Home ستاروں کےدرمیاں ” پروفیسر "حقانی القاسمی -معصوم مرادآبادی

” پروفیسر "حقانی القاسمی -معصوم مرادآبادی

by قندیل

حال ہی میں حقانی القاسمی کے ایک پرانے ساتھی نے یہ چشم کشا انکشاف کیا ہے کہ وہ نہ صرف ’پروفیسر‘ہیں بلکہ بڑے ’گیانی پروفیسر‘ ہیں۔ہم اب تک انھیں ایک پڑھا لکھا، عالم فاضل اور باشعور آدمی سمجھتے تھے، لیکن ان کے ’پروفیسر‘ ہونے کی بات سامنے آنے کے بعد ہمیں اپنی سوچ پر نظرثانی کی ضرورت پیش آگئی ہے۔کیونکہ پروفیسروں کا بڑا عبرت خیزنقشہ ممتاز مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی نے اپنے ایک مضمون میں کھینچا ہے۔ وہ لکھتے ہیں ”پروفیسر عبدالقدوس کو ریٹائر ہوئے زمانہ ہوگیا تھا مگر وہ اب بھی پروفیسر ہی کہلاتے تھے۔ آدمی زندگی میں ایک بار پروفیسر ہوجائے تو ساری عمر پروفیسر ہی کہلاتا ہے، چاہے وہ ریٹائرمنٹ کے بعد عقل وشعور کی باتیں ہی کیوں نہ کرنے لگے ۔“

ہمیں تعجب اس بات پر ہے کہ حقانی نے اب تک پروفیسر کی ڈگری کہاں چھپاکر رکھی ہوئی تھی کہ اتنے دنوں بعد اس کا انکشاف ہوا ہے۔اب سے کوئی پچیس برس پہلے جب وہ دہلی آئے تھے تو ان کے پاس ایک لحاف تھا، کوئی ڈگری نہیں تھی۔ حالانکہ انھوں نے دارالعلوم دیوبند سے فراغت کے بعد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے ایم اے اور ایم فل کیا تھا۔ اس دوران انھوں نے ہاسٹل کی زندگی کے دوران اسی لحاف کو بے دریغ استعمال کیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کثرت استعمال سے اپنی شناخت کھوچکا تھا۔

ہم نے سب سے پہلے انھیں ہفتہ وار ’اخبارنو‘ کے دفتر میں دیکھا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ’اخبارنو‘ کے مدیر اعلیٰ م۔ افضل راجیہ سبھا کے رکن تھے اور ساؤتھ ایونیو میں ان کی سرکاری رہائش گاہ کے بالائی حصے میں ’اخبارنو‘ کا دفتر تھا جس کے جملہ انتظامات اس کے مینیجر مودود صدیقی کے ہاتھوں میں تھے۔ ہمارا اکثر وہاں آنا جانا لگا رہتا تھا۔ ایک دن یوں ہوا کہ مودود صاحب نے ہماری ملاقات ایک نوجوان سے کروائی، جس کا نام حقانی القاسمی تھا۔اس کے ساتھ ہی انھوں نے کہا کہ پیچھے کے کمرے میں ان کے لحاف کا دیدار ضرور کرلیں۔ واقعی جب ہم نے ان کے لحاف پر نظر ڈالی تو ہمیں یقین ہوگیا کہ ہاسٹل کی زندگی بھی انسان کو کیا سے کیا بنادیتی ہے۔سردیوں کے موسم میں یہ لحاف حقانی کے اوپر ہوتا تھا اور گرمی کے دنوں میں وہ لحاف کے اوپر۔ گرمیوں میں وہ اپنی کل کائنات اسی لحاف کے نیچے چھپاکر رکھتے تھے۔

اب ہمیں یہ تو معلوم نہیں کہ اس لحاف سے حقانی کا رشتہ کتنا پرانا تھا۔ ان کے دارالعلوم دیوبند کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ وہ جب ارریہ سے دیوبند آئے تھے تو یہ لحاف بھی ان کا ہم سفر تھا اور جب وہ دیوبند سے علی گڑھ گئے تب بھی لوگوں نے انھیں اس لحاف کے ساتھ دیکھا۔حقانی اب بھی جب ہمیں ملتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ وہ اسی لحاف میں بیٹھے ہوئے ہیں۔

اس حقیقت کا اعتراف کرنے میں کوئی تکلف نہیں کرنا چاہئے کہ وہ ایک ذی علم انسان ہیں اور ان کے ہم عصروں میں کوئی بھی ان کے پائے کا نہیں ہے۔ مگر ہمیں ان سے یہ برادرانہ شکایت رہی ہے کہ انھوں نے اپنے علم کا استعمال اپنی شخصیت کی تعمیر میں نہیں کیا۔ وہ اپنی صحت کے معاملے میں بھی خاصے لاپروا ثابت ہوئے ہیں۔ انھیں برسوں سے شوگر کا مرض ہے اور اس کا واحد علاج ان کے نزدیک پھیکی چائے پینا ہے۔ میں جب بھی ان سے پوچھتا ہوں کہ وہ شوگر کا کیا علاج کررہے ہیں تو وہ اپنی اسی لاپروائی سے کہتے ہیں کچھ نہیں دیسی دوا کھارہا ہوں۔ انھوں نے آج تک اس مرض کا کوئی باقاعدہ علاج نہیں کیا، جس کی وجہ سے ان کے اعصاب کمزور ہوگئے ہیں اور وہ دیرتک سونے کے عادی ہوگئے ہیں۔پچھلے دنوں ممبئی کے سفر کے دوران شوگر نے ان پر جو قہر ڈھایا، اس نے انھیں خاصا پریشان بھی کیا۔اب وہ انسولین پر ہیں۔

حقانی القاسمی جب دہلی آئے تھے تو ان کی آنکھوں میں خوابوں کا ایک سمندر تھا، لیکن مختلف اور متضاد قسم کے لوگوں سے ان کا ایسا واسطہ پڑا کہ وہ ان خوابوں کو بھول کر زندگی بسر کرنے کی جستجو میں لگ گئے۔انھوں نے دہلی میں اپنی عملی زندگی کا آغاز ایک ایسے اخبار سے کیا تھا جو خود کم چلتا تھا مگر اس کا ایڈیٹر اس سے زیادہ چلتا تھا۔اس اخبار کا دفتر اندرلوک علاقہ میں تھا، جہاں مودود صدیقی بھی رہا کرتے تھے، وہی حقانی کا ہاتھ پکڑ کر ’اخبارنو‘ کے دفتر لے آئے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب انھوں نے اپنی معرکۃ الآراء کتاب ”بدن کی جمالیات“ نہیں لکھی تھی۔ سناہے اس کتاب کو پڑھ کر ان کے گھر والوں نے ان سے قطع تعلق کرلیا تھا۔ دروغ برگردن راوی۔

حقانی کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ زندگی میں جن چیزوں سے بچنے کی کوشش کرتے رہے ہیں،و ہی چیزیں ان کا تعاقب کرتی رہیں۔ مثال کے طور پر وہ صحافت کو اپنے لیے شجر ممنوعہ سمجھتے تھے، لیکن یہ ان کے وجود سے اس لحاف کی طرح ہی چپکی ہوئی ہے۔’اخبارنو‘ چھوڑنے کے بعد وہ ’نئی دنیا‘ میں گئے اور پھر صلاح الدین پرویز کے رسالہ ’استعارہ‘ سے وابستہ ہوگئے۔اس وابستگی کے دوران وہ صلاح الدین پرویز کے رنگ میں ایسے رنگے کہ انھیں پہچاننا مشکل ہوگیا۔صلاح الدین پرویز جنھیں حقانی’صلاح بھائی‘ کہہ کر پکارتے تھے، ان کے وجود کا حصہ بن گئے اور یہ رفاقت ان کی موت تک جاری رہی۔ اس کے بعد حقانی روزنامہ ’راشٹریہ سہارا‘ سے وابستہ ہوئے اور وہاں رہ کر وہ سب کچھ بھی بھول گئے جو انھوں نے دیوبند اور علی گڑھ میں انگیز کیا تھا۔ سچ پوچھئے تو انھیں دہلی کبھی راس نہیں آئی۔یہاں آکر ان کی نیندیں ہی نہیں خواب بھی چکنا چور ہوگئے۔ بقول خود:

”علی گڑھ کی شام مصر اور شب شیراز سے رشتہ ٹوٹا اور دلّی کی گلیوں اور کوچوں سے رشتہ جڑا تو پہلے میری شامیں گم ہوتی گئیں اور رفتہ رفتہ راتیں بھی غائب ہونے لگیں۔ نیند اور خواب کے رشتے بھی ٹوٹنے لگے۔ میرے پاس ’لاتقنطو‘کے سوا کوئی سہارا نہیں تھا، سو بسیار تگ ودو اور جدوجہد کے بعد ایک راہ نکلی تو وہ بھی قعر مذلت تک پہنچانے والی تھی۔ جو سپنے لے کر میں دلّی آیا تھا، وہ سب ٹوٹنے لگے اور میرے ان سپنوں کی شکستگی میں کسی اور کا نہیں اپنا ہی قصور تھا۔’باغ بہشت‘ سے نکلنے کا جذباتی فیصلہ میرا اپنا ہی تھا۔ میں نے صحافت سے وابستگی کا جو نہایت سفیہانہ اور ابلہانہ فیصلہ لیا تھا، اس کی سزا تو مجھے بھگتنی ہی تھی۔“

یہ باتیں حقانی نے اپنے ایک مضمون میں ’نئی دنیا‘ کی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے لکھی ہیں اور اس بات کا بھی اعتراف کیا ہے کہ انھیں اخبارات میں کام کرتے ہوئے ایک وحشت کا احساس ہوا ہے اور یہ احساس اس وقت کم ہوا جب وہ ’استعارہ‘ سے وابستہ ہوئے۔ یہاں ان کے سارے زخم رفتہ رفتہ مرہم میں بدلنے لگے۔حقانی نے یہ بھی انکشاف کیا ہے کہ ”جب میں نے صحافت سے وابستگی اختیار کی تھی تو اس وقت زیادہ تر لوگ کمالِ صحافت کے قصیدے لکھتے تھے اور جب میں نے صحافت سے علیحدگی اختیار کی تو اس وقت لوگ زوال صحافت کا مرثیہ لکھ رہے تھے۔“

یعنی حقانی نے اس بات کا برملا اظہار کیا ہے کہ صحافت سے ان کی علیحدگی کے بعد اردو صحافت زوال پذیر ہوگئی ہے۔ حقانی لاکھ اس بات کا دعویٰ کریں کہ وہ صحافت سے علیحدہ ہوگئے میں مگر حقیت یہ ہے کہ صحافت آج بھی ان کے پاؤں کی زنجیر بنی ہوئی ہے۔ فرق یہ ہے کہ پہلے وہ اخباری صحافت میں تھے اور اب ادبی صحافت میں ہیں۔ ’اردو دنیا‘ کے مشیر کے طور ان کی مشیرانہ صلاحیتوں کا اعتراف نہ کرنا ان کے ساتھ ناانصافی ہوگی۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حقانی اس وقت علمی اور ادبی دنیا میں ایک معتبر نقاد، محقق اور مفکر ہیں۔ اس کا صحیح اندازہ اس وقت ہوتا ہے جب وہ کسی ادبی تقریب یا سیمینار کی زینت بنتے ہیں۔ وہاں ہمیں یہ دیکھ کر ان پر رشک آتا ہے کہ خواتین انھیں چاروں طرف سے گھیرے رہتی ہیں۔ کاش ہم بھی حقانی کی طرح اتنے ہی خوبصورت اور دل نشین ہوتے۔

You may also like