Home تجزیہ پاکستان ’طوفان نوح‘ کی گرفت میں ۔ سہیل انجم

پاکستان ’طوفان نوح‘ کی گرفت میں ۔ سہیل انجم

by قندیل
ہم لوگوں نے طوفان نوح کا منظر نہیں دیکھا۔اس کے بارے میں صرف کتابوں میں پڑھا ہے۔ لیکن اس وقت پاکستان میں سیلاب سے جانی و مالی نقصان اور تباہی و بربادی کے جو مناظر دکھائی دے رہے ہیں وہ طوفان نوح کی یاد دلا رہے ہیں۔ صوبہ خیبر پختونخوا، بلوچستان، سندھ اور جنوبی پنجاب میں سیلابی ریلے نے وہ تباہی مچائی ہے کہ الامان و الحفیظ۔ اس وقت پاکستان کا ایک تہائی حصہ غرقاب ہے۔ ہر سات میں سے ایک شہری قدرت کے رحم و کرم پر ہے۔ گیارہ سو سے زائد افراد کی جانیں جا چکی ہیں اور پندرہ سو سے زائد زحمی ہیں۔ لاکھوں مویشی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ حکومت پاکستان کے ذمہ داروں کا کہنا ہے کہ ملک ایک بہت بڑے سمندر میں تبدیل ہو گیا ہے۔ کہیں ایسی خشکی نہیں ہے کہ پمپ لگا کر پانی نکالا جا سکے۔ پاکستان کے بزرگ صحافی محمود شام نے اپنے کالم میں ایک پرانے واقعے کے حوالے سے لکھا ہے کہ ’پاکستان کے پہاڑ رو رہے ہیں۔ زار و قطار رو رہے ہیں۔ کوہ سلیمان کے آنسو تو ریلے بن کر تباہی مچا رہے ہیں۔ بلوچستان میں چار ہزار پہاڑی سلسلے ہیں۔ سندھ میں پہاڑوں کے پانچ سو سلسلے ہیں۔ خیبر پختونخوا میں گیارہ سو تیس سلسلے ہیں۔ سب کے سب اشکِ رواں بن گئے ہیں۔ جنوبی پنجاب میں بھی پہاڑی نالوں نے قیامت برپا کر دی ہے‘۔ دریاو ¿ں نے اپنے پرانے اور متروک راستے نئے سرے سے تلاش کر لیے ہیں۔ ندی نالوں پر قیامت خیز شباب آیا ہوا ہے۔ وہ جدھر چاہتے ہیں ادھر رخ کر لے رہے ہیں۔ ان کے راستے میں آنے والی کوئی شے سلامت نہیں ہے۔ پچاس ہزار مکان صفحہ ہستی سے نابود ہو گئے ہیں۔ کثیر منزلہ عمارتیں طغیانی میں ایسے بہہ رہی ہیں جیسے معمولی خس و خاشاک۔ نہ شہر سلامت ہیں، نہ قصبے، نہ مواضعات۔ سوشل میڈیا پر ایسی دلدوز ویڈیوز وائرل ہیں کہ ان کو دیکھ کر آدمی کا کلیجہ دہل جائے۔ اس صورت حال کی وجہ بہت زیادہ بارشیں بھی ہیں۔ دو ماہ سے مسلسل بارش ہو رہی ہے۔ 2010 میں بھی پاکستان میں ایسا ہی قیامت خیز سیلاب آیا تھا۔ اس میں دو ہزار سے زائد انسان لقمہ ¿ اجل بن گئے تھے۔ اس سیلاب میں کتنے لقمہ اجل بنیں گے کہا نہیں جا سکتا۔ لیکن انسان حادثات سے کبھی کچھ سیکھتا ہے کبھی نہیں سیکھتا۔ گزشتہ طوفان سے بھی اہل پاکستان نے کچھ نہیں سیکھا۔ وہاں کی مختلف حکومتوں نے بھی کوئی سبق نہیں لیا۔ ہاں سیاست دانوں نے ایک چیز ضرور سیکھی ہے۔ یعنی سیاسی حریفوں سے انتقام لینا۔ اس وقت بھی جبکہ ایک تہائی پاکستان سمندر میں تبدیل ہو چکا ہے ایک دوسرے کے خلاف سیاست دانوں کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ کون کس کو کیسے شکست سے دوچار کرتا ہے اسی پر ساری توانائی ضائع کی جا رہی ہے۔ قدرت کس طرح انسانوں کو شکست دے رہی ہے اور اس سے کیسے نبرد آزما ہوا جا سکتا ہے اس کی کوئی فکر نہیں ہے۔ اس وقت معروف شاعر اعجاز رحمانی کا ایک شعر یاد آرہا ہے کہ: ’کل بارش دریا کو چڑھا کر بستی تک لے آئی تھی، ہلکا سا سیلاب کا ریلا توڑ گیا دیواروں کو‘۔ مگر اس سیلاب نے صرف کنکریٹ سے بنی ہوئی عمارتوں کی دیواریں ہی نہیں توڑی ہیں بلکہ انسانی حوصلوں اور ولولوں کی عمارتوں کی دیواریں بھی توڑ دی ہیں۔ ہزاروں کیمپ پورے ملک میں پھیل گئے ہیں۔ بلکہ ایک طرح پاکستان خیموں کا ملک بن گیا ہے۔ پھر بھی بہت سے متاثرین کو خیمے بھی نصیب نہیں ہیں۔ کھانے پینے کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ اب جا کر حکومت کو تھوڑا سا ہوش آیا ہے۔ لیکن وہ بھی کیا کرے۔ پاکستان پہلے سے ہی اقتصادی بحران میں مبتلا ہے۔ سرکاری خزانہ خالی ہے۔ متاثرین کی امداد کے لیے پیسے نہیں ہیں۔
وہ ویڈیو تو بہت ہی دلدوز تھی جس میں پانچ نوجوان چاروں طرف پانی سے گھری ہوئی ایک چھوٹی سی پہاڑی پر کھڑے ہیں۔ ان کے جسموں پر رسی بندھی ہوئی ہے۔ رسی قریب کے گاوں کے باشندوں نے ان کے پاس پھینکی تھی۔ ان کا اصرار تھا کہ رسی کو جسم میں باندھ کر پانی میں چھلانگ لگا دیں۔ ہم تمھیں کھینچ کر نکال لیں گے۔ انھوں نے جسموں سے رسی تو باندھ لی لیکن چھلانگ لگانے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ ایک نوجوان نے ہمت کی۔ چھلانگ لگائی اور گاوں والوں نے اسے کھینچ کر بچا لیا۔ مگر دیکھتے ہی دیکھتے باقی چاروں نوجوان پانی کے ریلے میں تاش کے پتوں کی مانند بہہ گئے۔ اس منظر کو جس نے بھی دیکھا دل تھام کر رہ گیا۔ لیکن سب سے زیادہ مسائل میں خواتین گھری ہوئی ہیں۔ ایک خاتون نے بی بی سی کی نمائندہ کو اپنا دردناک قصہ سناتے ہوئے کہا کہ خوراک اور پانی کی حد تک جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھے بیٹھے ہیں۔ دن میں ایک بار ہی سہی مگر کھانا اور پینے کو پانی مل ہی جاتا ہے۔ لیکن خوراک اور پانی کے علاوہ بھی کچھ اور ضروریات ہیں جن کے بغیر زندگی گزارنا ناممکن سا ہوتا ہے اور جن پر کوئی بات نہیں کرتا۔ وہ خواتین کے رفع حاجت اور صفائی کے مسائل ہیں۔ ایک خاتون عظیماں نے فون پر بڑی مشکل سے بات کی۔ کیونکہ کسی مرد کی موجودگی میں اس موضوع پر گفتگو کسی خاتون کے لیے آسان نہیں۔ اس نے بتایا کہ ہم لوگ بڑی مشکل میں ہیں۔ کہاں جائیں۔چاروں طرف کھلا علاقہ اور پانی ہی پانی۔ بے پردگی کا الگ مسئلہ ہے۔ پانی میں بیٹھنا آسان نہیں ہے۔ ہم کچھ عورتیں مل کر دور جاکر ایک چارپائی کھڑی کرلیتے ہیں۔ اس کی آڑ میں بیٹھ جاتے ہیں۔ کچھ عورتیں ارد گرد کھڑی ہوجاتی ہیں تو چاروں طرف سے پردہ ہوجاتا ہے۔ پانی میں ڈر بھی لگتا ہے۔ کوئی سانپ بچھو ، کوئی کیڑانہ کاٹ لے۔ اسی گندے پانی سے خود کو صاف کرتے ہیں۔ نہانے اور طہارت کے لیے صاف پانی کہاں سے آئے۔ ایک دوسری خاتون بانو اس مسئلے پر بات کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ہمارے پاس ویسے ہی کھانا اور پانی نہیں ہے۔ لوگ جو دے جاتے ہیں ہم بس چند لقمے کھاتے ہیں۔ وہ بھی جب بھوک برداشت نہیں ہوتی۔ہم پورے دن میں دو گھونٹ پانی پیتے ہیں تاکہ اس سیلابی پانی میں رفع حاجت کی آزمائش سے نہ گزرنا پڑے۔ ان حالات میں خواتین کے مخصوص ایام کا الگ مسئلہ ہے۔ وہ اس خاص صورت حال میں اپنی ضرورت کیسے پوری کریں۔ دو نوجوان خواتین بشریٰ ماہ نور اور انعم خاتون کو اس مسئلے کا احساس ہوا اور انھوں نے ’ماہواری جسٹس‘ نام سے ایک مہم کا آغاز کیا ہے جس کے تحت وہ ضرورت مند خواتین میں سینیٹری پیڈ تقسیم کر رہی ہیں۔ کسی ضعیف کے پانچ بچے ہلاک ہو گئے۔ کسی ضعیفہ نے اپنا پورا خاندان کھو دیا۔ لیکن حالات میں بھی سنگ دلی کے واقعات ہو رہے ہیں۔ لوگ ایک دوسرے کی مدد کرنے کے لیے تیار نہیں۔ اب بھی ان کی انسانیت بیدار نہیں ہوتی۔ پنجاب کے ضلع راجن پور کے امام بخش کا پہلے جہاں گھر تھا وہاں اب وہ کشتی کے بغیر نہیں جا سکتے۔ ان کے مطابق جاگیرداروں اور علاقے کے با اثر افراد نے خود کو محفوظ رکھنے کے لیے جگہ جگہ بند باندھ رکھے ہیں۔ ہم غریب لوگ ہیں ہماری اتنی استطاعت نہیں ہے کہ ہم بند باندھ سکیں۔ اس لیے جب بھی سیلاب آتا ہے ہم ڈوب جاتے ہیں۔ وہ یہ درخواست لے کر مقامی سردار کے پاس گئے کہ اگر وہ بند میں چھوٹا سا شگاف کر دیں تو سیلاب کا رکا ہوا پانی نکل جائے گا اور وہ اپنے گھروں کو واپس جا سکیں گے۔ اس نے کہا کیوں شگاف ڈالوں۔ تم ڈوبتے ہو تو ڈوب جاو ¿۔ اس نے ہمیں وہاں سے بھگا دیا۔ وائس آف امریکہ کے نمائندوں نے خیبر پختونخوا کے نوشہرہ علاقے میں انسانوں کی ذہنی پستی کے نمونے دیکھے۔ ان کے مطابق وہاں کئی لوگ اپنے گھروں کی چھتوں پر موجود تھے۔ جبران فلک نامی ایک نوجوان سے اس کی وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ اس سے پہلے جب بھی یہاں سیلابی پانی آتا تھا ہم سب علاقہ چھوڑ دیتے تھے۔ لیکن پچھلی بار جب سیلاب آیا اور ہم گھروں کو واپس آئے تو کئی گھروں سے قیمتی سامان چور نکال کر لے جا چکے تھے۔ موجودہ سیلاب میں گھر میں اپنی موجودگی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس بار عورتوں اور بچوں کو تو علاقے سے نکال لیا ہے البتہ ہر گھر پر ایک نہ ایک مرد حفاظت کے لیے موجود ہے۔یعنی اس آفت سماوی کے دوران بھی چوریوں کی وارداتیں ہو رہی ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ ان حالات میں بھی انسان اتنا بے رحم، سنگ دل اور خود غرض کیسے ہو سکتا ہے۔

You may also like

Leave a Comment