Home ستاروں کےدرمیاں اردو افسانے کا نقاش اول: پریم چند-اسامہ غنی

اردو افسانے کا نقاش اول: پریم چند-اسامہ غنی

by قندیل

٣١ جولائی ١٨٨٠ء کو اردو ادب کے افق پر ایک ایسا ستارہ نمودار ہوا جس نے ادب بالخصوص فکشن کی دنیا کو نئی سمت و رفتار عطا کی ۔ پریم چند جن کا اصل نام دھنپت رائے تھا، انہوں نے اردو افسانہ نگاری کو فکر اور فن ہر دو سطح پر وسعت بخشی۔ اردو افسانہ نگاری کو پریم چند نے اس مقام تک پہنچا دیا کہ پریم چند کے ذکر کے بغیر اردو افسانہ کی تاریخ کبھی مکمل نہیں ہو سکتی۔ اب سوال یہ ہے کہ ان کی ان صلاحیتوں کا محور کیا تھا؟ کیا یہ کسی مکتب کی کرامت تھی؟ یہ بات بالکل واضح ہے کہ پریم چند نے بنیادی تعلیم مدرسے سے حاصل کی۔ اس وقت کی فضائیں بھی کتنی صاف اور محبت بھری ہوں گی جب علم مذہب کو دیکھ کر نہیں حاصل کیا جاتا تھا۔ نہ ہی کسی زبان کے سیکھنے میں کوئی مذہب کبھی درمیان میں آتا تھا۔ مگر آج پتہ نہیں کیوں اردو زبان کا تعلق مسلمانوں سے وابستہ کر دیا گیا ہے۔ جس زبان کی بنیاد میں ہی رواداری ہو اس زبان کا تعلق صرف ایک مذہب سے کیسے ہو سکتا ہے؟ پریم چند خاندانی اعتبار سے منشی تھے مگر ان کا ذوق و شوق علمی و ادبی تھا ۔ ان کا مطالعہ بے حد وسیع تھا، انہیں پر دسترس حاصل تھی۔ پریم چند نے اردو زبان کے ساتھ فارسی میں بھی دسترس حاصل کر رکھی تھی ان سے قبل اردو افسانہ نگاری کی قابل ذکر روایت موجود نہیں تھی محض مختصر کہانیاں لکھی جاتی تھیں۔ اس لحاظ سے اردو افسانہ نگاری کے بنیاد گزاروں میں پریم چند سب سے اہم نام ہے۔ اگر افسانہ طویل ہو تو پڑھنے والوں کی دلچسپیاں کم ہوجاتی ہیں۔ پریم چند کے بیشتر افسانے مختصر ہوتے ہیں۔ ان کی کہانیوں میں نصیحتیں، تخیلات کی بلند پروازی، ہر کردار کو موقعے کے حساب سے پیش کرنا اور بہت اعلیٰ درجے کی کردار نگاری ملتی ہے۔ پریم چند کی افسانہ نگاری کی مقبولیت کی وجہ یہ بھی ہے کہ ان کا دل سماجی برائیوں کی وجہ سے غمگین رہتا تھا۔ سماج کی ہر طرح کی برائیوں کو پریم چند نے مختلف زاویوں سے پیش کیا ہے۔ آپ کا ایک مشہور افسانہ "شکوہ شکایت” ہے جس میں انہوں نے عورت کی مجبوری کو ظاہر کیا ہے کہ ایک عورت کیسی کیسی تکالیف برداشت کرتی ہے مگر اپنے شوہر کا ساتھ نہیں چھوڑتی۔ ایسا شوہر جو صرف باہر والوں کے لیے اچھا ہوتا ہے اور گھر سے بالکل لاپرواہ۔ اس کے برعکس افسانہ قاتل کی ماں ایک ایسا افسانہ ہے جس میں پریم چند نے اپنی فنکاری کا کمال دکھایا ہے۔ ایک ماں ایسی ہستی ہے جس کے نذدیک اولاد سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ وہ سب کچھ لٹا کر بھی اپنی اولاد کو محفوظ رکھنا پسند کرتی ہے۔ اس افسانے میں ایک ماں اپنے بیٹے کے خلاف سچی گواہی دے دیتی ہے یہ اس لیے کہ بس دوسری ماؤں کے بچے ناحق جرم میں نہ پکڑے جائیں‌۔ پریم چند نے اپنے افسانوں کے ذریعے پست اور مجبور انسانوں کے حق میں آواز اٹھائی ہے۔ پریم چند کی افسانہ نگاری کی کامیابی کی ایک وجہ ان کی منظر نگاری ہے ۔ وہ اپنے بیشتر افسانے میں گاؤں کے مناظر پیش کیا کرتے ہیں ۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کی سوچ سادگی سے عبارت تھی۔ پریم چند کا آخری افسانہ کفن بہت مقبول ہوا انہوں نے اس افسانے کے ذریعے ان مردوں کی نفسیات پیش کی ہے جو اپنے گھر کی عورتوں کو محض کام کرنے کے لائق سمجھتے ہیں۔ جب کہ عورتیں اپنی پوری زندگی گھر والوں کی خدمت میں گزار دیتی ہیں۔ لیکن ان کی موت کے وقت انہیں کفن تک بھی نصیب نہیں ہوتا۔ پریم چند کے افسانوں میں حقیقت تھی اس لیے آپ کا افسانہ حکومت کے لیے خطرہ معلوم ہوتا تھا۔ انگریزی حکومت نے ان کی تحریروں پر بھی روک لگائی بلکہ ان کا افسانوی مجموعہ "سوز وطن” بھی زبط کرلیا گیا۔ ان سب کے باوجود پریم چند نے الگ الگ ناموں سے تصنیف تخلیق کا کام جاری رکھا۔ جو یہ ثابت کرتا ہے کہ آپ کو نام و نمود کی فکر ہرگز نہیں تھی بلکہ آپ کا مقصد غریبوں پر ظلم، سرمایا داروں اور اونچی ذات والوں کا دوسروں کو حقیر سمجھنا اور بہت طرح کی برائیوں کو منظر عام پر لانا تھا۔ آپ کا آخری افسانوی مجموعہ "واردات” ١٣ افسانوں پر مشتمل آج بھی پڑھا جاتا ہے۔ یہ ١٣ افسانے الگ الگ وحدت‌ تأثر پیش کرتے ہیں۔ اگر ہر فرد اسے سبق حاصل کرنے کے لیےپڑھے تو آج پھر پریم چند جیسے لوگ نظر آنے لگیں گے۔

You may also like