Home تجزیہ پی ایم مودی کے انٹرویو ! ۔شکیل رشید

پی ایم مودی کے انٹرویو ! ۔شکیل رشید

by قندیل

( ایڈیٹر ممبئی اردو نیوز )

اِن دنوں ملک کے وزیراعظم تھوک کے بھاؤ میں انٹرویو دے رہے ہیں ، لیکن کسی انٹرویو سے کوئی ’ خبر ‘ نکل کر سامنے نہیں آ رہی ہے ۔ معروف اینکر روش کمار کی مانیں تو پی ایم مودی جو باتیں اپنی ریلیوں میں کہہ رہے ہیں ، وہی باتیں ان کے ہر انٹرویو میں ہوتی ہیں ۔ روش کمار نے ایک دلچسپ بات کہی کہ تمام انٹرویو پڑھ لیں لگے گا بی جے پی کا منشور اخباروں نے شائع کر دیا ہے ۔ کسی انٹرویو میں پی ایم مودی سے پلٹ کر سوال نہیں کیا گیا ، یوں لگتا ہے جیسے سارے جواب پی ایم کے دفتر سے آگیے ہوں ! کہیں یہ سوال نہیں ہے کہ پی ایم نے کیوں الیکشن کے رُخ کو بھٹکانے کی کوشش کی ، کیوں انہوں نے منگل سوتر اور گھس پیٹھیے کی بات کی ، کیوں انہوں نے مسلم آبادی پر بات کی ؟ کسی انٹرویور نے یہ سوال نہیں پوچھا کہ جب کانگریس کے منثور میں منگل سوتر اور زیورات چھین کر مسلمانوں میں بانٹنے کی بات نہیں ہے ، تو انہوں نے کیوں ایسی بات کہی ؟ کسی نے بے روزگاری میں ہندوستان کے سب سے نیچے چلے جانے پر ، ہندوستانیوں کی آمدنی کم ہونے پر ، معیشت کے ڈانوا ڈول ہونے پر کوئی سوال نہیں کیا ، لیکن یہ ضرور کہا کہ ہندوستان آئندہ دنیا کی تیسری سب سے بڑی معیشت بننے جا رہا ہے ! سوالات پلوامہ پر نہیں تھے ، سابق گورنر جموں و کشمیر ستیہ پال ملک نے کیسے سنگین الزامات لگائے ہیں ! کسی نے کوئی سوال الیکٹورل بانڈ اور پی ایم کئیر فنڈ پر نہیں کیا ! ایک انٹرویو ’ نیوز – 18 ‘ کے لیے روبی کا لیاقت نے بھی لیا ہے ۔ انہوں نے غضب کے سوال کیے ہیں ، اور پی ایم نے غضب کے جواب دیے ہیں ! اس انٹرویو سے پتا چلتا ہے کہ پی ایم مودی ’ ہندو – مسلمان نہیں کرتے ‘، جی ہاں یہ دعویٰ پی ایم نے خود اپنے انٹرویو میں کیا ہے ! انہوں نے کہا ہے کہ وہ مسلمانوں سے محبت کی مارکیٹنگ نہیں کرتے ، اور جس دن وہ ہندو – مسلم کرنے لگیں گے سیاست چھوڑ دیں گے ! فارسی میں ایک ٖضرب المثل ہے ’ دَروغ گو را حافِظَہ نَہ باشَد ‘ یعنی جھوٹے کا حافظہ درست نہیں ہوتا ، اسے یاد نہیں رہتا کہ اس نے پہلے کیا کہا تھا ۔ لیکن لوگوں کو خوب یاد ہے کہ پی ایم نے کِسے ’ کتّے کا پلّا کہا تھا ‘ ، اور یہ بھی یاد ہے کہ انہوں نے کس فرقے کے ذریعے ووٹنگ کرنے کو ’ ووٹ جہاد ‘ کہا تھا ، گجرات میں تو انہوں نے باقاعدہ مسلمان لفظ کا استعمال کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ اپوزیشن مسلمانوں سے کہہ رہی ہے کہ ووٹ جہاد کریں ‘، اور لوگ یہ بھی نہیں بھولے ہیں کہ ۲۰۰۲ء کے فسادات کے بعد مودی نے جو اس وقت گجرات کے وزیراعلیٰ تھے مسلم فساد متاثرین کے کیمپ کو مدد دینے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ ان کی نظر میں یہ کیمپ ’ بچے پیدا کرنے کی فیکٹریاں ‘ تھے ! روبی کا لیاقت نے ان سے ایسا کوئی سوال نہیں کیا جس کا جواب دیتے ہوئے ان کو پسینہ آجائے ، ہر سوال ، پی ایم مودی کے لیے اپنی ’ صفائی ‘ پیش کرنے کے ایک ’ موقع ‘ جیسا تھا ۔ پی ایم کے ذریعے مسلمانوں کو ’ گھس پیٹھیے ‘ اور ’ زیدہ بچے پیدا کرنے والے ‘ انتہائی متنازعہ بیان پر ایک سوال تھا ، جس کا جواب وزیراعظم نے یوں دیا : ’’ یہ غلط بات ہے ، میں نے صرف مسلمانوں کی بات نہیں کی ، میں نے ہر غریب خاندان کی بات کہی ۔‘‘ کیا یہ سوال کا جواب ہے ؟ یقیناً نہیں ، اور اگر ہے بھی تو روبی کا لیاقت نے یہ کیوں نہیں پوچھا کہ کیا اس ملک کا ہر غریب خاندان گھس پیٹھیا اور زیادہ بچے پیدا کرنے والا ہے ؟ کن غریب خاندانوں کی بات پی ایم کر رہے تھے ؟ اور کم از کم یہ تو یاد دلا ہی دینا تھا کہ وہ سابق وزیراعظم من موہن سنگھ کے ایک بیان کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہے تھے کہ کہ ملک کے وسائل پر پہلا حق مسلمانوں کا ہوگا ، اور اگر کانگریس آئی تو منگل سوتر اور زیورات چھین کر انہیں دے دے گی جو گھس پیٹھیے ہیں ، اور زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں ۔ یہ اشارہ سیدھے مسلمانوں ہی کی سمت تو تھا ! لیکن روبیکا لیاقت کی طرح کے صحافی کہاں ایسے سوالات پوچھ سکتے ہیں ۔ پی ایم مودی نے مسلمانوں کے ساتھ عید کا تہوار منانے کی بات کی ، کہا کہ بہت سے مسلمان ان کے دوست ہیں ، ان کی یہ باتیں سن کر اچھا لگا ، اس لیے ان کو یہی سجھاؤ دینا ہے کہ آپ اب بھی مسلمانوں کے ساتھ تہوار منائیں ، انہیں دوست بنائیں ، ایک وزیراعظم کے طور پر آپ یہ سب کریں گے تو آپ کی راہ پر ملک کے لوگ چلیں گے ، اور دوریاں مٹ جائیں گی ۔ امید ہے آپ یہ کرنا نہ بھولیں گے ، کہ آپ کو بھولنے کی عادت ہے !

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like