مگر اچھی بات یہ ہے کہ استعفیٰ منظور نہیں کیا گیا ہے ۔ اللہ کرے منظور نہ کیا جائے ، وہ ایک نیک انسان ہیں ، انہیں چاہیے کہ وہ اس ادارے کو مرنے نہ دیں اور لوگوں کو ، جو کئی کئی مہینوں سے تنخواہیں نہیں مل رہی ہیں ، اس پر توجہ دیں ۔ بہت غریب لوگ اس ادارے سے وابستہ ہیں ، وہ کیا کھائیں گے ، کیا پہنیں گے ؟ شہزاد انجم صاحب آپ ایسا نہ کریں ، ادارے پر توجہ دیں اور ملازمین کے حوصلے نہ ٹوٹنے دیں ۔ امید ہے کہ آپ قدم اٹھائیں گے ۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)