انسان دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے، لیکن اپنے نیک کام کی بدولت لوگوں کے دلوں میں عرصہ تک اپنی عظمت کے نقوش مرتسم کیے ہوا ہوتا ہے، ایسے ہی بدمعاش انسان اپنی بد عملی اور کرتوتوں سے دوسروں کو جو زخم پہنچائے ہوئے ہوتا وہ بھی اپنی بد عملی کا داغ لیے ہوئے دنیا سے چلا جاتا ہے، لیکن وہ داغ اس کے ساتھ دفن نہیں ہوتا۔ پروفیسر بدر الدین الحافظ اپنے کردار کے اجلے پن کی وجہ سے وہ دنیا میں بھی محبوب نظر تھے اور آخرت میں سرخرو ہوں گے۔ ان شاء اللہ
پروفیسر بدر الدین الحافظ سے راقم السطور کو بارہا شرف نیاز حاصل رہا، کبھی یہ نیاز مسجد عمر کے نزد واقع ان کے گھر پر حاصل ہوا تو کبھی شعبہ عربی دہلی یونیورسٹی میں، تو کبھی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کسی پروگرام میں۔
مجھے ان سے دو وجہوں سے کچھ قربت زیادہ رہی، پہلی وجہ یہ تھی کہ وہ فاضل دیوبند تھے اور میں بھی وہیں کا پروردہ ہوں، دوسری وجہ یہ رہی کہ عربی کے اچھے استاذ ہونے کے ساتھ اردو زبان وادب پر بھی وہ غیر معمولی دسترس رکھتے تھے، ان کی متعدد تصانیف شہادت دیتی ہیں کہ تادم زیست انھوں نے قرطاس وقلم سے اپنا رشتہ مستحکم رکھا اور عربی سے اردو ترجمہ کے علاوہ اسلامیات پر متعدد تصانیف یادگار چھوڑیں۔ مجھے جب شعبہ عربی دہلی یونیورسٹی میں جے آر ایف سے ایس آر ایف میں انٹری کرنا تھا تو میرے مشرف پروفیسر ولی اختر مرحوم نے ان کا ہی حسن انتخاب کیا، انھوں نے میرے کام کو دیکھا تو بے پناہ خوشی کا اظہار کیا کہ پریم چند انڈین اور شرقاوی عربین کا آپ موازنہ کر رہے ہیں فوقیت کس کو دیجیے گا؟ اور مسکراتے ہوئے بولے کہ جس کو بھی فوقیت دیجیے گا اس پر مستحکم دلائل پیش کیجیے گا۔ اسی دوران انھوں نے اک عجیب واقعہ سنایا، جس نے مجھے مبہوت کردیا۔ وہ واقعہ دہلی یونیورسٹی کے شعبہ عربی میں 2014 میں اسسٹنٹ پروفیسرز اور ایسوسی ایٹ پروفیسرز کی تقرری سے متعلق ہے، انھوں نے مجھ سے پوچھا کہ «میاں تم وہاں سے پی ایچ ڈی کر رہے ہو اور جو صدر شعبہ ہیں وہ تمھارے مشرف بھی ہیں ذرا یہ معلوم کرو کہ میرے پاس انٹرویو میں بحیثیت ایکسپرٹ حاضر ہونے کے لیے فون آیا اور مجھے آنے کو کہا گیا، لیٹر بھی آیا، لیکن کچھ ہی دن بعد ملتوی کی اطلاع دے کر مجھے روک دیا گیا اور کسی اور ایکسپرٹ کو بلایا گیا اس کے پیچھے کیا راز ہوسکتا ہے؟» میں نے کہا کہ سر! یہ تو مجھے نہیں پتہ کہ کیا راز ہے؟ اور میں صدر شعبہ سے بھی نہیں پوچھ سکتا، کیوں کہ ان سے میں بہت ڈرتا ہوں، انھوں نے کہا کہ کہانی دلچسپ ہے، میں تمھیں سناؤں گا۔ یہ کہتے ہوئے انھوں نے اپنی بات ختم کی اور کہا کہ مجھے اس وقت معہد التخصص ذاکر نگر جانا ہے آپ کبھی آنا تو تفصیل سے بات ہوگی، فی الحال «بڑھاپے میں جوانی» لے جاؤ اور اسے پڑھ کر انقلاب میں کچھ لکھ دیجیو۔ اتفاق سے یہ کتاب میں نے مسجد خلیل اللہ کے وضو خانے کے پاس رکھ کر وضو بنانے کے بعد نماز ظہر ادا کی اور جب نکلا تو یاد ہی نہیں رہا اور جب یاد آیا تو وہاں پر کتاب موجود نہ تھی۔ موصوف کو اردو ادبیات سے بھی بے حد دلچسپی تھی وہ اکثر مضامین لکھتے جن میں قاری کے لیے زبردست پیغام ہوتا، ان کی شخصیت واقعی عبقری تھی۔ اللہ پاک ان کے درجات بلند فرمائے۔