Home قندیل پولیس کی فرقہ وارانہ نفسیات:جڑیں گہری ہیں

پولیس کی فرقہ وارانہ نفسیات:جڑیں گہری ہیں

by قندیل

نایاب حسن

"دی وائر” ویب سائٹ نے ایک سٹوری شائع کی ہے جس کے مطابق مدھیہ پردیش میں تئیس مارچ کو دیپک بندیلے نامی ایک وکیل کو، جبکہ وہ ہاسپٹل جا رہے تھے، پولیس والوں نے گھیر کر پہلے تو بد زبانی کی اور جب انھوں نے کچھ مزاحمت کی، تو دشنام طرازی کے ساتھ ساتھ پولیسیا لاٹھی سے مار مار کر ان کے جسم کو "لالہ گوں” بنادیاـ وہ بے چارے تب سے کوشش میں ہیں کہ پولیس کے خلاف معاملہ درج کروا سکیں، مگر دوماہ کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی انھیں کامیابی نہیں ملی ہے ـ وائر نے اس سلسلے کی جو تفصیلات درج کی ہیں، دلچسپ ہیں، دلچسپ کیا ہیں، عبرت ناک کہہ لیں ـ ان پولیس والوں کو جب بعد میں پتا چلا کہ جس کی ٹُھکائی کی ہے، وہ گرچہ ڈاڑھی والا ہے اور اس کا لُک مسلمانوں جیسا ہے، مگر وہ تو ہندو ہے، اس وجہ سے انھوں نے متعلقہ شخص سے معذرت کی اور ساتھ ہی صفائی پیش کرتے ہوئے کھلے پن کے ساتھ اس حقیقت کا اظہار کیا کہ بھئی ہم تو دنگوں میں بھی ہندووں کی سائڈ پر رہتے ہیں، پھر عام حالات میں کیسے کسی ہندو کو مار سکتے ہیں ـ جس بندے نے آپ کو پیٹ دیا ہے، وہ پکا ہندو ہے، اسے آپ کی ڈاڑھی سے دھوکہ ہوا اور آپ لپیٹے میں آگئے ـ ہائے! کتنے بھولے اور سیدھے لوگ ہیں یہ پولیس والےـ
یاد رکھنے والوں کو یاد ہوگا کہ سیم اسی قسم کا واقعہ ماہ فروری میں نارتھ ایسٹ دہلی کے فساد کے دوران بھی رپورٹ کیا گیا تھاـ وہ واقعہ مشہور انگریزی اخبار انڈین ایکسپریس کے رپورٹر کا تھا، جسے کسی جگہ فسادیوں کی بھیڑ نے گھیر لیا تھا اور بڑی مشکل سے اپنے آپ کو ہندو ثابت کرنے کے بعد اس کی جان چھوٹ سکی تھی ـ غالباً اسی بندے کو پینٹ کھول کر اپنی مذہبی پہچان بتانے کے لیے کہا گیا تھا ـ بعد میں انڈین ایکسپریس میں اس کی مفصل سٹوری چھپی تھی ـ
ان دوواقعات سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ذہنی و نفسیاتی طور پر مسلمانوں کے خلاف اس ملک کی پولیس اور عام متشدد ہندو ایک پیج پر ہیں ـ مدھیہ پردیش پولیس نے جو کچھ کہا ہے، یہ ایک حقیقت ہے اور اس پر تمام ہندوستان کی پولیس عمل کرتی ہےـ سابق آئی پی ایس افسر وبھوتی نارائن رائے جیسے متعدد ان انصاف پسندوں نے بھی اس حقیقت کو بار بار آشکار کیا ہے، جو خود ایک طویل عرصہ پولیس ڈپارٹمنٹ میں کام کر چکے ہیں ـ وہ لکھتے ہیں کہ اسی وجہ سے یادہ تر؛ بلکہ تقریبا تمام فسادات میں مسلمانوں کا جانی ومالی نقصان ہندووں کے مقابلے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے؛ کیوں کہ ہندووں کو پولیس کی شکل میں باقاعدہ قانونی تحفظ حاصل ہوجاتا ہے اور مسلمان اگر کہیں مضبوط ہوں، پھر بھی کھل کر ہاتھ پاؤں نہیں چلا پاتےـ "کامن کاز "نامی این جی او نے دوہزار انیس کی جو پولیسنگ کے عمل پر اپنی رپورٹ پیش کی ہے، اس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ تقریبا پچہتر فیصد ہندومسلم فسادات یا معمولی جھگڑوں میں بھی پولیس یہ مان کر چلتی ہے کہ غلطی مسلمانوں کی ہوگی؛ چنانچہ ان کے ساتھ اس کا برتاؤ بھی ایسا ہی ہوتا ہے،جیسا کہ مجرموں کے ساتھ کیا جانا چاہیےـ
پولیس میں چوں کہ مسلمانوں کی نمایندگی آٹے میں نمک جیسی ہوتی ہے؛ اس لیے مسلم پولیس اہلکار بعض دفعہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پاتےـ اس حوالے سے مجھے پھر وبھوتی نارائن اور ہاشم پورہ قتلِ عام پر ان کی کتاب کا حوالہ دینا چاہیےـ جب یہ شرمناک واقعہ رونما ہوا تو اس وقت ضلع غازی آباد کے ڈی ایم نسیم زیدی نامی مسلمان تھے اور سب سے پہلے اس سانحے کی خبر جن لوگوں کو ہوئی، ان میں وہ بھی تھے؛ بلکہ وہ اسی رات مقامِ حادثہ پر بھی پہنچے تھے، سارے حقائق ان کے سامنے تھے، مگر ہوا کیا، وہ سارا ملک جانتا ہےـ اسی طرح اسی سانحے کی تفتیش جس سی آئی ڈی کرائم برانچ کے پولیس سپرنٹنڈنٹ کے سپرد کی گئی تھی، اس کا نام بھی خالد رضوی تھا، مگر اپنی نوعیت کے اس انوکھے اور انسانیت کو شرمسار کردینے والے حادثے پر عدالت کا جوفیصلہ آیا، وہ آپ کے علم میں ہوگاـ پچاسوں بے قصوروں کے قاتل بری کردیے گئے، انصاف منہ تکتا رہ گیاـ
بعض تجزیہ کارجب آزاد ہند کے پولیس نظام کی تہ تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں، تو انھیں مختلف حوالوں سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ آزادی کے فورا بعد ملک کے پہلے وزیر داخلہ سردار پٹیل نے باقاعدہ ریاستوں کو سرکلر جاری کرکے یہ ہدایت دی تھی کہ پولیس میں مسلمانوں کی بھرتی کم سے کم کی جائےـ وبھوتی نارائن نے اپنی مذکورہ بالا کتاب میں ہی اس کا ذکر کیا ہے، البتہ انھیں اس بات کی صحت پر شبہ ہے، انھوں نے کوشش کی کہ پٹیل کا یہ تحریری فرمان کہیں سے ان کے ہاتھ لگے، مگر انھیں کامیابی نہیں ملی ـ ویسے پٹیل کی شخصیت و کردار اور ہندوستانی مسلمانوں کے تئیں ان کے مجموعی نقطۂ نظر سے واقفیت رکھنے والے لوگوں کے لیے یہ بات معنی خیز ہونی چاہیےـ نیز آزادی کے بعد سے اب تک پولیس ڈپارٹمنٹ میں مسلمانوں کے داخلے کا جو تناسب رہاہے، وہ بھی کچھ کہتا ہےـ آپ یہ سوال کر سکتے ہیں کہ مسلمان تو بے چارے اس لائق ہی کتنے ہوتے ہیں کہ پولیس ڈپارٹمنٹ کا حصہ بن سکیں؟ مگر پھر سوال یہ بھی پیدا ہوگا کہ جتنے مسلمان اس لائق ہوتے ہیں، کیا انھیں بھی انصاف کے ساتھ اس شعبے میں لیا جاتا ہے؟
یہی وجہ ہے کہ فسادات اور فرقہ وارانہ جھگڑوں میں عموما مسلمان یک طرفہ پیٹے جاتے ہیں ـ پولیس میں اگر برابری نہ سہی، مجموعی آبادی کے اعتبار سے بھی مسلمانوں کی نمایندگی ہوتی، تو ایک قسم کا توازن رہتاـ اپنے فرقے والوں کے ساتھ ہمدردی تو فطری بات ہے، آپ لاکھ قانون یا جمہوریت وغیرہ کے راگ الاپیں، مگر زمینی سطح پر بات کچھ اور ہی ہوتی ہےـ آزادی سے پہلے سے ہی اس ملک کی پولیس میں اس قسم کی نفسیات پائی جاتی ہے؛ چنانچہ اُس زمانے میں رونما ہونے والے فسادات کے ریکارڈ کو کھنگالیے تو آپ کو یہ ملے گا کہ مسلم پولیس والے عموما مسلمانوں کے فیور میں کھڑے ہوتے تھے اور ہندو پولیس والے ہندووں کی حمایت میں اور جس کا جہاں زور چلتا، بازی مار لیتا تھاـ آزادی سے چند ماہ پہلے بنگال کے نواکھالی، بہار کے پٹنہ وآس پاس اور پنجاب میں جو کشت و خون ہوا تھا، کیا وہ پولیس والوں کی اعانت وحوصلہ افزائی کے بغیر ہوا ہوگا؟

You may also like

1 comment

Anonymous 27 مئی, 2020 - 17:43

Hello qindeel nice website

Leave a Comment