پچھلے کچھ مہینوں سے پرشانت کشور بہار بالخصوص شمالی بہار میں بقول ان کے ‘ بہاریوں میں سیاسی شعور بیدار کرنے کے لیے دورہ کر رہے تھے’ ۔
ان کی تقریروں کی بہت سی باتوں سے ایسا تاثر مل رہا تھا کہ یہ شخص یا تو اپنی پارٹی کی تشکیل چاہتا ہے یا واقعی بہار کی حقیقی تعمیر و ترقی کے لیے مخلصانہ کوشش کر رہا ہے یا کسی مخصوص پارٹی کے ہڈن ایجنڈا پر کام کر رہا ہے۔ اس لیے کہ وہ بار بار اپنی تقریروں میں کہتا تھا کہ جس طرح گجرات کی ترقی ہوئی بہار کی کیوں نہیں ہوئی؟ کیوں بہار کے لوگ گجرات ، دہلی اور پنجاب جا کر مزدوری کرنے کے لیے مجبور ہیں !
ان کے دوروں کے پیچھے کے محرکات جو بھی ہوں لیکن ان کے اس پرکشش بیان کو بعض مسلمانوں نے خوب سراہا ۔ انہوں نے کہاکہ’ ہر جات برادری کے لیڈر ہیں اور پارٹی ہیں سواے مسلمانوں کے یہ ہمیشہ سے دوسری پارٹیوں کے جھنڈا بردار کیوں ہوتے ہیں ! ان کے اس بیان سے بہت سے مسلمانوں کو ان میں اپنا سیاسی مسیحا نظر آنے لگا تھا۔
مسلمانوں کا سیاسی لیڈر ہونا چاہیے جس کے لیے سیاسی پارٹی کی ضرورت ہوگی لیکن جب کبھی کسی مسلمان نے اپنی سیاسی پارٹی کی تشکیل کی بات کی تو تقریبا ہر سیاسی پارٹی، سیاسی تجزیہ نگار، صحافی اور سیاسی و سماجی لیڈر نے اس کی مخالفت کی اور کہا کہ مذہب کی بنیاد پر الگ سیاسی تنظیم ہندوستان کے آئین کی روح کے منافی ہے۔ یہ بات بہت حد تک صحیح بھی ہے کہ ہمارا آئین ہمیں مذہب کے نام پر کچھ الگ کرنے یا مانگنے (امتیازی سلوک) کی اجازت نہیں دیتا ہے اسی لئے کوئی سیاسی پارٹی مذہب کے نام پر ووٹ نہیں مانگتی ہے اور اگر مانگتی ہے تو غیر جانبدار الیکشن کمیشن اس کے خلاف ایکشن لیتی ہے۔
یہ بات آزادی کے بعد سے ہی لوگوں کو باور کرایا جاتا رہا ہے اور کہا جاتا رہا ہے کہ اب پھر کسی مسلم لیگ کی ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ اس سے قومی ہم آہنگی میں خلل واقع ہو سکتا ہے۔ لیکن غیر مسلموں کے ساتھ مسلمانوں کا موازنہ اس لئے درست نہیں ہے کہ غیر مسلموں کی پارٹیاں مذہب کے نام پر نہیں ذات برادری کے نام پر ہیں ۔
اسی کے پیش نظر مسلمانوں کو یہ نصیحت کی جاتی رہی ہے کہ مسلمان مین اسٹریم پارٹیوں کا حصّہ بن کر سیاسی عمل میں شریک ہوں۔ ایسا ہوتا آیا بھی ہے۔ لیکن کم و بیش تیس پینتیس سال قبل ملک میں سیاسی طور پر مسلمانوں کو حاشیہ پر دھکیلنے کا عمل شروع ہوا تھا جس میں ہر سال اضافہ ہوتا گیا اور آج نتیجہ یہ ہے کہ سیاسی پارٹیاں مسلمانوں کو ٹکٹ دینے اور کھلے عام مسلمانوں کا نام لینے اور مسلمانوں کے مسائل اٹھانے سے بھی احتراز کرتی ہیں۔ بہت مہربان ہوئیں تو دلتوں اور پسماندوں کے ضمن میں اقلیتی طبقات کہہ کر نکل لیتی ہیں ۔ یہاں بھی ان کے پاس وہی جواز ہوتا ہے کہ مسلمان کا لفظ کہنے سے مخصوص مذہب کی طرف اشارہ ہو جاتا ہے۔
اب خبر آئی کہ جو پی کے صاحب مسلمانوں کو اپنا لیڈر اور قیادت کھڑی کرنے کی بات کر رہے تھے انہیں بی جے پی کے ترجمان اعلیٰ کے عہدہ پر فائز کیا گیا ہے ! کیا اب بھی وہ چاہیں گے کہ مسلمانوں کا اپنا لیڈر اپنی سیاسی پارٹی اور قیادت ہو ؟
بڑی مشکل ہے ڈگر پنگھٹ کی !
کشمکش میں مسلمان کریں تو کیا کریں ۔ انہوں نے ہمیشہ نام نہاد سیاسی پارٹیوں کے ساتھ انتخابی عمل میں حصہ لیا ۔ جب تک ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی مضبوط رہی ان کے فوٹو بھی پوسٹروں میں چھپتے تھے انہیں اسٹیج پر جگہ بھی ملتی تھی ان کے اور ان کے اسلاف کی قربانیوں اور یوگدان کا ذکر بھی ہوتا تھا لیکن اب شاید انہیں اچھوت سمجھا جانے لگا ہے جن کا نام لینے سے نام نہاد سیکولر لیڈروں کی زبان ناپاک ہونے کا شاید خدشہ رہتا ہے! اگر یہ نہیں تو شاید اکثریتی طبقے کی ناراضگی کا ڈر لگتا رہتا ہے کہ کہیں ان کے ووٹ سے ہاتھ دھونا نہ پڑ جائے!
اگر کانگریس ، سپا، بسپا، راجد، جدیو وغیرہ آئیڈیالوجی بیسڈ پارٹیاں ہوتیں تو ڈنکے کی چوٹ پر کہتیں کہ یہ ایک سیکولر ملک ہے، یہاں ہر شہری کے حقوق برابر ہیں، ہماری پارٹی سیکولر ہے اور بحیثیت سیکولر لیڈر ہمیں بلا جھجھک ہر طبقے کی بات کرنی ہے خاص طور پر سماج کے پسماندہ طبقوں کے لیے آواز اٹھانی ہے تو پھر مسلمانوں کے مسائل کے لیے آواز اٹھانے سے پرہیز کیوں کریں جبکہ سب کو معلوم ہے کہ یہ طبقہ شاید سب سے زیادہ پسماندہ ہے ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)