Home ستاروں کےدرمیاں پروفیسر مظہر آصف کی علمی وعملی قیادت: جامعہ کی تشکیل نو کا روشن باب۔ڈاکٹر قرۃالعین

پروفیسر مظہر آصف کی علمی وعملی قیادت: جامعہ کی تشکیل نو کا روشن باب۔ڈاکٹر قرۃالعین

by قندیل

وطنِ عزیز ہندوستان کی عظیم علمی دانشگاہ ، جامعہ ملیہ اسلامیہ، ایک خواب کی تعبیر ہے جس نے تاریخ میں اپنی منفرد پہچان قائم کی۔ یہ ملک کی پہلی قومی تعلیمی درس گاہ، جس نے اپنا آغاز 29 اکتوبر 1920 کو دیار سرسید کی تاریخی جامع مسجد سے کیا، آج ایک صدی سے زائد کا شاہکار سفر طے کر کے دریائے جمنا کے کنارے اوکھلا میں اپنی جڑیں مضبوط کیے کھڑا ہے۔ جامعہ کا یہ سفر محض ایک تعلیمی ادارے کی ترقی کا قصہ نہیں بلکہ ایک قوم کے بیداری و خودی کے عزم کی داستان ہے، جو خواب غفلت سے نکل کر روشن مستقبل کی راہوں پر گامزن ہوئی۔ ابتلاؤں اور آزمائشوں کے اس دور میں، جب بے یقینی اور انتشار کا راج تھا، اس نے تحریک خلافت اور تحریک ترک موالات کے پرچم بلند کیے۔ گاندھی جی اور مولانا آزاد کی سرپرستی اور شیخ الہند مولانا محمود الحسن کی دعاؤں کے فیض سے، جامعہ ملیہ اسلامیہ نے نہ صرف تعلیمی میدان میں قدم جمائے بلکہ ایک تحریک فکر اور خودی کی بنیاد بھی رکھی۔ یہ علمی آستانہ آج بھی اپنے مشن کے ساتھ ایک روشنی کا مینار ہے، جو آنے والی نسلوں کو علم و ہمت، بیداری اور اتحاد کا درس دیتا ہے۔

آج کے تیز رفتار، مادّی اور صارفیت زدہ دور میں بھی قوم و ملت میں اہل علم و دانش کی کمی محسوس نہیں ہوتی۔ زبان، ادب، تہذیب اور ثقافت کے بے شمار خزانے ایسے گراں قدر لعل و گوہر سے بھرے ہوئے ہیں جو نہ صرف ملت کے لیے باعث فخر ہیں بلکہ قومی و عالمی افق پر آفتاب و ماہتاب کی مانند روشن و درخشاں بھی ہیں۔ اگر ہم برصغیر کے لسانی، تہذیبی، مذہبی، سیاسی و ثقافتی پس منظر و پیش منظر پر گہری نظر ڈالیں، تو اہل علم کی اس وسیع و عریض کہکشاں میں ایک تابندہ اور ممتاز شخصیت نمایاں ہوتی ہے، جس کا علمی و فکری مطالعہ موجودہ فضا میں تازگی، شفافیت اور حیات بخش ہوا کے جھونکے کا باعث بنتا ہے۔ یہ شخصیت عالمی شہرت یافتہ ہمہ جہت دانشور، پروفیسر مظہر آصف ہیں، جن کی علمی وسعت، فکری گہرائی اور ہمہ گیر خدمات نے انہیں نہ صرف ملکی سطح پر عزت و احترام کی بلندیوں پر فائز کیا ہے، بلکہ احترام آدمیت اور اقدارِ انسانیت کے مضبوط نظریات کی بنیاد پر وہ ہندوستان کے ہر سماجی طبقے کے باشعور حلقوں میں بھی بے حد قدر و منزلت کے حامل ہیں۔

گزشتہ سال پروفیسر مظہر آصف کو جامعہ کے سولہویں شیخ الجامعہ کے طور پر تقرری کے شرف سے نوازا گیا۔ پروفیسر مظہر آصف تعلیمی نظم و نسق میں عملی و نظری دونوں پہلوؤں کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ یہ باعث فخر ہے کہ ان کی قیادت میں، قدیم و جدید علمی روایات کے حامل اس عظیم ادارے نے ترقی کی بلند و ارفع منزلیں طے کیں اور یونہی جامعہ کا پرچم روشن فضاؤں میں بلند و بالا رہے۔

پروفیسر مظہر آصف ایک ممتاز ماہر لسانیات اور تجربہ کار معلم ہیں، جو طویل عرصے تک سینٹر فار پرشین اینڈ سینٹرل ایشین اسٹڈیز، اسکول آف لینگویج، لٹریچر اینڈ کلچر اسٹڈیز، جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) سے وابستہ رہے۔ تدریس کے میدان میں آپ کو 27 برسوں کا وسیع تجربہ ہے، جن میں 10 سال بطور پروفیسر خدمات انجام دی ہیں۔ پروفیسر مظہر آصف کو متعدد زبانوں پر عبور حاصل ہے، جن میں اردو، فارسی ، ہندی ، انگریزی، آسامی،بھوجپوری اور بجیکا شامل ہیں۔ ان کی لسانی مہارت اور علمی تجربہ انہیں ملک کی ممتاز علمی شخصیات کی صف میں نمایاں مقام عطا کرتا ہے۔ سب سے قابل ذکر بات یہ ہے کہ پروفیسر مظہر آصف حکومت ہند کی نیشنل ایجوکیشنل پالیسی (NEP) ڈرافٹنگ کمیٹی کے رکن رہ چکے ہیں۔ اس کے علاوہ، وہ نیشنل ایجوکیشنل پالیسی کی مانیٹرنگ کمیٹی میں بھی بحیثیتِ رکن شامل رہے، جہاں انہوں نے قومی تعلیمی پالیسی کے مؤثر نفاذ اور اس کی مسلسل نگرانی میں فعال کردار ادا کیا۔

پروفیسر مظہر آصف نے اپنے طویل علمی و تحقیقی سفر کے دوران متعدد اہم کتب تصنیف کی ہیں، جو مختلف علمی، تاریخی اور لسانی موضوعات کا احاطہ کرتی ہیں۔ ان کی ایک نمایاں اور وقیع تصنیف "آسامی مسلمانوں کی تاریخ” ہے، جو چار ضخیم جلدوں پر مشتمل ہے جو 2010 میں شائع ہوئی۔ یہ کتاب برصغیر کے مشرقی حصے میں مسلم تاریخ کا ایک مستند ماخذ مانی جاتی ہے۔ پروفیسر مظہر آصف کا ایک غیر معمولی علمی کارنامہ ان کی فارسی-آسامی-انگریزی لغت ہے، جو زبان و لسانیات کے میدان میں ایک منفرد اور گراں قدر اضافہ ہے۔ یہ لغت 1200 سے زائد صفحات پر محیط ہے اور تین زبانوں کو باہم جوڑنے والی ایک علمی شاہکار کی حیثیت رکھتی ہے۔

تعلیم صرف معلومات کی ترسیل کا نام نہیں، بلکہ یہ معاشرے کو نئی سمت دینے اور بہتر شہری بنانے کا ایک با مقتصد عمل ہے۔ جب ہم بھارت کی معزز تعلیمی اداروں کا ذکر کرتے ہیں، تو جامعہ ملیہ اسلامیہ کا نام نمایاں طور پر سامنے آتا ہے۔ حالیہ دنوں میں اس ادارے نے جو کامیابیاں حاصل کی ہیں، وہ اس کی تعلیمی بلندی، تہذیبی وراثت اور ترقی پسند قیادت کی عکاس ہیں۔ جامعہ کی موجودہ ترقی میں شیخ الجامعہ پروفیسر مظہر آصف کا نام درخشاں ستارے کے مانند ان دنوں افق پر چمک رہا ہے۔ ان کی بصیرت ، دیانتداری، امانت اور انتھک محنت نے جامعہ کو نہ صرف ملک میں بلکہ عالمی سطح پر ممتاز مقام دلایا ہے۔

پروفیسر مظہر آصف علم و تدبر کی روشن علامت ، ایک جید عالم، جدید طرزِ فکر کے حامل مدبّر منتظم اور زبان و ثقافت کے گہرے شناسا ہیں۔ ان کا تعلیمی وژن محض نصابی کامیابیوں تک محدود نہیں، بلکہ وہ طلباء کی ہمہ جہت شخصیت سازی اور فکری ارتقاء کے بھی بھرپور حامی ہیں۔ ان کی سرپرستی میں جامعہ نے NIRF رینکنگ میں نمایاں کامیابی حاصل کی، جو ان کی بصیرت افروز حکمت عملی اور انتھک محنت کا مظہر ہے۔ تحقیق، بین الاقوامی اشتراک عمل، اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ تعلیم کی جانب بڑھتے ہوئے قدم جامعہ کی ترقی کی روشن دلیل ہیں۔

پروفیسر مظہر آصف ایک ممتاز ماہر لسنیات اور زبان و ادب کے رمز شناس ہیں۔ فارسی اور اردو زبانوں سے ان کی قلبی وابستگی اور تہذیبی شعور نے جامعہ کے ادبی و ثقافتی ماحول کو ایک نئی روح اور تازگی عطا کی ہے۔ ان کی سرپرستی میں طلبہ کے ادبی و ثقافتی پروگراموں اور سالانہ تقریبات کو نہ صرف فروغ ملا بلکہ ان سرگرمیوں نے تعلیمی فضاء میں زندگی، رنگ اور تحرک کی ایسی کیفیت پیدا کی جو کسی بھی دانش گاہ کے لیے باعث افتخار ہے۔

پروفیسر مظہر آصف کی مدبرانہ قیادت میں جامعہ نہ صرف ایک شفاف، محفوظ اور تعلیمی فضا میں ڈھل چکی ہے بلکہ یہ ادارہ اب علمی وقار اور تہذیبی بالیدگی کا آئینہ دار بن چکا ہے۔ ان کے حسن انتظام اور خلوص نیت نے اس ادارہ کو ایسا مثالی ماحول فراہم کیا ہے، جہاں اساتذہ، طلباء اور عملہ ایک دوسرے کے ساتھ دوستی، مشاورت اور باہمی احترام کے مضبوط رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ یہی وہ اخلاص، بصیرت اور انتھک محنت ہے جس نے جامعہ کو ایک روشن مثال اور علمی و اخلاقی مرکز میں تبدیل کر دیا ہے، جہاں علم صرف پڑھایا نہیں جاتا، بلکہ جیا جاتا ہے۔ بلا شبہہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ پروفیسر مظہر آصف کی سرپرستی جامعہ کی تشکیل نو کا روشن باب ہے۔

پروفیسر مظہر آصف نہ صرف علمی دنیا کے روشن مینار ہیں، بلکہ جدید نظم و نسق کے ایک کامیاب معمار بھی ہیں۔ ان کی بصیرت افروز قیادت میں جامعہ نے انتظامی سطح پر جو اصلاحات دیکھی ہیں، وہ یقیناً قابل تحسین اور تقلید کے لائق ہیں۔ انہوں نے ای گورننس، شفافیت، وقت کی پابندی اور جواب دہی جیسے اصولوں کو ادارے کے انتظامی ڈھانچے میں اس خوش اسلوبی سے سمو دیا کہ ہر سطح پر کارکردگی میں بہتری اور دیانت داری کا فروغ نظر آنے لگا۔ طلبہ کے وظائف، کلاسیں اور مالی امور میں ڈیجیٹل نظام کی شمولیت نے جہاں کارگزاری کو سہل بنایا، وہیں بدعنوانی کے امکانات کو بھی بڑی حد تک ختم کر دیا۔ ان کی سب سے نمایاں اور دلنشین خوبی یہ ہے کہ وہ ہر طبقے سے برادرانہ رابطے میں رہتے ہیں۔ چاہے اساتذہ ہوں، غیر تدریسی عملہ یا طلبہ،ان کے لیے ان کے دروازے ہمیشہ کھلے رہتے ہیں۔ ان کا رویّہ مشفق، طرزِ گفتگو حوصلہ افزا اور اندازِ قیادت ایسا ہے جو دلوں کو جیت لیتا ہے۔

آج جامعہ صرف ایک ہندوستانی تعلیمی ادارہ نہیں، بلکہ عالمی تعلیمی منظرنامے پر ایک روشن، معتبر اور باوقار حوالہ بن چکی ہے۔ یہ ادارہ نہ صرف علم و تحقیق کی آماجگاہ ہے، بلکہ سماجی خدمت، بین الاقوامی تعاون، تہذیبی مکالمے اور ثقافتی شعور کا بھی ایک مثالی پیکر بن کر ابھرا ہے۔ جامعہ کی اس ہمہ جہت ترقی اور شناخت کے پیچھے جس قیادت کا گہرا اثر کارفرما ہے، وہ پروفیسر مظہر آصف جیسے دوراندیش، مخلص اور فکری رہنماؤں کی ہے۔ اانہوں نے اپنی مدبرانہ بصیرت، علمی ژرف نگاہی اور خلوص پر مبنی قیادت سے جامعہ کو محض ایک ادارہ نہیں، بلکہ ایک نظریہ، تحریک اور تہذیبی اثاثہ بنا دیا ہے۔ ان کی کاوشوں کے نتیجے میں جامعہ آج نہ صرف تعلیمی کامیابیوں کا سنگ میل ہے بلکہ بین الاقوامی سطح پر مکالمے، ہم آہنگی، اور پرامن بقائے باہمی کی ترجمان بھی ہے۔ یہ ادارہ آج زبان، مذہب، رنگ و نسل کے امتیازات سے بالاتر ہو کر انسانیت کو جوڑنے والا ایک پل بن چکا ہے۔ ایک ایسا چراغ جو علم کی روشنی، امن کا پیغام اور دلوں کو قریب لانے والی محبت کی گرمی بانٹ رہا ہے۔ یقیناً، جامعہ کی یہ تابانی آئندہ نسلوں کے لیے ایک نقش دوام بن کر باقی رہے گی، اور اس کے قیام و ارتقاء کی داستان علم و تہذیب کی تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائے گی۔

پروفیسر مظہر آصف کی دور اندیش قیادت اور مخلصانہ کاوشوں کے باعث جامعہ نے تحقیقی فعالیت، علمی اختراع اور تدریسی ارتقاء کے میدان میں ایک نمایاں اور قابل رشک مقام حاصل کر لیا ہے۔ ان کی زیر نگرانی ادارے میں بین الاقوامی معیار پر مبنی تحقیقی کلچر پروان چڑھا، جس نے علمی فضاء کو نئی جہات عطا کیں۔ جامعہ نے حالیہ دنوں میں کئی عالمی جامعات و تحقیقی اداروں کے ساتھ باہمی تعاون کے معاہدے کیے، جن کے ذریعے طلبہ و اساتذہ کو عالمی پلیٹ فارم پر تحقیق، تدریس اور تربیت کے مواقع میسر ہوئے۔ ان معاہدات نے نہ صرف تعلیمی افق کو وسعت بخشی بلکہ جامعہ کو ایک عالمی تعلیمی نیٹ ورک کا فعال رکن بھی بنا دیا۔ جامعہ کے باصلاحیت اساتذہ و طلباء آج قومی و بین الاقوامی مقابلوں، تحقیقی کانفرنسوں اور علمی مباحثوں میں اپنی غیر معمولی کارکردگی کے ذریعے ادارے کا وقار بلند کر رہے ہیں۔ یہ کامیابیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ جامعہ، اب صرف ایک ادارہ نہیں بلکہ علم و تحقیق کا متحرک قافلہ بن چکی ہے، جو جدید دنیا کے تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر مستقبل کی قیادت تیار کر رہی ہے۔

You may also like