اسلام آباد(پ۔ر): اکادمی ادبیات پاکستان کے چیئرمین ڈاکٹر یوسف خشک نےمعروف ادیب، محقق، نقاد اور استاد ناصر محمود کمال(ابن کنول) کے انتقال پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ پروفیسر ابن کنول نےبیش بہا علمی و ادبی سرمایہ چھوڑا ہے ، اُن کی ادبی خدمات ناقابل ِ فرامو ش ہیں۔ پروفیسر ابن کنول نے 978 1میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم۔ اے کیا۔ یہا ں کی علمی فضا سے بھر پور استفادہ کیا۔ایم اے مکمل کرنے کے بعدآپ نے دہلی یونی ورسٹی کا رخ کیا۔ اس کے بعد ابن کنول نے دہلی یونی ورسٹی سے اپنا رشتہ اس طرح قائم کیاجو تا دم مرگ قائم رہا۔ پی ایچ ڈی میں آپ نے ڈاکٹر تنویر احمد علوی کی نگرانی میں ’بوستان خیال کا تہذیبی و لسانی مطالعہ ‘ کے عنوان سے تحقیقی کام کیا۔ آپ کی یہ کاوش کتابی شکل میں بھی شائع ہوئی۔ دہلی میں آپ کو بانی شعبۂ اردو خواجہ احمد فاروقی اور مشہور ترقی پسند نقاد قمر رئیس سے بھی شرف تلمذ حاصل کرنے کا موقع ملا۔ آپ’’انجمن اردو ئے معلی‘‘کے سکریٹری رہے۔ ابتدا میں ناصر کمال کے نام سے افسانے لکھتے تھے۔ لیکن 1975 سے ابن کنول کے نام سے افسانے لکھنے لگے۔ باقاعدہ افسانہ لکھنے کا آغاز 1972 سے ہوا۔ آپ کا پہلا مطبوعہ افسانہ ’اپنے ملے اجنبی کی طرح ‘ ہے جو 1974میں آفتاب سحر (سکندرآباد) نامی رسالے میں شائع ہوا۔ پی ایچ ڈی مکمل کرنے کے بعد 1985 میں سی ایس آئی آر کی طرف سے شعبۂ اردو، دہلی یونی ورسٹی میں ریسرچ سائنٹسٹ کے طور پرآپ نے اپنی ملازمت شروع کی۔1990تک شعبۂ اردو ہی میں ریسرچ ایسوسی ایٹ کی حیثیت سے کام کیا۔ اسی دوران میں جنوری 1990میں باقاعدہ مستقل لکچرر کے عہدے پر آپ کی تقرری ہوئی۔2005سے 2008تک شعبۂ اردو، دہلی یونی ورسٹی کے صدر بھی رہے۔وہ ایک ملنسار ہنس مکھ انسان تھے۔ افسانہ، تنقید اور تحقیق ہر میدان میںآپ نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔ ان کے افسانے اور علمی و ادبی مضامین ملک وبیرون ملک کے رسالوں میں شائع ہو تے رہے ہیں۔ قومی و بین الاقوامی سمیناروں میں شرکت کی ۔ان کی تصانیف میںتیسری دنیا کے لوگ (افسانے ) 19842.، بند راستے (افسانے ) 2000۔ ہندوستانی تہذیب بوستان خیال کے تناظر میں 19883.(’بوستال خیال ایک مطالعہ‘ کے نام سے 2005 میں دوبارہ شائع ہوئی)۔ ریاض دلربا(اردو کا پہلا ناول) (تحقیق) 19904.، تنقید و تحسین(تنقیدی مضامین کا مجموعہ) 2006 .، نظیر اکبرآبادی کی شاعری 2008۔ مضراب (کنول ڈبائیوی کا کلیات معہ مقدمہ)2010۔ اردو افسانہ (افسانوی تنقید) 2011ودیگر مطبوعات شامل ہیں۔ ڈاکٹر یوسف خشک نے مرحوم کے لیے دعائے مغفرت اور لواحقین کے لیے صبر جمیل کی دعا کی۔
پروفیسر ابن کنول نےبیش بہا علمی و ادبی سرمایہ چھوڑا ہے ، اُن کی ادبی خدمات ناقابلِ فرامو ش ہیں: ڈاکٹر یوسف خشک
previous post