Home تجزیہ پرگیہ سنگھ سَنگھ پریوار کے نظریات کانمونہ ہیں

پرگیہ سنگھ سَنگھ پریوار کے نظریات کانمونہ ہیں

by قندیل

عبدالعزیز
پرگیہ سنگھ ٹھاکر ایک خاتون ہیں۔ مالیگاؤں بم بلاسٹ کیس کی ملزمہ ہیں۔ انھیں خرابی صحت کی وجہ سے ضمانت پر رہا کیا گیا ہے۔ سات آٹھ سال جیل میں تھیں۔ مودی حکومت کے آنے کے بعد ایسے سارے ملزمین جن کا تعلق سنگھ پریوار سے ہے اور دہشت گردی کا ان کا مقدمہ زیر سماعت ہے انھیں حکومت کی مہربانیوں سے راحت مل گئی ہے۔ ممکن ہے ان کو دیر یا سویر کلین چیٹ بھی دے دی جائے۔
سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر اور ان کے ساتھیوں کے بجائے مالیگاؤں بم دھماکہ میں بے قصور مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا تھا لیکن اے ٹی ایس افسر ہیمنت کرکرے کی غیر جانبدارانہ تفتیش کی وجہ سے سنگھ پریوار سے متعلق افراد کا سراغ پرگیہ ٹھاکر کی ایک موٹر سائیکل سے ملا جو جائے واردات پر ملی تھی۔ پرگیہ ٹھاکر فون پر مکالمات کی بنیاد پر بھی گرفتار ہوئی۔ بعد میں اور بہت سے ثبوت تفتیش میں ملے۔
پارلیمنٹ کے حالیہ ڈیبٹ میں پرگیہ سنگھ ٹھاکر کا ذکر بار بار آیا۔ پہلی بار ان کا ذکر اس وقت آیا تھا جب وہ اپنے انتخابی حلقہ بھوپال میں مہم چلا رہی تھیں۔ پہلے وہ ہیمنت کرکرے کے حوالے سے کہاکہ وہ ان کی سراپ (بد دعاؤں) سے موت کے منہ میں گیا۔ دوسری بار انھوں نے دورانِ انتخابی مہم کہاکہ ناتھو رام گوڈسے دیش بھکت (محب وطن) ہیں۔ اس وقت جب چیخ پکار ہوئی تو وہ وزیر اعظم نریندر مودی نے بیان دیا کہ اس بیان پر وہ انھیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔ امیت شاہ نے میڈیا کو بتایا کہ ان پر کارروائی ہوگی ابھی انھیں وجہ بتاؤ نوٹس دیا گیا ۔ اب پارلیمنٹ میں پھر انھوں نے ناتھو رام گوڈسے کو ایک بحث کے دوران دیش بھکتی کی سند دی جس کی وجہ سے پارلیمنٹ میں زبردست چیخ پکار ہوئی۔ بالآخر ان کو معذرت کرنی پڑی اور دفاع کی کمیٹی سے بھی انھیں ہٹا دیا گیا۔ یہ سب کیا گیا ہے مگر ان کو لوک سبھا کا ٹکٹ دے کر بھوپال حلقہ سے کامیابی دلائی گئی۔ دفاع کی کمیٹی کا ممبر بنایا گیا۔ نہ ان پر کوئی تادیبی کارروائی ہوئی۔ راج ناتھ سنگھ جیسے لیڈ نے ایک مذمتی بیان ضرور دے دیا۔
پارٹی میں وہ پہلے بھی شامل تھیں۔ ان کو ان کی دہشت گردانہ کردار پر پارلیمنٹ کی امیدواربنایا گیا اور ان کی کامیابی کیلئے کوششیں کی گئیں۔ یہ سنگھ پریوار کی پرانی روش ہے۔ بابری مسجد کے اندر شرپسندوں نے مورتی رکھی تو ضلع مجسٹریٹ کے کے نائر نے مسجد کا دروازہ بند کردیا اور مسلمانوں پر مسجد میں نماز پڑھنے پر روک لگا دی گئی۔ مسٹر نائر کو بعد میں جن سنگھ کی طرف سے لوک سبھا کا ٹکٹ دے کر امیدوار بنایا گیا۔ وہ کامیاب ہوا۔ ادھم مچانے والا پرگیہ برانڈ قومیت بہت سالوں سے مرکزی دھارے میں شامل ہے۔ ووٹروں نے جو نہیں جانتے کہ اس سے ان کی ذاتی آزادی خطرے میں پڑسکتی ہے وہ اس قومیت کے زہریلے برانڈ کو تسلیم کرنے میں کسی پس و پیش کا اظہار نہیں کیا۔ یہ سخت قسم کا ہندوتو برانڈ ہے جو اختلاف رائے یا انحراف کو ناپسند کرتا ہے اور اصلی یا تصوراتی دشمن کی تلاش میں رہتا ہے۔ اس سے ووٹ بینک کا پروسس بھی شروع کیا جاتا ہے اور فرقہ پرستی اور فرقہ پرستانہ سوچ بھی پیدا کی جاتی ہے۔ برسوں سے اس جارحانہ فرقہ پرستی کے ذریعہ ووٹ بینک کو ترقی دی گئی۔ دگ وجئے سنگھ مدھیہ پردیش کے دوبار وزیر اعلیٰ تھے، انھیں ووٹروں نے رد کردیا اور پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو تین لاکھ سے زائد ووٹوں اسے سابق وزیر اعلیٰ کے مقابلے میں کامیاب کیا۔ بی جے پی لیڈرشپ ایک طرف پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو پروموٹ کرنے میں لگے ہوئے ہیں اور دوسری طرف ان کی زبان و بیان پر دکھاوے کے طور پر پابندی بھی عائد کرتے رہتے ہیں۔ ان کے زہریلے بیان کو پسند کرتے ہیں مگر بعض وجوہ سے اسے ناپسندی کا بھی اظہار کرتے تاکہ عوام کو مغالطے میں رکھ سکیں۔ وزیر اعظم نے کہا تھا کہ ان کو کبھی معاف نہیں کریں گے مگر ان کو دفاع کی کمیٹی میں لے کر ان کے قد کو بڑھایا۔
جن لوگوں نے بابری مسجد کے معاملے میں نہ صرف سخت رویہ اپنایا بلکہ مسجد کو ڈھانے میں حصہ لیا انھیں بھی بی جے پی نے انعام و اکرام سے نوازا۔ 1990ء سے ونے کٹیار کو ایک حلقہ کی نمائندگی کیلئے مسلسل چنا گیا۔ دوسری ساکشی مہاراج جو زہریلے بیان کیلئے مشہور ہیں انھیں بھی ایک حلقہ سے بی جے پی کا ایم پی بنایا گیا۔ یوگی ادتیہ ناتھ کی زہر آلود تقریروں اور دہشت گردانہ عمل کی وجہ سے انھیں اتر پردیش کا وزیر اعلیٰ کا عہدہ سونپ دیا گیا۔ جو ہندو کسی وجہ سے مظلوم ہوتے ہیں یا ہوتی ہیں ان کو سنگھ پریوار والے ہندو مسلم کے عینک سے دیکھتے ہیں، یہاں تک کہ عصمت دری کے واقعات کو بھی فرقہ وارانہ رنگ دینے میں کبھی چوکتے نہیں۔ حیدر آباد میں چار ظالموں نے وحشیانہ حرکت کی جو انتہائی قابل افسوس اور قابل مذمت ہے۔ ہندوتو کے جنونیوں نے چار میں سے ایک کے نام کی وجہ سے افسوسناک واقعہ کو بھی ہندو مسلم بنادیا۔ اگر مسلمان مظلوم ہوتا ہے یا مظلومہ ہوتی ہے تو وہ ظالموں کی حفاظت کرتے ہیں۔ بی جے پی کے بہت سے ایم ایل اے، ایم پی بھی عصمت دری کے کیس میں ملوث ہیں۔ اس کو ہندوتو کے پجاری نظر انداز کردیتے ہیں۔ اس طرح کی فرقہ وارانہ سیاست یا جارحانہ قوم پرستی انتخابی فائدے کیلئے کی جاتی ہے۔ اس سے پولرائزیشن میں مدد ملتی ہے اور قبائلی نظام کو تقویت دی جاتی ہے۔ اس طرح کی چیزیں نہ صرف جمہوریت کے خلاف بلکہ سب کا ساتھ، سب کا ویکاس کے خلاف بھی ہے۔
مسلمان،لبرل، اربن نکسل یا غدار قوم جیسی اصطلاحیں ان کیلئے استعمال کی جاتی ہیں جو ذرا بھی ان کے قوم پرستانہ اور فرقہ پرستانہ برانڈ سے اختلاف کرتے ہیں۔ ٹی وی چینلس پرگیہ ٹائپ قوم پرستی کو بڑھاوا دے رہے ہیں اور جو اس کی مخالفت کرتے ہیں انھیں غدارِ وطن قرار دینے میں ذرا دیر نہیں لگاتے۔ گاندھی جی زندہ ہوتے تو پرگیہ کے نظریہ کے بارے میں کیا رائے قائم کرتے۔ گاندھی جی گناہ سے نفرت کرتے تھے مگر گنہگار سے نفرت نہیں کرتے۔ وہ سمجھتے تھے کہ اس سے گنہگاروں کی تعداد زیادہ بڑھے گی۔ اس لئے وہ پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو الگ تھلگ کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔ ایسی شخصیت صرف سوسائٹی کو تقسیم کرتی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ پرگیہ بحث و مباحثہ نہ کرکے اسے نظر انداز کرنا زیادہ بہتر ہوگا۔
گاندھی جی اس حقیقت پر بھی یقین رکھتے تھے کہ کسی کو خاموش کردینے یا اس کی جان لے لینے سے بھی اس کا نظریہ ختم نہیں ہوتا۔ گاندھی جی کو قتل کر دیا گیا مگر گاندھی کے فلسفہ اور نظریہ کو ناتھو رام گوڈسے قتل نہیں کرسکے بلکہ وہ فروغ پاتا رہا۔ آج بھی سنگھ پریوار کے لوگ کھلم کھلا گاندھی جی مخالفت نہیں کرپاتے وہ اپنے شرپسند عناصر سے ضرور کراتے رہتے ہیں۔ گاندھی جی کہا کرتے تھے کہ بغیر توپ اور بندوق کے مخالفت کی جاسکتی ہے اور دشمن کی مستقل تلاش کے انحراف اور اختلاف اور انحراف کیا جاسکتا ہے۔ گاندھی جی کے معاملے میں سنگھ پریوار کے اندر بظاہر تضادات ہیں۔ سنگھ پریوار کے اندر بہت سے ایسے افراد ہیں جو گاندھی کی پرستاری اور پسندیدگی کا دعویٰ کرتے ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جو گاندھی جی کے قاتل یا ان کے چاہنے والوں کو گلے لگاتے ہیں۔ جس نے گاندھی جی جیسی عظیم شخصیت کا خون کیا اس کی تعریف و توصیف کرنا، اسے محب وطن قرار دینا انسان دشمنی کے مترادف ہے۔ پرگیہ سنگھ ٹھاکر کا علامتی معذرت نامہ پیش کرنا یا اسے کمیٹی سے خارج کرنے کا دکھاوا کرنا بے معنی سی بات ہے۔ اصل میں پرگیہ سنگھ ٹھاکر یا سنگھ پریوار کے لوگ گاندھی جی کی قومی یکجہتی اور ہندو مسلمان کے اتحاد کے سخت دشمن ہیں۔ یہ دشمنی ان کی گھٹی میں پلائی ہوئی ہے۔ اسی طرح بلکہ اس سے کہیں زیادہ دشمنی مسلمانوں سے ہے۔ یہی ان کی قوم پرستی اور دیش بھکتی ہے جو پرگیہ ٹھاکر یا دیگر شرپسند عناصر کی شکل میں نظر آتی ہے۔
E-mail:[email protected]
Mob:9831439068

You may also like

Leave a Comment