دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اپنے وطنِ عزیز ہندوستان میں پارلیامانی انتخابات مرحلہ وار جاری ہیں اور اب تک چار مرحلوں کے اختتام کے بعد طرح طرح کی قیاس آرائیوں کا بازار گرم ہے۔ایک طرف ہندوستانی انتخابات پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین کا خیال ہے کہ اس بار حکمراں جماعت کے لئے راستہ آسان نہیں ہے تو دوسری طرف اپوزیشن اتحاد پُر امید ہے کہ مرکز میں ’’انڈیا ‘‘ اتحاد کی حکومت تشکیل پائے گی۔ظاہر ہے کہ 4؍ جون تک اس طرح کی قیاس آرائیاں ہوتی رہیں گی اور حکمراں جماعت کی طرف سے حتی المقدور کوشش کی جائے گی کہ وہ حکومت سے بے دخل نہ ہو اور اپوزیشن اپنی پوری قوت وحکمت عملی سے حکمراں جماعت کو حکومت سازی سے روکنے کی کوشش کرے گی۔جمہوریت میں انتخابات کو غیر معمولی اہمیت دی گئی ہے کہ اسی کی بنیاد پر کسی بھی سیاسی جماعت کو حکومت پر قابض ہونے کا موقع ملتا ہے اور کسی سیاسی جماعت کو حکومت چھوڑنی پڑتی ہے ۔لیکن اس بار کا پارلیامانی انتخاب کئی معنوں میں ہماری جمہوریت کی روح کو مجروح کرنے والا ثابت ہوا ہے اور دنیا میں ہمارے ملک کی جو شبیہ تھی وہ بھی مسخ ہوئی ہے ۔کیوں کہ عالمی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ کسی جمہوری ملک کے منتخب عوامی نمائندہ اپنے ہی ملک کے ایک بڑے طبقے کے خلاف زہر فشانی کر رہا ہو ۔واضح ہو کہ جرمنی میں ہٹلر نے اگر یہودیوں کے خلاف جرمنی کی عوام کو مشتعل کیا تھا اور نفرت انگیز اقدام اٹھائے تھے تو وہ ایک آمر تھا کہ ہٹلر جمہوری نظام کے ذریعہ منتخب لیڈر نہیں تھا۔ لیکن ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی جمہوری طریقے سے منتخب عوامی نمائندہ ہیں اور آئین کے مطابق وہ اس ملک کے وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں اس لئے وزیر اعظم کی حیثیت سے ان کی آئینی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام شہریوں کے تئیں کسی طرح کے ذہنی تعصبات وتحفظات کا مظاہرہ نہیں کریں۔مگر افسوس صد افسوس کہ پہلے مرحلے کی ووٹنگ کے بعد وہ مسلسل ملک کی ایک بڑی اقلیت مسلمانوں کے خلاف اکثریت طبقے کے ذہن میں جس طرح کی نفرت پیدا کر رہے ہیں اور انہیں مشتعل کر رہے ہیں وہ کسی طوربھی ایک وزیر اعظم کے لئے مناسب نہیں ہے ۔ہمارے وزیر اعظم شاید یہ بھول گئے ہیں کہ اس ملک میں ہزارو ں سال سے مسلمان اکثریت طبقے کے ساتھ مل جل کر رہ رہے ہیں اور ملک کی ترقی میں ان کی بھی حصہ داری ہے اور جمہوریت کی پائداری میں مسلمانوں کا بھی خون پسینہ شامل ہے ۔سلام کیجئے اس ملک کی تکثیریت اور اکثریت طبقے کے فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے علم برداروں کو، کہ ملک کی اکثریت نے وزیر اعظم کی نفرت اور اشتعال انگیز صدا کو صدا بہ صحرا ثابت کردیاہے اور قومی سطح پر ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی بر قرار ہے بلکہ ہمارے وزیر اعظم کا تعلق جس پریوار سے ہے اس کے بھی مٹھی بھر ارکان ہی وزیر اعظم کی طرح زہر فشانی کر رہے ہیں اور ان کے پریوار کی اکثریت خامو ش ہے۔ظاہر ہے کہ ہمارے وزیر اعظم اپنی دس سالہ حکومت کی کارکردگی کی بنیاد پر عوام سے ووٹ لینا نہیں چاہتے۔
اگرچہ وہ جمہوری طریقے سے اپنی کارکردگی کو لے کر عوام سے ووٹ مانگ سکتے تھے اور ممکن ہے کہ اس دس سال میں ملک میں جس طرح کی فضا بنی ہے تو ان کے لئے راستہ بھی ہموار ہو سکتا تھا۔ لیکن انہوں نے اپنے آزمودہ نسخہ یعنی مسلمانوں کو نشانہ بنا کر اکثریت طبقے کے اندر جوش بھرنے کی کوشش کی لیکن قربان جائیے اس ملک کے اکثریت طبقے پر کہ انہوں نے ان کی نفرت انگیز ی کو قبول نہیں کیا اورنتیجہ ہے کہ ملک کے پارلیامانی انتخابات کے ہر مرحلے کے بعد ان کے پائوں کی زمین تنگ ہوتی جا رہی ہے اور اپوزیشن اتحاد کا حوصلہ بلند ہو تا جا رہاہے ۔اب تک چار مرحلوں کی پولنگ کے بعد ملک میں یہ پیغام عام ہو چکا ہے کہ ملک کا نوجوان طبقہ جس کی آبادی 65فیصد ہے وہ اپنی بیروزگاری سے اس قدر پریشان حال ہے کہ وہ کسی طرح کی شدت پسند یت اور مذہبی جنونیت کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ظاہر ہے کہ گذشتہ دس برسوں میں ملک میں بیروزگاری کی شرح میں جس قدر اضافہ ہوا ہے اس سے نئی نسل کو اپنا مستقبل تاریک نظر آرہا ہے اور وہ اس تلخ حقیقت سے آشنا ہو چکا ہے کہ ملک میں جس طرح فرقہ واریت کی فضا تیار کی جا رہی ہے وہ ان کے حق میں مفید نہیں ہے ۔ لہذا وہ اس پارلیامانی انتخابات میں اپنے روشن مستقبل کی خاطرفیصلہ کر رہے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ ملک میں لاکھ کوششوں کے باوجود ووٹ فیصد میں اضافہ نہیں ہو رہاہے کہ جو طبقہ گذشتہ پارلیامانی انتخاب میں جوش وخروش کے ساتھ بوتھوں تک پہنچا تھا وہ مایوسی کا شکار ہے اور اپنے مسائل کے بوجھ سے دبا ہوا ہے ۔اس پارلیامانی انتخابات کی سرگرمیوں کے درمیان ہی ایک رپورٹ شائع ہوئی ہے جس میں یہ خلاصہ کیا گیا ہے کہ ملک میں بیروزگاری کی شرح بڑھ کر 8.1ہوگئی ہے اور 47لاکھ لوگ گذشتہ ایک ماہ کے درمیان اپنی ملازمت سے محروم ہوگئے ہیں ۔واضح ہو کہ سنٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکونومی(CMIE) کے کنزیومر پارا میٹ ہائوس ہولڈر سروے 2024میں یہ تلخ حقیقت عیاں کی گئی ہے کہ مارچ اور اپریل 2024کے درمیان 47لاکھ لوگوں کا روزگار ختم ہوگیا ہے ۔اسی سروے رپورٹ میں یہ بھی خلاصہ کیا گیا ہے کہ گذشتہ بارہ مہینوں میں بیروزگاری کی شرح 7.3سے 9.4فیصد کے درمیان رہی ہے اور اپریل ماہ میں 8.1فیصد کی شرح کی وجہ سے ملک میں بیروزگاری میںمزید اضافہ ہوا ہے ۔شاید اس لئے تمام اپوزیشن سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی تشہیری جلسوں میں بیروزگاری کو اپنا ایجنڈہ بنا رہے ہیں ۔ بلکہ قومی جمہوری اتحاد میں شامل کئی سیاسی جماعتیں بھی اب بیروزگاری کو دور کرنے کا وعدہ کر رہی ہیں ۔ مثلاً بہار میں ایک طرف انڈیا اتحاد کے تمام اتحادی بالخصوص راشٹریہ جنتا دل کے لیڈر تیجسوی یادو اپنے ہر ایک انتخابی جلسے میں دس لاکھ روزگار دینے کی وکالت کر رہے ہیں تو جنتا دل متحدہ سپریمو اور بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار بھی اپنے انتخابی جلسوں میں بیروزگاروں کو روزگار دینے کا وعدہ کر رہے ہیں۔
انڈیا اتحاد میں شامل کانگریس لیڈر راہل گاندھی اپنے ہر ایک جلسے میں یہ اعلان کر رہے ہیں کہ اگر مرکز میں انڈیا اتحاد کی حکومت تشکیل پاتی ہے تو آئندہ 15؍ اگست 2024ء تک تیس لاکھ بیروزگاروں کو ان کی حکومت روزگار دے گی ۔اُدھر آندھرا پردیش میں چندر ا بابو نائیڈو بھی روزگار دینے کا وعدہ کر رہے ہیں۔البتہ ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی ملک کے اقلیت مسلم طبقے کے خلاف اکثریت طبقے کے ذہن میں نفرت پیدا کرنے کی ناکام کوشش کر رہے ہیں اور ملک کے عوام اور بالخصوص نوجوان طبقے کے جو بنیادی مسائل ہیں اس سے فرار حاصل کر نا چاہتے ہیں۔ میرے خیال میں وزیر اعظم اپنی کارکردگی کی بنیاد پر عوام کے حضور جاتے تو نہ صرف ان کے لئے بلکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اپنے ملک ہندوستان کے لئے بھی بہتر ہوتا ۔کاش کہ اب بھی ہمارے وزیر اعظم نفرت اور اشتعال انگیزی سے پرہیز کرتے ہوئے ملک کی جمہوریت اور سا لمیت کے لئے عملی نمونہ پیش کریں کہ ایسا کیا جانا ملک وقوم کے مفاد میں ہے اور پوری دنیا میں ہندوستان کی جو تکثیری شناخت ہے وہ بھی مسخ ہونے سے محفوظ رہے گی۔