Home ستاروں کےدرمیاں پریم چند ہمیں کیوں یاد ہیں؟

پریم چند ہمیں کیوں یاد ہیں؟

by قندیل

ڈاکٹر مشتاق احمد
پرنسپل، سی۔ایم کالج، دربھنگہ
موبائل:9431414586
ای میل:[email protected]

منشی پریم چند (13/ جولائی 1880ء۔8/ اکتوبر1936ء)ہندوستانی ادب کے واحد ایسے فنکار ہیں جو کبھی لسانی تعصب کے شکار نہیں رہے۔انہوں نے جب اپنے قلم کو تخلیقی جنبش سے آراستہ کیا توان کا وسیلہ اظہار اردو رہا اور جب ان کے افکار ونظریات کی دنیا کائناتی شکل اختیار کرگئی تو وہ ہندی کی دنیا میں چار چاند لگانے لگے۔ظاہر ہے کہ جب کوئی ادیب وفنکار انسانی معاشرے کاسچا ترجمان ہو جاتا ہے تو وہ پھر کسی خاص طبقے یا کسی خاص فرقے کی پسند نہیں رہ جاتا بلکہ اس کی قبولیت ہر کس وناکس کے لئے ناگزیر ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پریم چندکو جب کبھی متنازعہ فیہ بنانے کی مبینہ کوشش بھی کی گئی تو ہندوستانی معاشرے نے اس سازش کو ناکام کردیا اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے ہندوستانی ادب کے قطب نما بن گئے۔ پریم چند کے ہم عصرچینی افسانہ نگار چھوؤشوزن قلمی نام لوشنؔ نے ایک بار کہا تھا کہ اگر ہندوستان میں پریم چند کے بعد کوئی افسانہ نگار پیدا نہیں ہوتا تب بھی عالمی ادب میں ہندوستان کو جگہ ملتی کہ پریم چند ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے۔بلا شبہ آج عالمی ادب میں جن چند تخلیقی فنکاروں کی بدولت مشرقی ادب کو وقار حاصل ہے ان میں پریم چند کی نمایاں حیثیت ہے۔ ان کی تخلیقات نے پوری دنیا کو اپنی طرف مخاطب کیا بالخصوص ان کی کہانیوں نے ایک طرف ہندوستانیت کو جِلا بخشی تو دوسری طرف عالمی فنکاروں کو اپنا گرویدہ بنایا کہ ان کے افسانوں اور ناولوں کے موضوعات صرف تخیلی نہیں تھے بلکہ ہندوستان کے حاشیائی افراد کی زندگی کے آئینہ دار تھے۔اس لئے ہمیں پریم چند یاد ہیں کہ ان کو بھلانے کا مطلب ہوگا کہ ہم اُس تخلیقی فنکار کوفراموش کردیں گے جوانسانی معاشرے میں امن وسکون، مذہبی رواداری،بھائی چارگی، جاگیردارانہ نظام کے خلاف بغاوت، عورتوں اورمزدوروں کے استحصال کے خلاف جنگ اور سماجی مساوات کے لئے فکری ونظری صف بندی کے علمبردارتھے۔ اردو ادب کے قد آور ناقد اور ماہر پریم چند پروفیسر قمر رئیس نے اپنے ایک مضمون ”پریم چند کی روایت اور معاصر اردو فکشن“ میں لکھا تھا کہ:
”پریم چند پہلے ادیب ہیں جنہوں نے ہندوستانی گاؤں کے کسان، کھیت مزدوروں اور ہریجنوں کی عظمت اور انسانی وقار کو سمجھا۔ ان کے لئے ادب کے کشادہ دروازے کھولے،انہیں ہیرو بنا کر،ان کے دکھ سکھ کی گاتھا سنا کر اردوکے افسانوی ادب کونئی وسعت اورایک نئے احساسات وجمال سے آشنا کیا۔ اس طرح اردو ادب جو اب تک شہر کے اعلیٰ اور متوسط طبقے کی ترجمانی کرتا تھا، سارے ملک کی متحرک زندگی، عوامی تحریکوں، سماجی آویزشوں اورعام انسانوں کے مشغلوں اور معرکوں کا جاندار مرقع بن گیا ہے“۔(منہاجِ پریم چند۔ص:۹۱)
حقیقت بھی یہی ہے کہ پریم چند سے پہلے بھی ہماری فکشن کی دنیا آباد تھی لیکن وہ فکشن خوابوں کی دنیا پر مبنی تھی۔ حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہ تھا۔ کہانی اس طبقے کی ہوتی تھی جس طبقے کو سماج کی اکثریت نے کبھی دیکھا سنا نہیں تھا۔جن اور پریوں کی کہانی سے اگر نجات ملی تو پھر محلوں کے راجاؤں اور رانیوں کی داستان ہمارے فکشن کی روح بن گئی۔ پریم چند نے پہلی بار فکشن کے ذریعہ ہندوستانی سماج کی حقیقی زندگی کو پیش کرنے کی کوشش کی اوروہ اس کوشش میں کامیاب بھی رہے۔ظاہرہے کہ پریم چند کے تخلیقی سفر سے پہلے فرانسیسی انقلاب، صنعتی انقلاب اور روس کی بدلتی سیاسی فضا،مارکسی نظریے کی اشاعت سے عالمی ادب کے محور ومرکز میں تبدیلی شروع ہو چکی تھی اور اس کی آہٹ ہندوستان تک پہنچ چکی تھی۔ لیکن غلام ہندوستان میں چاہ کر بھی کوئی ادیب یہ جوکھم نہیں لینا چاہتا تھا کہ وہ انگریزی حکومت کے خلاف متحرک ہو۔یہاں اس حقیقت کا اعتراف بھی ضروری ہے کہ غلام ہندوستان میں صرف انگریزوں کا خوف ہی نہیں تھا بلکہ اس وقت کا جو سماجی نظام تھا اور بالخصوص ہمارے سماج میں جو جاگیرداروں کی جابرانہ بالا دستی تھی اس سے بھی انقلابی چنگاری شعلہ بننے سے رہ جاتی تھی۔ لیکن پریم چند نے اس خوف سے نکل کر اپنی تخلیقی دنیا آباد کی۔ سماج کے اس حاشیائی طبقے کوہیرو بنانے کی پہل کی جس کے سائے سے بھی ہمارا سماج دوررہنا چاہتا تھا۔دلت طبقے کی اذیت ناک زندگی، کسانوں کی بد حالی، عورتوں کے استحصال، غلط سماجی رسم ورواج کی وجہ سے متوسط طبقے کی پریشان کن زندگی کو کہانیوں کا موضوع بنایا اور ایک نئی فکر کی قندیل روشن کی۔”سوزِ وطن“ سے لے کر ”واردات“ تک کی کہانیوں میں پریم چند کا مشن صاف طورپر دکھائی دیتا ہے۔ظاہر ہے کہ مشن کے لئے شعوری کوشش لازمی ہوتی ہے اور پریم چند نے شعوری طورپر اپنے عہد کے خوابیدہ اور دم توڑتی انسانیت کو بیدار کرنے کا ذمہ اپنے سر لیا۔
واضح ہو کہ وہ شروع سے اصلاح پسند تھے اس لئے وہ آریہ سماج سے جڑے تھے اور جب مہاتما گاندھی نے ہندوستان کی آزادی کے ساتھ ساتھ سماجی برائیوں کے خلاف آواز بلند کی تو ان کی آواز پر نہ صرف لبیک کہا بلکہ آخر عمر تک گاندھی کے فکر وفلسفہ کے علمبردار بن کر رہے۔ گاندھی جی کی تحریک سے پہلے ہی پریم چند ایک محبِ وطن اور سماجی مصلح کے طورپر اپنی پہچان بنا چکے تھے کہ 1908ء میں ”سوزِ وطن“ کی اشاعت کے بعد ہی ملک گیر سطح پر ان کی مقبولیت عام ہو چکی تھی۔ گاندھی جی 1915ء میں افریقہ سے ہندوستان لوٹے اور جنگِ آزادی کی مشعل لے کر نکل پڑے۔ پریم چند جو پہلے سے ہی انگریزی حکومت کے خلاف تخلیقی جنگ لڑ رہے تھے انہیں گاندھی کی توانا آواز نے گرویدہ بنا لیا۔ گاندھی جی سے پریم چند کی پہلی ملاقات 8/فروری 1921ء کو گورکھ پور میں ہوئی تھی۔گاندھی جی انگریزوں کے خلاف تحریک عدم تعاون کا آغاز کر چکے تھے۔ گاندھی جی سے پہلی ملاقات میں ہی پریم چند نے ایک تاریخی قدم اٹھایا کہ انہوں نے اپنی سرکاری نوکری سے استعفیٰ دے دیااور مہاویر پرساد پودار کے تعاون سے کھادی کو فروغ دینے کے لئے متحرک ہوگئے۔ اگرچہ اس مشن میں وہ ناکام رہے کہ جلد ہی مہاویر پرساد پودار ان سے الگ ہوئے اور چرخہ اور کھادی کی تجارت میں خسارے کا بوجھ وہ برداشت نہیں کر سکے اورپھر وہ اپنے گاؤں لمہی (بنارس) لوٹ آئے جہاں آخری سانس تک رہے۔گاندھی جی کی ایما پر ہی انہوں نے ”ہنس“ جاری کیا۔گاندھی جی سے مل کر جب گھر لوٹے تو پریم چند گاندھی جی کے مرید ہو چکے تھے۔ ان کی شریکِ حیات شیو رانی دیوی نے اپنی کتاب ”پریم چند: گھر میں“ میں اس کا خلاصہ کیا ہے کہ جب پریم چند احمد آباد سے لوٹے تو انہو ں نے کہا:
”جتنا میں مہاتما کو سمجھتا تھا اس سے کہیں زیادہ وہ مجھے ملے۔مہاتما جی سے ملنے کے بعد کوئی ایسا نہیں ہوگا جو بغیر ان کا ہوئے لوٹ آئے۔یا تو وہ سب کے ہیں یا وہ اپنی جانب سب کو کھینچ لیتے ہیں۔میں مہاتما گاندھی کو دنیامیں سب سے بڑا مانتا ہوں۔ ان کا مقصد ہے کہ مزدور اور کسان خوشحال ہو۔وہ ان لوگوں کو آگے بڑھانے کے لئے تحریک چلا رہے ہیں۔میں لکھ کر ان کو حوصلہ دے رہا ہوں“۔
اور پریم چند اپنے اس قول پر تا عمر قائم رہے کہ 1921کے بعد کے افسانوں اور ناولوں میں پریم چند فکری اعتبار سے بدلے ہوئے نظر آتے ہیں۔ فلسفہئ گاندھی کے مبلغ اور تحریکِ آزادی کا حصہ بن جاتے ہیں۔ جب ترقی پسند تحریک کی بنیاد سجاد ظہیر کی قیادت میں 1936ء میں ملک میں ڈالی جاتی ہے تو اس کی صدارت کے لئے حامی بھرتے ہیں اور لکھنؤ اجلاس میں بہ نفس نفیس شرکت کرکے ہندوستان کے تمام ادیبوں کو یہ پیغام دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ اب ہمیں ”حسن کا معیاربدلنا ہوگا“ اور خود اپنی تحریر وتقریر کے ذریعے یہ ثابت کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی تخلیق کا قبلہ بدل دیا ہے۔آخری دور کی کہانیوں ”آخری تحفہ، کفن، دودھ کی قیمت،معصوم بچہ“ اور ”قاتل“ کے مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ وہ گاندھی جی کے پرستاربن چکے ہیں۔”زیور کا ڈبّہ“ لکھ کر یہ پیغام دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف متحد ہونا لازمی ہے۔ اسی طرح ناولوں میں بھی گاندھی ازم کی جھلک دکھائی دیتی ہے بالخصوص ”میدانِ عمل“ میں ایک نئے پریم چند دکھائی دیتے ہیں۔
مختصر یہ کہ پریم چند ہمیں صرف ”پوس کی رات“کی لہو کو منجمد کرنے والی ٹھنڈک اور ”ہلکو“کی بے بسی، ’کفن“ کے مادھو،گھیسواور دھنیاکی اذیت ناک زندگی سے ہی آشنا نہیں کراتے بلکہ جھوری کے دوبیلوں ہیرا اور موتی سے بھی ملاقات کراتے ہیں اور انسانی معاشرے میں حیوانی کرداروں کے وجودکا لازمیت کا احساس بھی کراتے ہیں۔ مجموعی طورپر پریم چند کا تخلیقی سفر دراصل انسان کے ہر طرح کے استحصال، محرومی،کشمکش اور جدوجہد کی تاریخ ہے۔ اس لئے پریم چند کے عہد کے ہندوستان کی سچائیوں سے روبروہونے کے لئے ہمیں پریم چند کے کرداروں سے رشتہ رکھنا ہوگا اور ہمیں پریم چند کو یاد رکھنا ہوگا کہ پریم چند کے افکار ونظریات کی معنویت اب بھی برقرار ہے کہ آزاد ہندوستان میں بھی کسان خود کشی کر رہے ہیں، مزدوروں کے قافلے پر کیڑا کش دواؤں کا چھڑکاؤ ہو رہا ہے اور آگرہ کی ایک دلت عورت کی لاش کو سماج کے اعلیٰ طبقے کے شمسان میں جلانے کی اجازت نہیں دی جاتی ہے۔

You may also like

1 comment

Mohammed Azmat Ul Haq 31 جولائی, 2020 - 17:21

السلام علیکم!
بہت ہی عمدہ اور معلوماتی مضمون ہے۔لگتا ہے جیسےسمندر کو کوزے میں بند کیا گیا ہو۔
محمد عظمت الحق
دیگلور کالج دیگلور، ناندیڑ
7020407042

Leave a Comment