Home تجزیہ اویسی کے ’’بھڑکاؤ بھاشن‘‘: ایک سوال کا جواب ـ محمد زاہد علی

اویسی کے ’’بھڑکاؤ بھاشن‘‘: ایک سوال کا جواب ـ محمد زاہد علی

by قندیل

مسلم مفکرین کے ذہنوں میں یہ بات گھر کر گئی ہے کہ اویسی کی جارحانہ تقریروں سے بجائے فائدہ، نقصان ہی ہوتا ہے، لیکن اس سوچ کو مکمل طور پر درست نہیں قرار دیا جا سکتا، مجھے لگتا ہے کہ جارحانہ تقاریر بھی لوگوں سے کنیکٹ ہونے کا بہترین ذریعہ ہوتی ہیں، بس وہ دائرے میں ہوں – اور یہ کام صرف اویسی ہی نہیں کر رہے بلکہ اس قبل بھی کئی پارٹیاں کرتی رہی ہیں، نہ جانے کیوں مسلم مفکرین یہ بات بھول جاتے ہیں کہ ماضی قریب میں کئی ایسی پارٹیاں ہیں جو جارحانہ انداز کی وجہ سے ہی حکومت تک پہنچی ہیں –
آپ اگر بہوجن سماج پارٹی( BSP) کی ابتدا دیکھیں تو آپ کو اس کے مقابلے اسد الدین اویسی کی تقاریر کچھ بھی نہ لگیں گی ، بی ایس پی کا شروعاتی نعرہ تھا:

تِلک ترازو اور تلوار
ان کو مارو جوتے چار
برہمن اتپات مچائے گا
ہاتھی بڑھتا جائے گا
برہمن ٹھاکر بنیا چور
باقی ہیں سب DS4

بی ایس پی کے ان نعروں کا مطلب تھا، برہمن، ویشیہ (بنیہ وغیرہ) اور چھتری (ٹھاکر، راجپوت وغیرہ) جیسی اونچی قوموں کو جوتے مارو – کیوں کہ انھوں نے ہمیں (دلتوں، پچھڑوں) کو ستایا اور ہماری حق تلفی کی ہے، اب اپنی قیادت کو مضبوط کرو –
ان جذباتی اور بھڑکاؤ نعروں کی ہی دین ہے کہ بی ایس پی اتر پردیش میں چار بار وزیر اعلی کی کرسی تک پہنچی – مسلم مفکرین اس نعرے کا کوئی جواز پیش کر سکتے ہیں؟ کوئی بھی دلت کیا اس نعرے کو غلط کہتا ہے؟ بی ایس پی نے آج تک اس نعرے پر معافی مانگی؟ ہرگز نہیں کیوں کہ وہ جانتے تھے جب تک ہم اپنی گری ہوئی قوم کے جذبات کو ابھار کر ووٹ میں تبدیل نہیں کریں گے تب تک ہم ایسے ہی مار کھاتے رہیں گے، لہذا انھوں نے بڑے فائدے کے لیے تھوڑا مشکل راستہ اختیار کیا اور نتیجہ ہم سب دیکھ چکے ہیں –
جب بی ایس پی کا اپنا ووٹ مضبوط ہوا تو ان نعروں میں بھی بدلاؤ ہوگیا ، کیونکہ اکیلے دلتوں کے بھروسے حکومت نہیں کی جا سکتی، پہلے نعرہ تھا "برہمن اتپات مچائے گا، ہاتھی بڑھتا جائے گا، لیکن بعد میں نعرہ یوں ہو گیا:
برہمن شنکھ بجائے گا
ہاتھی بڑھتا جائے گا
جو دلتوں کی بات کرے گا
وہ دہلی پر راج کرے گا
آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ان تبدیل ہوتے نعروں میں کس قدر اعلی سیاست کی جھلک دکھتی ہے –

ہم نے یہاں صرف ایک مثال دی ہے ورنہ آپ ملک کی سیاسی جماعتوں پر نظر ڈالیں تو اسی قسم کی سیاست نظر آئے گی، مہاراشٹر میں” شو سینا” اپنا وجود کیسے بنا پائی، آپ جانتے ہیں کہ اس نے غیر مراٹھی لوگوں کے خلاف مہاراشٹر کے لوگوں میں نفرت بھری، نتیجہ آج حکومت میں ہیں، بی جے پی آج کس بنیاد پر حکومت میں ہے، انھیں اشتعالی نعروں اور جارحانہ تیوروں کی بنا پر ، چونکہ بی جے پی پورے ہندوؤں کو لے کر سیاست کرتی ہے اس لیے اس کا اکیلا سیاست میں کامیاب ہونا ظاہر ہے جب کہ بی ایس پی، شو سینا یا لیفٹ اکیلے سیاست نہیں کر سکتیں اس لیے انھوں نے تھوڑے طریقے بدل کر اور حالات کو دیکھتے ہوئے تبدیلیاں لاکر کامیابی حاصل کی ہے –

مسلم دانشور اویسی کو سمجھیں:

لوگوں کے دلوں تک پہنچنا انکے جذبات کے ذریعے بہت آسان ہوتا ہے، جس کے پاس پیسہ نہ ہو، جس کے پاس لوگ نہ ہوں، جس کو کوئی سیاسی پارٹی گھاس نہ ڈال رہی ہو، بتائیے اس کے پاس لوگوں کو مائل کرنے کا اور کیا طریقہ ہو سکتا ہے؟ جہاں دھرم سنسد ہو رہی ہو، جہاں بات بات پر آپ کو پاکستان بھیجنے کی بات کی جارہی ہو، جہاں آپ سے ووٹ دینے کا حق چھین لینے کی بات ہو رہی ہو، ہر قانون اور ہر حکومتی قدم آپ کو نظر میں رکھ کر بنایا جارہا ہو ایسے میں اگر اویسی قانون کے دائرے میں رہ کر اپنی بات کہہ رہے ہیں تو کیا غلط ہے؟ اور اگر غلط ہے تو سیکولر پارٹیاں کیس کیوں نہیں کرتیں؟ کیا سیکولر پارٹیاں مسلم قیادت کو کنارے رکھ کر،اپنے اسٹیجوں سے دھکے دے کر اکثریتی طبقے کو یہ کمینول پیغام نہیں دے رہیں کہ ہمارے نزدیک مسلمانوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے، آپ ہمیں ووٹ کریں ہم مسلمانوں کو سبق سکھاتے رہیں گے!

آج اگر اویسی کے بیانات کچھ جذباتی اور بھڑکاؤ لگتے ہیں تو کل یہ بہتر ہونگے، لیکن مجلس کو گھر گھر پہنچانے کا اس سے بہتر کوئی اور ذریعہ نہیں ہے، آج سے پہلے کیا اویسی جتنا رسپانس کسی دوسرے مسلم لیڈر کو ملا ہے؟ اگر نہیں تو غور کریے، سمجھ جائیں گے کہ ایک وجہ یہ بھی رہی ہے کہ انھوں نے اپنی قیادت کی بات نہیں کی، دوسری وجہ وہ نوجوانوں کو اپنی طرف راغب نہیں کر پائے، جو وقت کی نبض کو سمجھ لے اور اسی کے مطابق کام کرے وہی سیاسی لیڈر کامیاب ہوتا ہے، ورنہ ہزاروں جی حضوری کرنے والے لیڈر آئے بھی اور چلے بھی گیے نہ وہ کچھ کر سکے اور نہ دیگر کر سکیں گے، غلام نبی آزاد، احمد پٹیل، نسیم الدین، شہاب الدین، مختار انصاری، عتیق وغیرہ وغیرہ بہت سے لیڈر ہیں لیکن نوجوانوں کا دل دھڑکتا ہے تو اویسی صاحب کے نام پر دھڑکتا ہے، اب اگر اس طاقت کو اویسی صاحب کیش نہ کریں تو کیا کریں!!!
اویسی کی تقریروں سے کوئی نقصان تو سمجھ نہیں آتا،البتہ مسلم لیڈر شپ کے چانس دکھتے ہیں، جب کہ خاموش رہنے والے اور وفاداری کرنے والے لیڈر یا تو "تہہ مزار چلے گیے” یا پھر جیلوں میں اپنی موت کا انتظار کر رہے ہیں، اگر لڑ کر مرا جائے تو بہتر ہے ورنہ موت تو غلاموں کو جیل میں بھی آہی جائے گی، یاد رکھیں! تاریخ ہمیشہ لڑنے والوں کی لکھی جاتی ہے، آرام کرنے والوں کو کوئی بھولے سے بھی یاد نہیں کرنا چاہتا –

You may also like

Leave a Comment