آزادہندوستان کی تاریخ میں جب بھی فارسی زبان وادب کا ذکرہوگا تو وہ پروفیسر چندر شیکھرکے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوگا۔انہوں نے اپنی پوری زندگی فارسی زبان وادب کے فروغ کیلئے وقف کردی ہے۔ایک عرصہ تک وہ دہلی یونیورسٹی کے شعبہ فارسی کے صدر بھی رہے۔انہیں خطوط اور مخطوطہ شناسی میں ید طولی حاصل ہے۔آج کل وہ ازبکستان کی راجدھانی تاشقندمیں ہندوستانی سفارتخانہ کے تحت لال بہادر شاستری سینٹر فار انڈین کلچر کے ڈائریکٹر ہیں۔ان دنوں وہ ہندوستان آئے ہوئے ہیں۔نمائندۂ انقلاب ڈاکٹر جسیم الدین نے ان سے فارسی زبان وادب اور دوسرے مختلف اہم موضوعات پر گفتگو کی ہے۔
س: اپنی ابتدائی تعلیمی زندگی کے بارے میں کچھ بتائیں؟
ج: میری تعلیمی زندگی کا آغازمہندر گڑھ سے ہواجوکہ صوبہ ہریانہ سے متصل ہے،یہ صوفیا کی سرزمین نارنول سے ملتا ہوا ضلع ہے،کسی زمانے میں جھجرکے نواب کےتحت یہ علاقہ آتاتھا،یہ وہ تاریخی علاقہ ہے، جہاں آج بھی لودھی بادشاہوںکے مقبرے موجود ہیں،میرے والد دیوان تصوران دنوں حکومت پنجاب کی طرف سے یہاں مشغول کار تھے، بعدازاں دہلی کے اخباراولاً ’تیج‘، ’ملاپ‘، ’پرتاب‘ اوربعد میں قومی آواز میں نیوز اڈیٹر رہے، انھی کی وجہ سے گرگاؤں میں میراقیام رہا، میری کچھ تعلیم میوات کے علاقہ ہتھین میں ہوئی ، نوح کالج میوات کے پرنسپل ڈاکٹرعبد الملک میرے رہنماؤں میں تھے،میں نےآٹھویں کلاس سے اردو پڑھنا شروع کی، میرے والد اردوکے شاعر ،ادیب اور جرنلسٹ تھے، ان کی صحافتی زندگی کا آغاز اول لاہور،پھر جالندھر سے نکلنے والے اردو اخبار’ویر بھارت‘ سے شروع ہوا ،جس میں اس زمانے میں سردار پرتاب سنگھ کیرون، جو بعد میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنےاور گرودیال سنگھ ڈھلون جو دوبار حکومت ہند کے لوک سبھا کے اسپیکر رہے ، ان دونوں کے ساتھ’ویر بھارت‘ میں کام کیا ۔
س: دہلی یونیورسٹی میں آپ کا زمانہ ٔ طالب علمی کیسا رہا؟
ج: جیسا کہ میں نے عرض کیاکہ آٹھویں کلاس سے میں نےاردو پڑھی، چوں کہ ہریانہ بورڈ میں فارسی نہیں تھی،اس لیے مجھے غیر رسمی طور پرفارسی پڑھنا پڑا، لیکن ۱۹۷۵ میں دہلی کالج، جو بعد میں ذاکر حسین کالج اور اب ذاکر حسین دہلی کالج ہے، یہاں سے بی اے پاس میں فارسی، اردو، تاریخ اور انگریزی کےمضامین کے ساتھ گریجویشن مکمل کیا، گریجویشن کے آخری سال میں بنیاد فرہنگ ایران کی جانب سے تہران یونیورسٹی میں ایک شارٹ ٹرم کورس ماڈرن پرشین کے لیے اسکالر شپ کے ساتھ عازم ہوا، ارادہ تھاکہ آگے کی پڑھائی وہیں ہو ،لیکن انقلاب اسلامی کی وجہ سے تمام یونیورسٹیاں بند ہوگئیں تو ہندوستان واپس آگیا اور دہلی یونیورسٹی سے ۱۹۷۸ میں ایم اے فارسی کیا، ۱۹۸۱ تا ۱۹۸۲ ایم فل کیا، میرے اساتذہ میں پروفیسر سید امیر حسین عابدی، پروفیسر نورا لحسن انصاری، پروفیسر مقبول احمد، پروفیسر اسلم احمد خان ،پروفیسر شریف حسین قاسمی، نرگس جہاں اور غیر رسمی طور پر ڈاکٹر بھگت سورو، اورعربی کے استاذ ڈاکٹرشیو رائے چودھری، پروفیسرنثار ا حمد فاروقی میرے رہنماؤ ںمیں شامل ہیں، اردو میں نے جن نامور اساتذہ سے پڑھی ان میں پروفیسر تنویر احمد علوی، ڈاکٹر جاوید وشسٹ، پروفیسر نیاز احمد اور ڈاکٹر عبد العزیزشامل ہیں۔
س: دہلی یونیورسٹی کے شعبۂ فارسی میں تدریسی زندگی کیسی رہی؟اور آپ نے بحیثیت صدر شعبہ کیا کیا کارنامے انجام دیے؟
ج:ایم فل مکمل ہونے کے بعد ۱۶؍ ستمبر۸۲ ۱۹میںمیرا تقرر شعبۂ فارسی میں اساتذہ ٔ کرام کی نظر عنایت کی وجہ سے ہوا، خاص طورپر پروفیسر نور الحسن انصاری صاحب ، جنھوں نے تقر ر کے بعد مجھے صرف ایک نصیحت کی کہ صرف پڑھنا پڑھانااپنی زندگی کا پہلا دامن بنالو اور یہ نصیحت مجھے ہمیشہ نہ صرف یاد رہتی ہے ، بلکہ میرے لوح دل پر یہ ہر لمحہ ساتھ رہتی ہے۔اپنے بزرگ اساتذہ کو صدر شعبہ کے طور پر کام کرتے دیکھا تھا، خاص طور پر پروفیسرامیرحسین عابدی صاحب ، اور انصاری صاحب ،جن کا اہم مقصد تھا کہ شعبۂ فارسی کا عالمی طور پر نام ہو، ہم کار اور شاگرد سب ساتھ ترقی کریں،تحقیقی کام انجام دیں اور ایسوسی ایشن کے ساتھ مل کر شعبے میں لوجسٹک اور انفراسٹرکچر مثالی ہو، اسی مقصد کے تحت یہ خاکسار جب پہلی بار صدر شعبہ بنا، اساتذہ کی مدد سے یوجی سی (یونیورسٹی گرانٹ کمیشن)سے ڈی آر ایس پروگرام حاصل کیا، جس کے تحت بین الاقوامی علمی مجالس اور ان میں پڑھے جانے والے علمی وتحقیقی مقالات کے مجموعے شائع کیے، ڈی آر ایس کا کوآرڈینیٹر ۲۰۱۸ تک مستقل رہا، اس دوران شعبہ میں لینگویج لیب کی فراہمی، بیرون ممالک کےطلبہ کے لیے داخلے کی راہ ہموار کی، نیشنل مشن فار مینواسکرپٹ (این ایم ایم)وزارت ثقافت حکومت ہندکے اشتراک سے بنیادی اور اعلیٰ سطح پرخط اورمخطوطہ شناسی کے لیے ایک ایک ڈیڑھ ماہ کے ورکشاپ کرائے ،جو نہ صرف فارسی ، بلکہ اردو، عربی، تاریخ اور لائبریری سائنس کے ریسرچ اسکالرس کے لیے بھی مفید ثابت ہوئے۔شعبۂ فارسی کے مجلہ تحقیقات کے خاص شمارے اور پی ایچ ڈی کے متعدد مقالے شائع کیے۔
س: لال بہادر شاستری سینٹر فار انڈین کلچر تاشقند ،ازبکستان سفار خانہ حکومت ہند کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے آپ نے انڈین کلچر کے ساتھ زبان فارسی کےفروغ کے لیے کیا خدمات انجام دیں؟
ج: تاشقند میں ایران ایمبیسی ہے، لیکن حال ہی میںفرہنگستان زبان وادبیات فارسی کے سکریٹری جنرل پروفیسر محمدرضا نصیری دو ہفتے کے لیے جب تاشقند آئے ، تو ان کا میزبان میں تھا،اس دوران ازبکستان کی یونیورسٹیوں میں فارسی کا شعبہ ، تاشقندیونیورسٹی اور سمرقند اسٹیٹ یونیورسٹی میں ان کے متعددلیکچرس کا اہتمام خاکسار کی جانب سے کیا گیا، علاوہ ازیں میری بدولت تقریباً تین ہزار کتابیں فرہنگستان زبان وادبیات فارسی کی جانب سے ان یونیورسٹیوں کواور البیرونی انسٹی ٹیوٹ برائے شرق شناسی کو بطور ہدیہ پیش کی گئیں، ازبکستان کے متعدد شہروں کے کئی تعلیمی اداروں میں فارسی، اردو اور ہندی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ وہاں کے لوگ نہ صرف ہندوستان کی زبانوں سے دلچسپی رکھتے ہیں بلکہ یہاں کی تہذیب کو بھی پسند کرتے ہیں۔ ہندوستان اور ازبکستان کی تہذیب میں بہت کچھ یکسانیت ہے۔ مجھے تاشقند میں اجنبیت کا احساس نہیں ہوتا،لوگ مہمان نوازاورمخلص ہیں، بہت جلد سمرقند میں ہندوستانی مطالعات کا ایک مرکز شروع ہونے والا ہے، جہاں اردو،فارسی اورہندی زبانوں کی تدریس کا بھی اہتمام ہوگا۔میں نے حال ہی میں انتخاب غزلیات غالب اردو،ہندی اور ازبک میں تیار کرکے شائع کرایا، اس کی اشاعت وزارت امور خارجہ حکومت ہند کے مالی تعاون سے ہوئی ہے۔
س: آپ نے مغل بادشاہوں کے فرامین جوکہ فارسی زبان میں ہیں، انھیں پڑھا ہوگا، یہ بتائیں کہ مغل بادشاہوں کا کوئی ایسا فرمان ہے ،جس سے مختلف طبقات یا غیر مسلموں پران کے ظلم وجبر کا پتہ چلتا ہو؟
ج: میں نے اس طرح کا کوئی فرمان نہیں پڑھا اور نہ میرا اس طرح کے سیاسی موضوع سےکوئی تعلق ہے۔
س: ہند۔ازبکستان میں سماجی وتہذیبی مماثلت کیا ہے؟اور دونوں ممالک کے دوطرفہ تعلیم وثقافتی تعلقات کے استحکام کے لیے مستقبل کے کیاعزائم ہیں؟
ج: ہندوستان اور ازبکستان کے تہذیبی اور لسانی رشتے بہت قدیم ہیں اور مستقبل میں ان کے اور مضبوط ہونے کی امید ہے،میری کوشش ہے کہ ہندوستان سے اساتذہ اورطلبہوہاں جائیں اوروہاں کے اساتذہ اورطلبہ ہندوستان آئیں۔وسط ایشیائی ممالک با لخصوص ازبکستان کی تہذیب و ثقافت،عادت واطوار وغیرہ ہندوستان کی تہذیب و ثقافت اور عادت و اطوار میں ایک حد تک یکسانیت پائی جاتی ہے اور یہی وہ چیزیں ہیں جو دونوں ملکوں کو ایک دوسرے سے قریب تو کرتی ہی ہیں اور ساتھ ہی ایک دوسرے کو سمجھنے میں مدد گار بھی ثابت ہوتی ہیں۔ اس کا اثر دونوں ملکوں کے درمیان بخوبی دیکھنے کو ملتا ہے اور آئندہ بھی اس کی مثالیں ملتی رہیں گی۔ انیسویں صدی کے اواخر اور بیسویں صدی کے شروعاتی دور میں ہندوستانیوں کی ایک بڑی تعداد وسط ایشیائی ممالک میں سکونت پذیر رہی ہے۔ایک اندازے کے مطابق سات سے آٹھ ہزار کے درمیان ہندوستانی وہاں آباد تھے،ہندوستان اور ازبکستان کے بیچ تہذیبی اور ثقافتی روایت صدیوں پرانی ہے۔ صدیاں گزرنے کے بعد بھی اس رشتے کا رنگ مدہم نہیں ہوا۔مغل فرمانروا اپنی سرحدوں کو مسلسل وسعت دینے کے ساتھ ساتھ اپنے عہد کے علوم و فنون کی ترقی سے کبھی غافل نہیں رہے۔ انہوں نے جہاں دنیا بھر کے علماء و دانشوروں سے استفادہ کیا وہیں وسط ایشیا کے علما و دانشوروں سے چشم پوشی نہیں کی،بلکہ ان کے علم سے بھی فائدہ اٹھایا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ان حکمرانوں کا نسبی تعلق بھی انہیں خطوں سے تھا۔
۱۹۱۷ کے بعد پورے مرکزی ایشیا میں روسیوں نےوہاں کی ترکی زبان اور فارسی ثقافت کو بری طرح سے ختم کرکے روسی زبان کا نفاذ کیا، خط بدل دیا گیاحتیٰ کہ اہل اسلام کے ناموں کے اخیر میں بھی روسی لفظ جوڑدیے ، مراد یہ کہ ثقافت جس کا اہم ذریعہ ابلاغ زبان ہوتی ہے، وہ سب سے پہلے ان حکومتوں کی زد میں آئی اور صدیوں سے چلی آرہی ہندوستان اور مرکزی ایشیا کی ثقافت ایک ہی جھٹکے میں توڑ دی گئی۔
۱۹۹۱ میں روس سے آزاد ہوئے ممالک اپنی ثقافتی تاریخ کی بازیافت میں پھر بیدار ہوئے آج ان کو اپنی تاریخ جاننے کےلیے ہندوستان کےمحققین کی ضرورت پڑتی ہے۔ہم نے اپنے شاگردشعبۂ فارسی کے استاذ ڈاکٹر علی اکبر شاہ کے ساتھ مل کر دہلی، آگرہ، فتح پور سیکڑی کے کتبات جن کو اہل ازبکستان اپنی میراث سمجھتے ہیں ،یکجا کرکے ازبکی اور روسی زبان میں پوری تفصیل سے شائع کیا گیا۔
س: فارسی ادبیات کی موجودہ صورتحال کیاہے؟نظم ونثر کے نئے رجحانات، عالمی احوال کے تئیں فارسی تخلیق کاروں کا نقطۂ نظر کیاہے؟
ج: ہندوستان کی تاریخی اور ادبی شناخت کو بچانے کے لیے فارسی زبان کی تعلیم ضروری ہے، بلاشبہ، فارسی اہم صوفیانہ زبان ہے، گزشتہ تاریخ میں ایران اور ہندوستان کی مشترکہ کاوشوں سے پروان چڑھی ہےاور ہندوستان میں فارسی زبان کی ترقی کا ایک حصہ ہندوستانی شاعروں، صوفیوں اور مصنفین سے متعلق ہے۔ فارسی بولنے والے صوفی اور شاعر جو ہندوستان میں پیدا ہوئے اور اس سرزمین سے تعلق رکھتے ہیں ان کا اپنا ایک ادبی مکتب فکر تھا اور وہ فارسی زبان و ادب کی ترقی اور نشوونما میں شانہ بہ شانہ رہے۔لہٰذا، اگر ہم کسی ملک میں ادب، ادبی کاموں اور عظیم شاعروں کے وجود کو اس سرزمین سے اس زبان اور ادب سے وابستہ ہونے کی علامت سمجھتے ہیں تو ہندوستان میں فارسی زبان بلاشبہ امیر خسرو دہلوی، مرزا غالب اور بیدل دہلوی جیسے مشہور شعرا کی وجہ سے ہے، سیکڑوں عظیم شعراء نے عمدہ ادبی کاموں کے ساتھ جو کہ فارسی میں پیش کیا گیا تھا۔عصر حاضر کی دنیا میں روحانیت دھندلی ہوتی جا رہی ہے۔ شعر و ادب ایک عظیم مفکرین کے روحانی تغیر اوران کے اندرونی اور بیرونی کشمکش کی حسیات کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ عظیم الشان لوگ جنہوں نے ماضی سے لے کر اب تک انسان کے بنیادی مسائل کے بارے میں سوچا ہے اور اس کا اظہار نثر یا شاعری کی زبان میں کیا ہے، چنانچہ فارسی ادب عصری انسانوں کے لیے ایک روحانی تحفہ ہے ، جو ا پنے روحانی تخیلات اور تعلیمات کے سبب، اخلاقی اور انسانی اقدار کے تحفظ و فروغ کا ذریعہ بن چکاہے۔ اس کا راز فارسی ادب میں روشن خیالی، بدیہی تجربات، فطرت کی طرف توجہ اور انسانی فطری تقاضوں اور حسیات کی عکاسی میں ڈھونڈنا چاہیے۔ دوسرے الفاظ میں، فارسی ادب بشریات کا آئینہ ہے۔ فارسی ادب کے شاہکار، خود شناسی، خود سازی اور فطرت انسانی کے گہرے ادراک کا نام ہے، یہ تمام مادی، روحانی، جسمانی، دنیاوی جہتوں کے ساتھ ساتھ انسانی درد اور اس کے علاج جیسے مسائل پر محیط هہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ فارسی ادب کا پیغام اور حکمتیں کل اور آج کے دور کے لیے برابر سے مؤثر درس ہیں۔
س: موجودہ حالات کے تناظر میں یہ بتائیں کہ فارسی پڑھنے والوں کا مستقبل کیسا ہے؟ ہندوستان میں اس زبان کے جاننے والوں کے لیے روزگا رکے کیا کیا مواقع ہیں؟
ج: ہندوستان میں اس زبان کی مقبولیت صدیوں سے رہی ہے اور آج بھی ہے، صدرجمہوریہ ایوارڈ جن کلاسیکل زبانوں کے لیے دیا جاتا ہے ، ان میں فارسی زبان بھی شامل ہے،خوش نصیبی سے ہندوستانی حکومتیں فارسی زبان پر ہمیشہ توجہ دیتی رہی ہیں ۔ ہندوستان کی نئی قومی تعلیمی پالیسی 2020، جس میں فارسی کو ہندوستان کی کلاسیکی زبان قرار دیا گیا ہے، ہندوستانی اسکولوں اور طلبہ کے لیے فارسی زبان کی تعلیم میں توسیع کے لیے مناسب مواقع فراہم ہوئے ہیں۔
دیکھیے آج کی تاریخ میں روزگار کے مواقع کسی بھی زبان کے لیے محض ایک زبان کے جاننے پر منحصر نہیں ، آج کا دور اختصاص کا دور ہے ، ایک زبان کے ساتھ دوسری زبان کی بھی معرفت ہے تو مطلوبہ موضوع پر تسلط حاصل ہوسکتاہےاور روزگار کے مواقع مل سکتے ہیں،آج ہندوستان میں فارسی مخطوطات اور دستاویز کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ لاکھوں فارسی نسخے اور دستاویزات جو غیرمعمولی مادی اور ثقافتی اہمیت کے حامل ہیں، وہ اس ملک بہت بڑا اثاثہ ہے ؛ہندوستانی عوام کی گرانقدر میراث ہے۔ یہاں کے بزرگوں نے آٹھ صدیوںسے زیادہ عرصے میں ایرانیوں اور دیگر فارسی بولنے والوں کی مدد سے اس کی ثقافتی اور تہذیبی ترقی میں زیادہ سے زیادہ حصہ لے کر اسےتیار کیا ہے۔ یقینی طور پر ہندوستان کے اس عظیم ثقافتی اور تاریخی ورثے کا تحفظ کے لیے ایسے افرادکی ضرورت ہے جو، فارسی زبان سے شغف رکھتےہوں اور اس قیمتی سرمایے سے استفادہ کرسکیں اور اس کی حفاظ کے ساتھ ساتھ اسے نوجوان نسل کو بھی اس سے متعارف کرائیں۔
فارسی زبان میں روزگارکے تعلق سے یہ بات بھی بہت اہم ہے کہ ایران ۔ ہند تجارتی تعلقات میں روز بروز استحکام کی راہ پر گامزن ہے، خاص طور سے چابہار کے بعد روزگار کے مواقع زیادہ سے زیادہ فراہم ہوں گے۔