Home نقدوتبصرہ پرویز شہر یار کی کہانیاں-مشرف عالم ذوقی

پرویز شہر یار کی کہانیاں-مشرف عالم ذوقی

by قندیل

 

’’ہوتا ہے شب وروز تماشہ میرے آگے۔‘‘
اس تماشائے تغیر میں روز ازل سے زندگی نئے نئے انقلابات سے گزرتی رہی ہے۔ اور اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اکیسویں صدی میں ہم اس مقام پر ہیں جہاں جدید سائنس وٹکنالوجی نے ہمیں ایک ایسی عظیم کائنات کا سفیر بنا دیا ہے، جہاں ایک طرف حقیقت ، معجزات اور فنٹاسی کا فرق مٹ چکا ہے اور دوسری جانب یہ انسان لا یعنیت اور طرح طرح کے بحران کا شکار ہے۔ یہ سوال لازمی ہے کہ ایک طرف یہ مہذب دنیا جدید سائنسی تقاضوں کے تحت مریخ میں بستیاں بسانے کے لیے فکرمند نظر آرہی ہے اوردوسری طرف ادب اور فکشن کے کاروبار میں اگر اس نئی تبدیل ہوتی دنیا کی آہٹ سنائی نہیں دے رہی تو یہ قصور کس کا ہے۔ اردو کا زیادہ تر فکشن اگر ابھی بھی مسلمانوں کے مسائل، پردہ، عورتوں کے مسائل اور موضوعات کی تاریک سرنگ سے باہر آکر نئی روشنی، عالمکاری اورذرائع ابلاغ کی اس وسیع تر ہوتی دنیا سے روبرو، وابستہ ہونے یا سوالات قائم کرنے کی کوشش نہیں کررہا ہے تو یہ کس کی غلطی ہے—؟ مشکل یہ کہ اردوتنقید کا نظام زیادہ تر ایسے انتہا پسند ناقدوں کے ہاتھ میں رہا جنہوں نے اپنی محدود روشنی سے شعروفکشن کی دنیا کو نئے انقلابات سے دوچار ہونے کا موقع نہیں دیا۔ جبکہ آپ ان کے علمی وادبی مقالات کا مطالعہ کریں تو دنیا کی تمام بڑی ادبی تحریکیں اور مغربی دانشوران کے اقوال زریں ان کے مقالے کا حصہ ہوتے ہیں۔ لیکن المیہ یہ کہ شعرو شاعری پر گفتگو ہوئی تو غالب ومیر سے آگے نکلنے کی جرأت نہ ہوئی۔ فکشن پر گفتگو ہو تو بات منٹو، بیدی، کرشن اورعصمت کے ’چار مینار‘ سے آگے نہیں بڑھتی ہے۔ شاعری ہو تو غالب ومیر کی مثال کافی جبکہ فیض، میراجی، مخدوم، مجاز، اختر شیرانی، جگر، فانی سب نے اپنی اپنی روایتیں قائم کیں اور اس کے بعد بھی عرفان صدیقی، زیب غوری سے لے کر نعمان شوق، فرحت احساس اور عالم خورشید تک اپنی اپنی مثالیں قائم کررہے ہیں لیکن ان پر گفتگو ہو توغالب و اقبال کا ذکر کرنا ہمارے نقادوں کے لیے ضروری ہوجاتا ہے۔ اسی طرح فکشن پر گفتگو ہو تو ہمارا نقاد منٹو سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں۔ جبکہ بلراج مینرا، قمر احسن، اکرام باگ، سریندر پرکاش، غیاث احمد گدی، اقبال مجید اور پاکستان کے بیشمار ناموں تک کئی کئی کہانیاں ایسی ہیں جہاں زوال پذیر معاشرہ سے لے کر نئے سماجی وتہذیبی ڈسکورس اور عوامل تک انسانی معاشرہ وارتقاء کی جو آہٹیں سنائی دیتی ہیں ان میں کسی اور کا حصہ نہیں— لیکن المیہ یہ کہ ابھی بھی ان افسانوں کے ذکر کے ساتھ منٹو اوربیدی کو یاد کرتے ہوئے ان کی اہمیت مسخ کردی جاتی ہے کہ شاید انہیں ابھی اور نروان یا روشنی کی ضرورت ہو— اس مقالے کا مقصد فکشن کی تنقید یا فکشن کی تعریف کے مقررہ ضابطوں سے انحراف نہیں، صرف یہ بتانا ہے کہ اگر مجھے پرویز شہر یار کی کہانیوں پر گفتگو کرنی ہے تو یہاں منٹو، بیدی اورکرشن چندر کے ذکر سے کوئی فائدہ نہیں— آپ ایک ’بت‘ کا قصیدہ پڑھتے ہوئے جائزہ لیتے ہیں تو اکثر دوسرے کی خوبیاں ایک بڑے برگد کے سایہ میں گم ہوجاتی ہیں۔ ہم میں سے ایسے فنکار جن میں اپنے عہد سے آنکھیں چار کرنے کی ہمت ہے، جو حالات حاضرہ سے باخبر ہیں اورعالمی پس منظر کے ساتھ ہی ترقی کے ہمہ جہتی سلسلوں پر بھی نظر ہے، اپنی وسعت فکر اورمطلوبہ نتائج سے اظہار وبیان میں سلیقہ اور مابعد جدید خیالات کو کہانی بنانے میں فوقیت حاصل ہے، پرویز شہر یار کا نام آسانی سے لیا جاسکتا ہے۔ ’شجر ممنوعہ کی چاہ میں‘ پرویز شہر یار کی کہانیوں کا تازہ مجموعہ ہے۔ یہاں ایک زوال پذیر معاشرہ سے الگ ان وجوہات پر غور وفکر کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی ہے جہاں حیران کرنے والی نئی دنیا کے تصورکے ساتھ جنسی آزادی، نکسلائٹ مومنٹ، دہشت گردی، لیو ان ریلیشن اور کنڈوم تہذیب کے اثرات پائے جاتے ہیں۔ یہاں سیاسی دہشت پسندی کے غبار آلود مناظر بھی ہیں، اندیشہ اور وسوسوں کی خوفناک حد تک پھیلی ہوئی دھند بھی… یہاں عالمی تاریخ کی لا متناہی لہروں میں گھر اہوا وہ معاشرہ بھی ہے، جو ترقی کے نعروں کے درمیان مشرق سے مغرب تک اجتماعی بے حسی کا شکار ہوچکا ہے۔ ایٹم بم، میزائلوں، نیو کلیائی ہتھیاروں کی ریس میں جہاں کوئی محفوظ نہیں مگر اس کے باوجود ایک نظام کی تبدیلی کے لیے کوئی موثر تدبیر نہیں— ایک قید خانہ جہاں طاقتور ممالک کے اپنے کھیل ہیں اور ایک ہم ہیں کہ اپنی آزاد اور بے حس دنیا میں چند خوشیوں کے عوض خود احتسابی سے بھی خوف کھاتے ہیں۔ شعور وفہم کو جھنجھوڑنے والے ہزاروں سوالوں کے درمیان ہمارا افسانہ نگار حیرت وخوف کا شکار کہ سائنس و ٹکنالوجی کے حیرت انگیز کارناموں، موت پر فاتح ہونے کی دلیلوں کے باوجود ہمارا سماجی معاشرہ جس تاریک کنویں کے تہہ خانے میں قید ہے، اس سے باہر نکلنے والے راستوں پر غور کیوں نہیں کیا جارہا ہے—؟ یہ خوفناک اشارے، یہ الجھے الجھے سوالات پرویز کی کہانیوں کا حاصل ہیں اور کم وبیش ان کی ہر کہانی ایسی ہی جنون خیز لہروں اور مبہم اندیشوں اور الجھے الجھے سوالات سے روبرو ہوتی نظر آتی ہے۔
’لیو ان ریلیشن سے پرے‘ کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو۔
’’بھوک کی جبلت نے ان دونوں کو ایک کروڑ بیس لاکھ کی گنجان آبادی والے بڑے شہر میں ایک چھت کے نیچے ایک ہی کمرے کے اندر بلکہ ایک ہی بستر پرسونے کے لیے مجبورکردیا تھا۔ کہتے ہیں کہ بھوک چاہے ناف کے اوپر کی ہو یا ناف کے نیچے کی… بھوک تو بھوک ہوتی ہے، جب لگتی ہے تو آدمی باغی ہوجاتا ہے۔ تہذیب وثقافت کا سوال تو بہت بعد میں آتا ہے۔ آگ چاہے پیٹ کی ہو یا جسم کی سب سے پہلے اسے بجھانا ضروری ہوجاتا ہے۔‘‘
یہاں دلی کا ذکر ہے جس کی آبادی ایک کروڑ بیس لاکھ سے بھی آگے بڑھ چکی ہے۔ کہانی کے آغاز میںہی دلی کی بڑھتی آبادی کے ساتھ بھوک کا ذکر اس لیے بھی ضروری تھا کہ اس بھوک نے دلی کی تیزی سے بدلتی ہوئی تہذیب میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ مصنف ان تبدیلیوں کو قریب سے دیکھ رہا ہے۔ لاکھوں کی تعداد میں ہر روز یہاں آنے والوں کا قافلہ ہوتا ہے اور وہ بھی آتے ہیں جو چھوٹے شہروں کی زندگی کا بوجھ اٹھاتے ہوئے یہاں آتو جاتے ہیں مگر یہاں آنے کے بعد نئی پرانی تہذیب کی کشمکش میں الجھ جاتے ہیں۔ لیکن زندگی، روزگار اور کیریئر، آزادی کے بند دروازے کھول دیتا ہے۔ یہی سیاہ فام شمبھوناتھ کے ساتھ ہوا۔ اور نازک اندام پد مجا کے ساتھ بھی جو کیرل کے کیتھولک کرسچن فیملی سے تعلق رکھتی تھی۔ آج کی دلی، جہاں عصمت دری کے تیزی سے بڑھتے واقعات روز کا حصہ ہیں، یہ خوف پدمجا کو بھی ہے اور اس کے لیے اسے ایک مرد کی ضرورت ہے۔ ایک ایسا مرد جو اسے تحفظ دے سکے۔ سوال یہ نہیں کہ سیاہ فام شمبھو اسے تحفظ دیتا ہے یا نہیں۔ سوال یہ بھی نہیں کہ کہاں کیرل سے آئی ہوئی نازک اندام حسینہ اور بہار جیسے کسی علاقہ سے آیا ہوا شمبھو— لیکن بڑے شہروں کی اپنی زندگی اور اپنی تہذیب ہوتی ہے۔ یہاں تہذیبوں کے تصادم میں جس شئے کی حفاظت کرنی ہے، وہ ہے زندگی— وہ زندگی جو خوابوں کے خاردار راستوں سے گزر کر ان دونوں کو دارالسلطنت میں لے آئی ہے۔ اور یہاں لکشمی نگر سے سائوتھ ایکس تک مختلف زندگیوں کے راستے اور کاروبار ہیں۔ نوجوانوں کے لیے گھٹن اور قید سے الگ ایک آزاد معاشرہ ہے— ویلنٹائن ڈے ہے اور محبتوں کے نئے رین بسیرے ہیں۔ لیکن یہاں وہ خوفناک دنیا بھی ہے جسے نہ محبت راس آتی ہے اور نہ ویلنٹائن ڈے کا دن۔ شمبھو اور پدمجا کی مجبوری تھی کہ وہ اکیلے فلیٹ کا کرایہ دینے سے مجبور تھے اور در اصل یہ مجبوریاں بھی لیو ان ریلیشن یا بغیر شادی کے ایک ساتھ رہنے والے فلسفوں کو جنم دیتی ہیں۔ اور اس تنہا دنیا میں اگر ویلنٹائن ڈے اور محبتوں کا بسیرا نہ ہوتو پھر زندگی ٹھہری ہوئی ندی کی طرح ہوجاتی ہے۔ تین برس بعد جب ایک ساتھ رہتے ہوئے، پدمجا اچانک باہر جانے کا فیصلہ کرتی ہے تو شمبھو لرز جاتا ہے۔ لیکن ایک قیامت خاموشی سے، پدمجا کے وجود سے بھی گزر جاتی ہے کہ شمبھو کے بغیر کی زندگی…؟ اور وہ فیصلہ کرتی ہے کہ وہ نیویارک نہیں جائے گی۔ وہ اسی اسٹوپڈ شمبھو کے ساتھ رہے گی۔
فکشن کی دنیا ہماری عام دنیائوں سے ان معاملوں میں مختلف ہے کہ واقعات کو ہم تنگ نظری یا مذہب کی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے۔ نئی ثقافت اور تہذیب کے بطن سے پیدا ہوئی سچائیوں کو محض پرانی قدروں، روایات کی بنا پر خارج نہیں کیا جاسکتا۔ سماج ومعاشرہ کی تشکیل نو میں اب اخلاقی پستی اور تہذیبوں کے زوال پرگفتگو محدود کردینے سے اپنا ہی نقصان ہے۔ انٹرنیٹ، فیس بک، گوگل سے برامدہ نئی دنیا خلا سے سیاروں تک اور نئی آبادیوں کی کھوج تک مسلسل نئی نئی دریافتوں اور نئے نئے کلچر سے گزر رہی ہے۔ عام زندگی سے فلموں اور ڈراموں تک ہمارا واسطہ نئے نئے سوالوں سے ہے۔ مذہب اور معاشرہ کے تحفظ کے طور پر بھی، اب ان سوالوں سے دور نہیں جایا جاسکتا۔ اور اسی لیے پرویزشہر یار شجر ممنوعہ کی چاہ، لیو ان ریلیشن سے پرے، سہاگ کا خون جیسی کہانیوں میں آزاد ہوتی نسل پرغور کرتے ہوئے ضروری سوالیہ نشان چھوڑ جاتے ہیں۔ مثال کے لیے، شجر ممنوعہ کی چاہ، میں وہ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا ازدواج کی عارضی ادلا بدلی سے فرسودہ رشتوں میں نئی بہار آجاتی ہے—؟ کیا اس سے پرانے رشتوں کی جڑیں مضبوط ہونے میں مدد ملتی ہے؟ کیا اس سے محبت کے بوسیدہ شجر پر نئی کونپلیں آجاتی ہیں؟ سوال ہے کہ وہ حادثے جو ہماری نئی دنیا یا تہذیب کا حصہ بنتے جارہے ہیں، کیا اس سے فرار ممکن ہے—؟ بڑے شہروں میں کثیر جنسی سرگرمیوں کی آماجگاہ ایسے کئی کلب ہیں جہاں ازدواج کی ادلا بدلی کا کھیل چلتا رہتا ہے۔ سوال یہ نہیں کہ محبت کے بوسیدہ شجر میں نئی کونپلیں پھوٹیں گی یا نہیں، سوال یہ ہے کہ نئی تہذیب، بہت سی مجبوریاں اور گلوبلائزیشن نے یہ تحفے ہمیں دیے ہیں۔ کیا محض انکاری سے یہ کلب بند ہوجائیں گے؟ میں ان آزادیوں کی یا جنسی بے راہ روی کی وکالت نہیں کررہا ، لیکن موجودہ سماج ومعاشرہ (مکمل نہ سہی) اگر اس نئی تہذیب کا حصہ بن رہا ہے تو ہمیں ان سوالوں سے گزرنے اورایک دنیا کے تجربوں کو دیکھنے اور پرکھنے کا حق بھی حاصل ہونا چاہئے۔ شجر ممنوعہ کی چاہ میں ایک بڑے مسئلہ کو اٹھاتے ہوئے پرویز کے قلم کا جھکائو مذہب کی طرف ہوگیا۔ یہاں وہ پندرہ بیس برسوں میں تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا، نو آبادیاتی نظام، ملٹی نیشنل کمپنیز اور گلو بلائزیشن کے پھیلتے بڑھتے دائرے کو لے کر بھی نئے سوال قائم کرسکتے تھے۔ سہاگ کا خون، میں یہی کہانی دیویانی کے ساتھ دہرائی گئی۔ اقتباسات ملاحظہ ہوں۔
’’اچانک، اس کی پچیسویں سالگرہ کے موقع پر اسے امید کی ایک کرن سی نظر آئی جب اس کے شوہر نے ضلع گڑگائوں میں ایک تانترک بابا کے پاس جارہے تھے۔ ’’تانترک بابا بہت پہنچے ہوئے منی تھے۔‘‘ ایسا لوگ کہتے ہیں۔ یہ بات دیویانی کے شوہر نے اسے بتائی تھی۔ تانترک بابا اپنی تپسیہ اور سادھنیہ سے رات کی رات عورت کی گود ہری کردیتے تھے۔ یہ سب سن کر دیویانی بہت مسرور ہو اٹھی تھی۔‘‘
lll
’’قصہ دراصل یہ تھا کہ دیویانی کے شوہر پردیپ پراشر نے انٹرنیٹ پر ایک سوپنگ کا معاہدہ کیا تھا۔ اس معاہدہ کے تحت اسے گڑگائوں کے اس شخص کے گھر ایک شب کے لیے تبادلہ ازدواج کرنا تھا۔ ہوتے ہوتے انتظار کے لمحات آخر ختم ہوئے۔‘‘
ایک اور اقتباس دیکھئے۔
’’جب ایک قیامت سے وہ گزر چکی تو تانترک بابا نے ایک لخت اس کے ہاتھ پائوں کھول دیئے۔تبھی دیویانی نے گھنٹوں جمع ہونے والا بلغم نکال کے اس کے منہ پر تھوک دیا تھا…اس کے بعد بجلی کی سی سرعت سے وہ اٹھ کر اپنے شوہر کے پاس گئی تھی جو ڈرائنگ روم میں تانترک کی کھوسٹ بیوی کے ساتھ گھوڑے بیچ کر اطمینان سے سورہا تھا۔تبھی دیویانی نے خنجر اٹھایا اوراس کے ننگے بدن کو آنِ واحد میںگود کے رکھ دیا تھا۔‘‘
دیویانی کو خنجر اٹھانے کی ضرورت کیوں پڑی۔؟ خنجر سے کون ہلاک ہوا؟ ایک تانترک، اسکا شوہر یا وہ رویہ؟ جو ایک محدود طبقہ کی فکر بنتی جارہی ہے۔ کیا محض دیویانی کے خنجر اٹھانے سے مسئلہ ختم ہوجائے گا؟ پرویز شہریار کی خوبی ہے کہ وہ ان مسائل کو اپنی کہانیوں کا حصہ بناتے ہیں جو سرعت سے ہمارے معاشرے یا ہماری تہذیب میں داخل ہونے کی کوشش کررہے ہیں۔ مگر سوالوں کی جگہ ان دو کہانیوں میں یا تو وہ مذہب کا سہارا لیتے ہیں یا پھر اس لعنت کو جڑ سے ختم کردینا چاہتے ہیں۔ (دیویانی نے خنجر اٹھایا)— ابھی ان دردناک حقیقتوں سے گزرنے کے لیے، ٹھہر کر ادراک و شعور کی روشنی میں اس نظام کے جبر کو سمجھنے کی ضرورت تھی۔ جن کی وجہ سے ایسے افکار وخیالات ونظریات ہماری نئی نسل کے لیے فکر کا باعث ہورہے ہیں۔ زندگی کے مختلف النوع تجربات کو سامنے لانے سے زیادہ ضروری ہے، بڑے سوال کا حصہ بننا اور اس کے لیے جذباتیت اور فوری نتائج سے گریز ضروری ہے۔ لیکن مجھے خوشی ہے کہ ان دو کہانیوں میں بھی وہ ان مسائل سے گزرے، جن پر دروازے ہمارے دوسرے ادیب دوستوں نے بند کر رکھے ہیں— ’لیو ان ریلیشن شپ سے پرے‘ میں بغیر فرسودہ بحث کے وہ جس خوبصورتی کے ساتھ گزر گئے، یہ سلوک ان دو کہانیوں کے ساتھ قائم نہیں رہ سکا۔ پرویز کو کہانی کے انجام کی پرواہ نہیں کرنی ہے کیوں کہ وقار عظیم کے وقت سے چلتی ہوئی کہانی کی تعریفیں بھی وقت کے ساتھ بدل چکی ہیں۔ ایک سفاک دنیا، ایک بے رحم نظام ہمارے سامنے ہے اور فکشن کے لیے کسی چونکانے والے انجام یا آغاز کی اب کوئی ضرورت نہیں۔
ان کہانیوں کے علاوہ جرأت اورحوصلے کے ساتھ پرویز نے نکسل مومنٹ، سیلوا جڈوم اور دہشت گردانہ واقعات کو اپنی کہانیوں کا حصہ بنایا ہے۔ میں خصوصی طور پر ان کی کہانی سیلوا جڈوم کا ذکر کرنا چاہوں گا— ہم میں سے بیشتر شاید سیلوا جڈوم کے نام سے ہی واقف نہ ہوں۔ پرویز حالات حاضرہ پر گہری نظر اور گرفت رکھتے ہیں اور اسی لیے انہوں نے آدی واسیوں میں بڑھتی ہوئی غربت اور نا انصافیوں کو لے کر ہونے والی بغاوت اور سیلوا جڈوم سے وابستہ کرداروں کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ سیلوا جڈوم کے بارے میں عام رائے ہے کہ آدی واسیوں کے درمیان حکومت نے بھاڑے کے لوگوں کو ہتھیار تھما دیئے۔ مقصد یہ ہے کہ آپس میں ہی لڑ کر کٹ مر جائو۔ یہاں یہ سوال بھی ضروری ہے کہ نکسلیوں کی پیداوار، کس سسٹم نے کی—؟ بہت پہلے اس موضوع پرخواجہ احمد عباس نے ایک فلم بنائی تھی۔ نکسلائٹ۔ اور اس فلم کا خاتمہ اس بات پر ہوا تھا کہ موجودہ سسٹم کی خرابیوں سے یہ نکسلائٹ بار بار اس زمین پر پیدا ہوتے رہیں گے۔ اگر ہمارے ملک کے یہ شہری اپنی زمین، اپنا جنگل، اپنا علاقہ، اپنا حق چاہتے ہیں تو آخر کیا مجبوری ہے کہ انہیں ہاتھوں میں ہتھیار اٹھانا پڑتا ہے—؟ چھتیس گڑھ کے بستر جیسے علاقوں میں اگر باغیوں کی تعداد بڑھی ہے تو اس کی وجہ کیا ہے؟ اس لڑائی کا خوفناک پہلو یہ ہے کہ دارالسلطنت میں بیٹھ کر اس لڑائی پر سیاست کی جاتی ہے۔ بستر میں مہندر ورما کے قتل کے بعد سیلوا جڈوم کو لے کر سیاست میں اور تیزی آگئی تھی۔ مہندر ورما یہ تسلیم کرتے تھے کہ نکسلیوں کی طاقت ان کی بندوق میں نہیں، نیٹ ورکنگ میں ہے۔ سیلوا جڈوم نکسلیوں کی اس نیٹ ورکنگ کو توڑنے کی کوشش کررہا تھا۔ دراصل اسی نیٹ ورکنگ نے تاریخ کو شمال، آسام، چھتیس گڑھ اور دہشت گردی کو نئے ہتھیار دیے۔ حکومت کی ناکامیاں دراصل ایسے سسٹم کی وجہ بنتی ہیں۔ پرویز نے کہانی کے آغاز میں اس سسٹم کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔
’’حیرت کی بات تو یہ تھی کہ اس طوائف الملوکی اورخانہ جنگی کو پھیلانے والے مشن کو سیلواجڈوم کا نام دیا گیا تھا جس کے معنی وہاں کی مقامی گونڈی بولی میں امن مشن کے ہوتے ہیں۔ جب ملک کے چند بہت ہی اہم غیر سرکاری تنظیموں (NGOs) نے مل کر اس کے خلاف ایک زبردست تحریک چلائی تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سپریم کورٹ نے آخر کار ریاستی حکومتوں کے اس بے تکے معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے اسے فی الفور ختم کرنے کا حکم دے دیاتھا۔‘‘
اور اسی لیے مہندر ورما کے قتل پر یہ بھی کہا گیا کہ دلی کی سیاست جیت گئی اور سیلوا جڈوم (امن مشن) کی ہتیا ہوگئی۔نکسلائٹ موومنٹ اور اس سے وابستہ لوگوں کو محض مجرم گرداننا صحیح نہیں ہوگا۔ ابھی دو تین برس قبل مشہور صحافی اور ناول نگار ارون دھتی رائے نے ایسے لوگوں سے ملاقات کی تھی جو جنگل کی ویرانیوں میں حکومت اور پولس کی دہشت کے درمیان زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ ان میں کافی پڑھے لکھے لوگ بھی ہیں۔ کم عمر کی لڑکیاں بھی ہیں۔ ان کی پوری زندگی جنگل میں ہی آنکھ مچولی کھیلتے ہوئے گزر جاتی ہے۔ حکومت اور پولیس انکا محاصرہ کرنے میں اکثر ناکام رہتی ہے۔ اور خوف ودہشت کے سائے میں اپنے حقوق کو حاصل کرنے کے لیے اکثر فوجی اور حکمرانوں کی گاڑیوں پر حملہ بول دیتے ہیں۔ یہ مسئلہ نازک بھی ہے اور سنگین بھی اور دور دور تک اس مسئلہ کا حل نکالنے کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔ مجھے خوشی ہے کہ پرویز شہریار نے اس موومنٹ اور موومنٹ سے وابستہ افراد اور ان کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کی ہے۔ بیہڑ اور جنگلوں میں رہنے والوں کو مافیائوں سے خطرہ ہے جو ان کا جنگل چھین رہے ہیں۔ جنگل ایک علامت ہے جس نے صدیوں سے ان آدی واسیوں کو پناہ دے رکھی ہے۔ پرویز شہر یار نے ایک ماہر کیمرہ مین کی طرح ان آدی واسیوں کی زندگی میں جھانکنے اور اترنے کی کوشش کی ہے۔ اب کہانی کی یہ شروعات ملاحظہ ہو۔
’’سپریم کورٹ کا ایک فرمان جاری ہوا تھا، جس کے مطابق چھتیس گڑھ کی ریاستی حکومت مائو نوازوں سے نمٹنے کے لیے اسپیشل پولیس آفیسر کے نام پر ان پڑھ اور معصوم آدی واسیوں کے ہاتھوں میں ہتھیار دے کر انہیں مائو نوازوں کے خلاف جنگ میں جھونک رہی تھی جو قانون کی نظر میں جرم تھا اور اس سے حقوق انسانی کی سخت خلاف ورزی ہورہی تھی۔‘‘
مائو نوازوں کے خلاف حکومت کی مہم میں نہتے آدمی واسی نوجوان بڑی تعداد میں مارے جارہے تھے۔ یہ کہانی ’میں‘ سے شروع ہوتی ہے۔ یہ میں دراصل افسانہ نگار ہی ہے جو پہاڑ، جنگل اور آدی واسیوں سے واقف ہے۔ افسانہ نگار ایک بار پھر ان علاقوں کی ڈسکوری کے لیے نکلتا ہے۔یہاں پرویز نے کمال کی عکاسی کی ہے۔
’’آنکھ جب کھلی تو ڈھک ڈھک… ڈھک ڈھک… کی مسلسل آواز آرہی تھی۔ شہر کے لوگ سورج چڑھنے کے بعد آرام سے بستر استراحت سے اٹھنے کے عادی ہوتے ہیں۔ لیکن یہاں تو معاملہ بالکل اس کے برعکس تھا۔ ڈھک ڈھک، ڈھک ڈھک کی ایک اکتا دینے والی آواز سے آنکھ کھل گئی۔ پہلے تو کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ الہی یہ کیا ماجرہ ہے؟ پھر صبح ہوئی تو تجسس اس قدر بڑھ گیا کہ متصل مکان کے آنگن میں آنکھیں ملتا ہوا جا کر اکڑوں بیٹھ گیا، جہاں سے متواتر ایسی غیر مانوس سی آواز آرہی تھی۔ معلوم ہوا کہ منہ اندھیرے اٹھ کر ڈھیکی میں دھان کوٹا جارہا ہے۔ اس کٹے ہوئے چاول کو بانس کے سوپ میں چن پھٹک کر اندھیرے میں ہی پکانے کے لیے مٹی کی ہانڈی میں لکڑی کے چولہے پر چڑھا دیا جاتا ہے۔ مزدور کسان آگ میں بھنی ہوئی سوکھی مرچ اور نمک کے ساتھ اس لال چاول کے بھات کو پیٹ بھر کے کھانے کے بعد اپنے اپنے کام پر نکل جاتے ہیں۔ مرد مزدوری کرنے نکل جاتے ہیں۔ لڑکے اسکول چلے جاتے ہیں۔ جنہیں کرسچن مشنری کے اسکولوں میں نہیں جانا ہوتا ہے وہ مویشیوں کو چرانے کی غرض سے گھر سے نکل جاتے ہیں اور عورتیں لکڑیاں کاٹ کر لانے کے لیے پہاڑوں کی طرف رخ کرتی ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں لوہے کا چاپڑ، مونج کی رسی اور کپڑے کا بیڑا ہوتا ہے۔ صبح گھر سے ایک قطار میں یہ عورتیں نکل جاتی ہیں راستے بھر کوئی حوصلہ افزا اور محنت کی تائید میں کوئی لوک گیت گاتی ہوئی پہاڑیوں پر چڑھ جاتی ہیں۔ اور دن ڈھلنے سے پہلے پہلے واپس اپنے گھروں کو لوٹ آتی ہیں جب یہ واپس آتی ہیں تو دو ڈھائی من لکڑی کا گٹھرا ان کے سروں پر ہوتا ہے، جنہوں سوکھنے کے بعد ان کے مرد بیل گاڑیوں پر لاد کے شہر لے جاتے ہیں اور انہیں بیچ کر واپسی میں گھر کے لیے روز مرہ کے سودا سلف خرید کرلیتے آتے ہیں۔ شام تک چرواہا اسکولوں سے بچے اور چراگاہوں سے مویشی بھی گھاس چرکے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ آتے ہیں۔ ‘‘
مندرجہ بالا اقتباس سے آدی واسیوں کی جدوجہد سے پر زندگی کو سمجھا جاسکتا ہے۔ کہانی میں ایسی بہت سی جزئیات شامل ہیں جن سے آدی واسی کلچر کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ مصنف کو اس سفر میں ’میں‘ اونگا کی یاد آتی ہے۔ اونگا جس کے پاس غیر معمولی جادوئی طاقت تھی۔ اونگا میں انسانی ہمدری کوٹ کوٹ کے بھری تھی۔ اونگا سے پہلی ملاقات ہوئی تو اس کے پاس فزکس کی ایک کتاب تھی۔ وہ نوکری کرنا چاہتا تھا مگر اس سچ سے واقف تھا کہ اسے نوکری نہیں ملے گی۔ اونگا کو نوکری نہیں ملی اور وہ سیلوا جڈوم کا ایک حصہ بن گیا۔ جنگل میں مافیائوں کا قبضہ تھا۔ آدی واسی اور مافیائوں کے درمیان اکثر گولیوں اور تیروں کا تبادلہ ہوتا رہتا تھا۔ اور اسی لیے امن مشن کے نام پر پولیس میں پر مانینٹ بھرتی کا جھانسہ دے کر معصوم آدی واسیوں کا ایک دستہ تیار کیا گیا اور انہیں مائو نوازوں کے خلاف جنگ میں جھونک دیاگیا۔ لیکن اونگا اس بات سے واقف تھا کہ۔
’’کھدان مافیا ہمیں جینے نہیں دیں گے۔‘‘ کچھ توقف کے بعد اس نے کہا۔ ’’پولیس ہمیں مرنے نہیں دے گی۔‘‘ ’’ہم نے ان سے بھی دشمنی مول لی ہے۔‘‘ مائو وادی بھی ہم سے دشمنی نکلا لیں گے۔ کیونکہ ہم میں سے زیادہ تر ایسے نوجوان ہیں جو مائو وادی سنگھٹن چھوڑ کے سیلوا جڈوم بنے ہیں۔ انہیں ہم سے خطرہ ہے وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے اشارے پر ہی ان کے خفیہ ٹھکانوں پر چھاپے مارے گئے تھے اور ہزاروں مائو وادیوں کی اب تک جانیں جا چکی ہیں۔ پولیس ہم سے مائو وادیوں کے خفیہ ٹھکانوں کے بارے میں پوچھے گی اور مائو وادی سمجھیں گے کہ ہم پولیس کے مخبر ہیں۔‘‘
آپ غور کریں تو یہ مکمل منظرنامہ غربت وافلاس کی مار سہتی ہوئی اس نسل کا ہے، جو جنگلوں کی ویرانیوں میں قید ہیں۔ ایک وہ بھی ہیں جو ہتھیار اٹھا کر اس سسٹم کے خلاف تو لڑ رہے ہیں مگر آہستہ آہستہ یہ دہشت گردی ان کے ماضی وحال ومستقبل کا حصہ بن جاتی ہے۔ آزادی کے بعد بھی جھار کھنڈ سے چھتیس گڑھ تک نکسلیوں کے مسائل پر حکومت نے کبھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا۔ ہاں حکومتیں ان کی بغاوت کو دبانے کے لیے، ان کے اپنے گھر سے ہی باغیوں کی جماعت پیدا کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔ اور یہی اونگا کے ساتھ ہوا۔ اونگا کے پاس جنگل بھی تھا اور سائنس کی کتاب بھی— لیکن نہ جنگل اس کا ہوا اور نہ سائنس کی کتاب کام آئی۔ بندوق سے نکلی ہوئی ایک گولی نے ایک آدی واسی نوجوان کو ڈھیر کردیا— سوال یہ نہیں کہ اونگا کیوں مارا گیا؟ سوال یہ ہے کہ کیا ناپاک سیاست کے جلوے مستقبل میں ایسے ’اونگائوں‘ کو پیدا نہیں کریں گے؟ فکشن نگار بہتر طور پر مسائل کی مختلف صورتوں سے گزرتا ہے اور سوال قائم کرتا ہے۔ پرویز شہریار نے آدی واسی زندگی کی خوبصورت عکاسی کے ساتھ آدی واسیوں کے مسائل کو سمجھنے کی بھی کامیاب کوشش کی ہے۔
کہانی کے آخر میں ڈھابہ میں کھانا کھاتے ہوئے میں کی ملاقات ایک پراسرار شخص سے ہوتی ہے جو خود کو پروفیسر بتاتا ہے اور اس کے سگریٹ پر چائنیز میں کچھ لکھا ہوا ہوتا ہے۔ ضلع بستر کے دور دراز علاقے میں واقع ایک چھوٹے سے گائوں میں چین کا سگریٹ کہاں سے آگیا؟ یہ گتھی اس وقت بھی نہیں سلجھی جب اونگا کے مارے جانے کی خبر آتی ہے۔ افسانہ نگار جہاں نکسلائٹ مومینٹ، حکومت کے طور طریقوں اور سیلوا جڈوم میں شامل ہوئے معصوم آدی واسیوں کا ذکر کرتا ہے، وہیں میڈ ان چائنا سگریٹ کا ذکر اس بحران کی طرف اشارہ کردیتا ہے کہ بہت کچھ باہر سے اسپونسر ہورہا ہے۔ اور ایسا نہیں ہے کہ حکومتیں ان حقیقتوں سے واقف نہیں۔ لیکن سیاسی جماعتوں اور سیاست کے ٹکرائو میں کسی کی جان جارہی ہے تو وہ اونگا جیسے معصوم ہیں اور ان معصوموں کی خبر لینے والا کوئی نہیں۔
انسانی زندگی کے مصائب اور محرومیوں کی کہانیاں خلق کرنے والے پرویز شہر یار نے کم ہی لکھا ہے لیکن اس کے باوجود ان کی کہانیوں میں حالات حاضرہ کے تعاقب کے ساتھ نئی دنیا اور نئے مسائل کو سمجھنے اور پرکھنے کی آزادی نظر آتی ہے۔ کسی بھی فنکار کے پاس زندہ رہنے کے لیے کئی شاہکار نہیں ہوتے۔ کہانی کار عموماً اپنی دو ایک تخلیق سے ہی جانا جاتا ہے۔ پرویز شہر یار نے سیلوا جڈوم اور لیو ان ریلیشن سے پرے، لکھ کر اپنا نام مضبوطی سے ہندوستان کے موجودہ اہم فکشن نگاروں میں درج کرالیا ہے۔ جب بھی موجود ہندوستانی اردو فکشن کا ذکر آئے گا، ان دو کہانیوں کا ذکر بھی آئے گا۔ پرویز شہر یار ایسے فنکار ہیں جن کی سوچ کا دائرہ وسیع ہے۔ مجھے یقین ہے، اکیسویں صدی کے تماشائے تغیر اور نئے انقلاب کے بطن سے، مستقبل میں ان کے قلم سے اور بھی بڑی کہانیاں سامنے آئیں گی۔ ابھی انہیں اپنے ہی دائروں کو توڑنا ہے۔ نئی دنیا کے تصور اور نئے فلسفوں کو رقم کرتے ہوئے بغیر کسی بندش اور دبائو کے، اپنی ذاتی آزادی کا اعلان بھی کرنا ہے۔ کیونکہ ادیب مبلغ نہیں ہوتا اور مذہبی راہنما بھی نہیں۔

You may also like

1 comment

ڈاکٹر محمد موصوف احمد 5 اکتوبر, 2020 - 14:49

جانے پہچانے لوگ ،، پر تبصرہ پڑھا عمدہ تبصرہ ہے ۔سلمان عبدالصمد نۓ لکھاری میں پختہ کار ہیں ۔صفدر امام قادری بلا شبہ جامع علوم و ادب اردو ہیں وہ جس فن میں طبع آزمائ کرتے ہیں اس فن کے ساتھ انصاف اور معروضیت سے کام لیتے ہیں ۔جانے پہچانے لوگ انکے خاکوں کا مجموعہ ہے اس مجموعہ میں انھوں جن ادیبوں اور شاعروں ۔۔کا ادبی ،سیاسی اور سماجی نقشہ قاری کے سامنے پیش کیاہےوہ معروضی حقیقت کا آئینہ ہے۔”جانے پہچانے لوگ ” کتاب کی مرتبہ کو عمدہ ترتیب وتزئین اور اشاعت کے لیۓ مبارک و تہنیت۔نیز اس کتاب پر عمدہ مضمون لکھنے والے جناب سلمان عبد الصمد کو تہنیت نامہ
موصوف احمد۔

Leave a Comment