Home تجزیہ پانی کا بحران اور ہماری بے احتیاطیاں -غوث سیوانی

پانی کا بحران اور ہماری بے احتیاطیاں -غوث سیوانی

by قندیل

میں اپنی کالونی میں بری طرح پانی کو برباد ہوتے دیکھتا ہوں۔اکثر پانی کے موٹرچلتے رہتے ہیں اور چھت پرلگی ٹنکی بھرنے کے بعد پانی ابلتا رہتا ہے۔ بیشتر گھروں میں بھی ضرورت سے زیادہ پانی بہایا جاتاہے اور کسی کو خیال بھی نہیں آتا کہ عنقریب زیر زمین آبی ذخیرہ ختم ہوجائے گا، تب لوگ بوند بوند کو ترس سکتے ہیں۔حالانکہ ہمارے آس پاس کی دوسری کالونیوں میں پانی کی قلت کا مسئلہ سنگین ہے۔ بھارت میں ایک طرف تو پانی کا بے جا استعمال ہوتا ہے تو دوسری طرف مختلف شہروں میں کروڑوں افراد کو ضرورت کے لائق بھی پانی نہیں ملتا۔ ماہرین کا خیال ہے کہ مستقبل میں یہ مسئلہ سنگین رخ اختیار کرسکتا اور لوگ اک اک قطرہ پانی کے لئے ترس سکتے ہیں۔نہانے ،دھونے کا دور، پینے کے پانی سے بھی محروم ہوسکتے ہیں۔ اکثرمانسون کے باجود ہمارا ملک خشک رہتاہے۔ مہاراشٹر کے عثمان آباد سے لے کر بہار کے دربھنگہ تک ایک جیسے حالات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ پیڑپودے سوکھ جاتے ہیں۔فصلیں برباد ہوجاتی ہیں تو دوسری طرف کچھ علاقوں میں ندیوں کی بدانتظامی کے سبب سیلابی صورت حال ہوتی ہے۔ حالانکہ اس سے بھی بڑامسئلہ یہ ہے کہ بہت تیزی کے ساتھ ملک میں پینے اور استعمال کے پانی کی قلت ہورہی ہے۔ آنے والے ایام میں یہ مسئلہ اور بھی سنگین ہونے والا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کا پہلا اثر ہندوستان کی دہلیز تک پہنچ چکا ہے اور یہ پانی کے بحران کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔ دہلی ، بنگلور ، حیدرآباد ،چنئی سمیت ملک کے بڑے شہروں میں زیر زمین ذخائر تیزی سے خشک ہو رہے ہیں ،جن سے تقریبا 60 کروڑافراد متاثر ہوں گے اور 2030 تک بھارت کی 40 فیصد آبادی کو پینے کا پانی نہیںملے گا۔بھارت کے اکیس شہروں کے زیرزمین آبی ذخائر ختم ہوجائینگے اور لوگ بوند بوند کو ترسینگے۔ یہ ہماری پیشین گوئی نہیں بلکہ سرکاری ادارے نیتی آیوگ کی رپورٹ میں کہا گیا ہے ۔ اس وقت ہمارے آبی ذخیروں کے دوتہائی حصوں میں پانی کی سطح معمول سے کم ہے اور ہر سال 2 لاکھ افراد غیر محفوظ پانی کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔ پانی کی قلت کے وقت سماجی تفریق واضح ہوجاتی ہے جب کچھ بارسوخ لوگ پانی کے وسائل پر قابض ہوتے ہیں اور عام لوگ اس کے لئے ترستے ہیں جب کہ شہروں میںپانی پر ٹینکر مافیا کا غلبہ نظر آتاہے۔
دراصل ، 21 ویں صدی میں ہندوستان کے لئے پانی کا انتظام ایک بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ ابھی کل کی بات ہے کہ جب ٹرین سے پانی 50 ہزار لیٹر کے 50 ویگنوں میں بھر کر پہنچایا گیا تو چنئی کو پانی کے بحران سے نجات ملی۔ چنئی کو پانی کے بحران کا سامناہے اور یہاں روزانہ 200 ملین لیٹر سے زیادہ پانی کی قلت ہے ۔ اس شہر کے آبی ذخائر خشک ہوچکے ہیں۔ لوگ گندے پانی سے برتن دھو رہے ہیں اور پینے کے لئے صاف پانی بچارہے ہیں۔ دارالحکومت دہلی میں بھی بہت ساری کالونیوں کی خواتین کودو بالٹی پانی کے لئے کئی گھنٹے تک ٹینکروں کے انتظار میں لائن میں لگنا پڑتا ہے اور یہ دونوں بالٹیاں بھی ایک دن چھوڑکر ملتی ہیں۔ آندھرا پردیش کی 116 بلدیات میں سے صرف 34 میونسپلٹیاں ایک ہفتے میں دو گھنٹے پانی سپلائی کرتی ہیں۔ مہاراشٹر میں پانی کی زبردست قلت ہے۔ قحط کی وجہ سے وہاں کے دریابرسوں سے خشک ہیں۔ ڈیموں اور آبی ذخائر میں پانی ختم ہوچکاہے اور زیر زمین آب کا بہت زیادہ استعمال ہورہا ہے۔ ریاستی حکومت ہزاروںگائووںتک پانی پہنچانے کے لئے ٹینکروں کی مدد لیتی ہے۔ان تمام علامات سے پتہ چلتا ہے کہ مستقبل میں پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں ہوگا اور لوگوں کو غیر محفوظ پانی پر انحصار کرنا پڑے گا ، جو بیماری ، موت اور ہجرت کا باعث بنے گا۔
غیر منصوبہ بند شہری ترقی اور مانسون کے نہ ہونے کی وجہ سے جھیلیں اور تالاب تجاوزات کا شکار ہوگئے ہیں۔ ماحولیاتی خرابی ، گندے پانی کی نکاسی کا مناسب انتظام نہ ہونے اور تعمیراتی ملبے کی وجہ سے پانی کے ضیاع، کے سبب بھی پانی غیرمحفوظ ہوتا جارہا ہے اور کمی ہورہی ہے ۔ زمینی سطح آب میں کمی کی بنیادی وجہ قدرتی آبی وسائل اور ساحلی علاقوں کا عدم تحفظ بھی ہے۔ وزیر اعظم نے خود اعتراف کیا ہے کہ ملک میں بارش کا پانی صرف 8 فیصد محفوظ کیا جاتاہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ 2025 تک گنگا سمیت 11 ندیوں میں پانی کی قلت ہوگی ، جو سال 2050 تک 100 کروڑ سے زیادہ لوگوں کے لئے خطرہ کا باعث ہو گا۔ 2050 تک ، پانی کی طلب بڑھ کر 1180 ملین مکعب میٹر ہوجائے گی۔ ہندوستان کی آبادی، دنیا کی آبادی کا 18 فیصد ہے ، جبکہ پینے کا پانی یہاں صرف 4 فیصد ہے اور یہاں پانی کا بہت زیادہ ضیاع ہے اورسرکاری بجٹ کے اربوں روپے پانی کے تحفظ کے بجائے فضول منصوبوں پر خرچ ہوتے ہیں۔
وزارت آبی وسائل نے ملک کے آبی قلت کے شکار250 اضلاع میں پانی کے تحفظ کی مہم شروع کی ہے لیکن حکومت اس معاملے میں کتنی سنجیدہ ہے ،اس حقیقت کا پتہ ،اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ زیادہ تر سرکاری عمارتوں میں بارش کے پانی کی ذخیرہ اندوزی کا کوئی نظام موجود نہیں ہے، جب کہ انھیں عمارتوں میں منصوبے بنائے جاتے ہیں ۔ 10 سال پہلے شمالی ہندوستان میں ، ہر سال 54 ارب مکعب میٹر پانی کاخرچ کیا جارہا تھا ، جو امریکہ کے الاسکا گلیشیر میں جمع پانی کے برابر ہے۔ ہندوستان کے شہروں اور دیہاتوںمیں پانی کا ڈھنگ سے انتظام نہ ہونے کے سبب کچھ حصوں میں ہمیشہ قحط جیسے حالات رہتے ہیں۔ آبی وسائل کے تعلق سے قائم سرکاری کمیٹی کے مطابق ، 1995 میں ، ملک کے بہت زیادہ پانی نکالنے والے اضلاع کی تعداد 3فیصد تھی ، جو 2011 میں بڑھ کر 15 فیصدہوگئی۔
آنے والے سالوں میں ہندوستان کو کہاں سے پانی ملے گا ، جبکہ حکومت ’’ہر گھر نل ہر گھر جل ‘‘یوجنا 2024 پر کام کر رہی ہے۔ ڈیموں اور آبی ذخائر پر 4 کھرب روپے خرچ ہوئے ہیں لیکن مطلوبہ نتائج نہیں مل پائے ہیں۔ روایتی آبی ذخائر جیسے تالاب ، نالے ، کنویں وغیرہ کے احیاء کے لئے ابھی تک کوئی منصوبہ نہیں بنایا گیا ہے۔ایک آبی تحفظ کار کے الفاظ میں ، حکومت سستے اور عام اقدامات پر یقین نہیں رکھتی ہے۔ وہ ہمیشہ مہنگے ، بڑے منصوبوں کی طرف دیکھتی ہے۔ 1960 کے بعد ، لاکھوں آبی ذخائر کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔ جب تک ہم مونسون کے موسم میں پانی جمع نہیں کریں گے ، ہم پانی کے بحران سے نبرد آزما رہیں گے۔
راجستھان کے الور ضلع میں ایک کسان نے اس سلسلے میں مثالی کام کیا ہے۔ اس نے پانی کے ذخیرہ کرنے کا ایک چھوٹا سا ڈھانچہ بنا کر آبی وسائل کو بحال کیا ہے اور سوکھے سے متاثرہ علاقے کے تقریبا 1000 دیہاتوں تک پانی پہنچ گیا ہے۔ پانچ نہروں میں پانی کو بحال کیا گیا ہے اور زرعی پیداواری صلاحیت 20 فیصد سے بڑھ کر 80 فیصد اور جنگلات کے رقبے میں 33 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح اتراکھنڈ میں عوام کی جانب سے نالہ کی تزئین و آرائش کی گئی ہے۔ جب کہ کیرل میںسرنگ کو بحال کیا گیا ہے۔
مہاراشٹر میں ، 60 فیصد پانی گنے کی پیداوار کے لئے استعمال ہوتا ہے جبکہ بین الاقوامی منڈی میں چینی سستی بکتی ہے۔ اسی طرح دھان کی پیداوار میں پانی زیادہ خرچ ہوتا ہے مگر اس کی قیمت کم ملتی ہے۔ ہندوستان اردن سے سبق لے سکتا ہے کہ اس نے کس طرح روایتی لینڈ مینجمنٹ سسٹم کو اپنایا ہے ، جہاں کچھ زمین کوقدرتی طور پر پھلنے پھولنے کے لئے چھوڑدیا جاتا ہے ، جس کی وجہ سے جارکا ندی میں روایتی وسائل کومحفوظ کرنا ممکن ہوا۔
آبی ذخائر کی بحالی کی طرف ایک اہم قدم، ہم اپنے قدرتی ڈیموں اور آبی ذخائرکے علاقوں کو زندہ کرکے اٹھا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ بارش کے پانی کی ذخیرہ اندوزی پر بھی توجہ دینا ہے۔ پانی کا سالانہ آڈٹ ہونا چاہئے کہ کہاں سے آرہا ہے اور کہاں جارہا ہے۔ پانی کی دستیابی کے مطابق ہی فصل کی بھی بوائی کی جائے۔
اب وقت آگیا ہے کہ مرکزی حکومت پانی کو قومی اثاثہ قرار دے اور پانی کے بحران کا مستقل حل تلاش کرے ، جس میں قومی منصوبہ بندی کے ساتھ ساتھ مقامی اقدامات پر بھی زور دیا جائے۔ اگر ایسا نہ کیا گیا تو جلد ہی بھارت میں پانی کا سنگین بحران ابھرے گا اور ملک کی بڑھتی ہوئی معیشت کو پانی دستیاب نہیں ہوگا۔ آبی بحران کے حل کے سلسلے میں نئی سوچ کی ضرورت ہے۔ آبی وسائل کے بجٹ کا 50 فیصد حصہ پانی کے انتظام ، ٹھوس کچرا کے انتظام اور پانی کے استعمال میں بہتری لانے پر خرچ کیا جانا چاہئے۔ اس کے ساتھ ہی ، ہندوستان میں کاشتکاروں کو بھی آب و ہوا کی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لئے تیار رہنا چاہئے۔ ہمیں پانی کے بحران سے آگاہ ہونا پڑے گا۔ یہ مسئلہ سنگین ہے اور اس کا تعلق صرف پانی کی طلب اور رسد سے نہیں ہے بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہمارازمینی پانی سے تعلق نہیں رہا۔ بھارت میں یہ توقع کی جاتی ہے کہ بارش کے دیوتا اندر دیو ہم سے راضی ہوں گے اور پانی برس جائے گا، لیکن اب ایسا ہونے والا نہیں ہے ۔

You may also like

Leave a Comment