مجلس اتحاد المسلمین ایک سیاسی پارٹی ہے دستور ہند نے اویسی صاحب کو یہ حق دیا ہے کہ کسی بھی شہری اور پارٹی کی طرح وہ اور ان کی پارٹی بھی کہیں سے انتخاب لڑ سکتی ہے۔ شرائط پوری کرنے کے بعد ہی الیکشن کمیشن آف انڈیا نے مجلس اتحاد المسلمین کو اہل سیاسی پارٹی کی حیثیت سے اعتراف کیا ہے اس لئے مخصوص طبقہ کی طرف سے پروسی ہوئی "دوسری مسلم لیگ”، "مذہبی خطوط پر تشکیل شدہ پارٹی” اور "فرقہ پرست پارٹی” جیسی فضول کی بحث میں الجھنے اور ان کو کسی ریاست میں انتخابات لڑنے سے روکنے کی بات کرنے کی بجائے ملک و ملت کے مفاد میں ہماری روش کیا ہونی چاہیے اس پر غور و فکر کی ضرورت ہے۔
مہذب دنیا کے تقریباً سبھی کثیر المذاھب اور مختلف تہذیبوں والے ملکوں میں جمہوری نظام اور سیکولرازم سب سے زیادہ کامیاب تجربہ رہا ہے۔ سیکولرازم کا واضح مفہوم یہی ہے کہ ریاست (ملک) کا کوئی مذہب نہیں ہوتا ریاست، ریاست کی مشینریاں اور ریاست کے کارکنندگان ، صدر جمہوریہ، وزیر اعظم تمام وزراء نوکرشاہی (بیوروکریٹس) سے لے کر ادنیٰ درجے کا ملازم تک اور سبھی سیاسی پارٹیاں کسی مذہب کے فروغ کے لئے یا کسی مذہب کے خلاف کام نہیں کریں گی۔ ہاں ذاتی زندگی میں دوسرے شہریوں کی طرح یہ افراد بھی اپنے اپنے مذہب کی اتباع کرنے کے لئے آزاد ہیں۔
مذہبی خطوط پر ہندوؤں کی صف بندی کی جس روش کے لئے ہم بی جے پی کو نشانہ بناتے ہیں اگر اویسی صاحب بھی اپنی تقریر و تحریر اور مسجد مدرسہ درگاہ کی سیاسی زیارت کرکے مسلمانوں کی مذہبی خطوط پر صف بندی کرنے کی کوشش کریں گے اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوگا کہ ریاست کے تمام مسلم ووٹروں کا ووٹ مجلس اتحاد المسلمین کو بھلے نہ ملے ، غیروں کی نظر میں ‘ مذہبی اداروں کے فرمان کی وجہ سے مسلمانوں نے متحد ہو کر اویسی پارٹی کو ووٹ دیا ہے’ کی افواہ پھیلائی جاۓ گی، مسلمانوں پر مذہبی صف بندی کا الزام لگے گا اور مسلمانوں کو ٹکٹ نہ دینے کے لئے دوسری سیاسی پارٹیوں کو عذر ملے گا۔
دستور ہند کے متعدد بنود سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ مذہب کی بنیاد پر کسی قسم کی مراعات کسی مذہب کے ماننے والوں کے لیے نہیں ہے۔ ہاں ذات برادری اور پسماندگی کے نام پر ریزرویشن جیسی کئی مراعات کا حق دستور دیتا ہے۔ اس لئے اکالی دل (سکھوں کی پارٹی)، بہوجن سماج (دلتوں کی پارٹی) سماجوادی (یادو کی پارٹی) ڈی ایم کے (ڈراوڑ کی پارٹی) پر مجلس کو قیاس کرنا درست نہیں ہے۔ مجلس اتحاد المسلمین یا کسی بھی سیاسی پارٹی کا خالص مسلمانوں کی پارٹی بن کر وجود میں آنا ملک و ملت کے مفاد میں نہیں ہے۔ انصاریوں ، پٹھانوں اور شیخوں کی پارٹی یا مسلم پسماندہ طبقات کی پارٹی کی تشکیل پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا جس طرح یادوؤں اور دلتوں کی پارٹی پر اعتراض نہیں ہوتا۔
ہندو اور مسلم یہ دو لفظ بہت حساس ہیں۔ اور آزادی کے بعد سے ١٩٨٠ تک ہندوستان کی عوام نے نہ ہندو مہاسبھا اور جن سنگھ کو قابل اعتناء اور ملک کے مفاد میں سمجھا اور ووٹ کیا اور نہ مسلمانوں نے مسلمانوں کے لئے خالص مسلمانوں کی سیاسی پارٹی کی تشکیل دی اور نہ اسے ملک و ملت کے مفاد میں سمجھا۔
تاہم ٢٠١٣ سے ملک میں ہندو مسلم کی تفریق، مسلمانوں کے ووٹ کو بے وقعت بنانے کی کوشش اور مسلمانوں کو انتخابی سیاست میں بے حیثیت بنانے بطور امیدوار ٹکٹ نہ دینے کے عمل نے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کو بہت مایوس کیا ہے جس کی وجہ سے خالص مسلم سیاسی پارٹی کی تشکیل کی طرف بعض مسلمانوں کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ غالباََ اس کے لئے ذمّہ دار ملک کی نام نہاد سیکولر پارٹیاں ہیں جو مسلمانوں کو دیوار سے لگا رہی ہیں اور خالص مسلمانوں کی پارٹی کے لئے نوجوانوں کو دھکیل رہی ہیں۔
تاہم مسلم نوجوانوں کو ماضی کی ایسی کوششوں؛ مسلم مجلس وغیرہ کے انجام کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصلہ کرنا چاہیۓ۔
مسلمانان ہند کو اس وقت ایک عجیب قسم کی پیچیدگی کا سامنا ہے۔ ایک طرف پارلیمنٹ و اسمبلیز میں مناسب تعداد میں نمائندگی کی ضرورت ہے تو دوسری طرف سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا صرف چند نمائندوں کے موجودگی سے ہمارے مسائل حل ہوں گے ؟۔ شاید نہیں۔ مسائل کے حل کے لیے حکومت اور مقتدرہ سیاسی پارٹی میں شمولیت کی ضرورت ہوتی ہے بایں معنی کہ اپوزیشن کے اپنے اپنے مسائل اور ترجیحات ہیں وہ ہمارے مسائل کے لئے بہت سنجیدہ اور متحرک کیوں ہوں گے !
لیکن ٦٨ ممبران اسمبلی اور دایاں یا بایاں ہاتھ اعظم خان صاحب کی اکھلیش حکومت میں موجودگی کے باوجود مظفر نگر فسادات میں مسلمانوں کی عزت و آبرو جان و مال کا نقصان ہوتا رہا تھا اس کے مدنظر مسلم نمائندگی کی بات کرنا بھی بے سود نظر آتا ہے۔
وفي هذا قيل: "ليس العاقل الذي يعرف الخير من الشر، وإنما العاقل الذي يعرف خير الخيرين، وشر الشرين "ـ