( ایڈیٹر، ممبئی اردو نیوز)
بدھ کے روز پارلیمنٹ پر حملے کی ۲۲؍ویں برسی کے دن جو ہوا کیا اسے پارلیمنٹ پر ایک اور حملہ قرار نہیں دیا جاسکتا ؟ یقیناً یہ پارلیمنٹ پر ایک حملہ ہی تھا، لیکن اس حملے اور اسی روز ۲۱؍ برس قبل کے حملے میں ایک فرق تھا ، سابقہ حملے میں کئی افراد کی جانیں گئی تھیں لیکن اس حملے میں کوئی جان نہیں گئی۔ لیکن جان جاسکتی تھی! جو افراد پارلیمنٹ کے اندر گھس کر، ایوان میں گیس چھوڑنے والے کنستر لے کر داخل ہوئے تھے وہ زہریلی گیس لے کر بھی داخل ہوسکتے تھے ۔ یہ توشُکر منائیں ممبران پارلیمنٹ اور سیکوریٹی اہلکار اور پارلیمنٹ کا عملہ کہ کوئی جانی اور مالی نقصان نہیں ہوا ۔ لیکن اس ’حملے‘ نے یہ تو ثابت ہی کردیا ہے کہ پارلیمنٹ کو اگر کوئی انتہا پسند اور دہشت گرد تنظیم یا چند جنونی نشانہ بنانا چاہیں تو یہ ناممکن نہیں ہے ۔ 2001 میں جب 13دسمبر کے روز پانچ دہشت گردوں نے پارلیمنٹ پر حملہ کیا تھا تب 9افراد مارے گئے تھے ، اور بدھ کے روز کے حملے میں تو چھ افراد ملوث تھے ، دو وہ جو وزیٹرس گیلری سے ایوان کے اندر کو دے تھے ، اور دو وہ جو پارلیمنٹ کے باہر موجود تھے ۔ دوافراد مزید تھے ۔ یہ سب ایک دوسرے کے واقف کارتھے اور ان سب نے مل کر پارلیمنٹ پر ’حملے‘ کی منصوبہ بندی کی تھی۔ ان کا مقصد کیا تھا؟ کیا یہ کسی تنظیم سے تعلق رکھتے ہیں؟ کیا ان کی منصوبہ بندی کا مقصد کسی کو نقصان پہنچانا یا کسی رکن پارلیمنٹ کو اغوا کرنا تھا ؟ متعدد سوالات اٹھ کھڑے ہوئے ہیں ، جن کے جواب تک پہنچنے کی پولس اور ایجنسیاں کوشش کررہی ہیں ۔ لیکن اہم ترین سوال اس ’پاس‘ کا ہے جسے لے کر دو ’ حملہ آور‘ پارلیمنٹ کے اندر داخل ہوئے تھے ۔ پاس میسور سے تعلق رکھنے والے بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ پرتاپ سمہا کے ذریعے حاصل کیے تھے ! اس کا مطلب یہ ہے کہ جن دوافراد نے ایوان میں کود کر پیلے رنگ کی گیس چھوڑی تھی ان کا تعلق بی جے پی سے ہے ، اگر ایسا نہیں ہے تو پرتاپ سمہا نے انہیں ’پاس‘ کیسے جاری کروائے ! گھوم پھر کر شک وشبہے کی سوئی پرتاپ سمہا کی جانب گھومتی ہے ، ان سے ان افراد کے تعلق سے پوچھ گچھ کی جانی چاہیئے تاکہ پتہ چلے کہ یہ افراد کون ہیں اور کیسے یہ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ سے تعلق میں آئے ہیں ۔ اہم ترین سوالوں میں سے ایک سوال سیکوریٹی کی چوک پر ہے ، پارلیمنٹ پر یہ ’ حملہ‘ کوئی معمولی سا واقعہ نہیں ہے ، وہاں ملک بھر کے نمائندے بیٹھتے ہیں اور ملکی وغیر ملکی معاملات پر بحث ومباحثے ہوتے ہیں ، منصوبے بنتے ہیں اور قوانین کی منظوری ہوتی ہے ، گویا یہ کہ ملک کا سارا کاروبار وہاں سے چلایا جاتا ہے ، لہٰذا اس ’ حملے‘ کو غیر معمولی سمجھتے ہوئے اس کی غیر معمولی انداز میں تفتیش لازمی ہے ۔ نیز تفتیش یہ بھی ضروری ہے کہ سیکوریٹی میں چوک کیسے ہوئی ، دونوں کیسے گیس کے کنستر ایوان میں لے گیے ، کیوں جدید ترین سیکوریٹی آلات بھی ان کنستروں کو نہیں پکڑسکے ، کیا سیکوریٹی کے ہی کچھ اہلکار ان کی ان افراد سے ملی بھگت تھی وغیرہ وغیرہ ۔ جو حکومت اپنے ہی کسی حساس ادارے کی حفاظت نہ کرسکےتو اس پر سے عوام کا اعتباد ختم ہوجاتا ہے ، مودی حکومت میں کئی ایسے حملے ہوئے ہیں جو سیکوریٹی کی کوتاہی کا بڑا ثبوت ہیں ، جیسے کہ پلوامہ اور اب یہ پارلیمنٹ حملہ ۔ کیا کوتاہی کے مرتکبین کے خلاف کارروائی ہوگی یا پلوامہ ہی کی طرح یہ پارلیمنٹ ’حملہ ‘بھی فراموش کردیا جائے گا ؟
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)