ان دنوں سوشل میڈیا مولانا محمود مدنی اور اسدالدین اویسی کے موافقین و مخالفین کے درمیان جنگ کا اکھاڑہ بنا ہوا ہے ، لوگ جی بھر کر انہیں کوس بھی رہے ہیں ، ان کی سراہنا بھی کر رہے ہیں ، ان کے لتے بھی لے رہے ہیں اور ان کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے بھی ملا رہے ہیں ، اعتدال کو سوشل میڈیائی بھیڑ نے رخصت کر دیا ہے ، جبکہ ہمیں اعتدال سے کام لینے کا حکم ہے ، ہمیں امت وسط کہا گیا ہے ۔ کئی لوگوں نے مجھ سے دریافت کیا ہے کہ اس معاملہ میں تم کیا کہتے ہو؟ میں دونوں ہی شخصیات کا احترام کرتا ہوں ، لیکن اختلافات کے ساتھ ، اور اختلاف کرتے ہوئے ذاتی حملے کرنا مناسب نہیں سمجھتا ۔ جیسے تعریف کھل کر کی جاتی ہے اسی طرح اختلاف بھی کھل کر کیا جا سکتا ہے لیکن اخلاقی قدروں کی برقرای کے ساتھ ۔ محمود مدنی اور اسدالدین اویسی کے کام کرنے کے ڈھنگ مختلف ہیں ، ایک کام کرتا ہے اور دوسرا آواز اٹھاتا ہے ، اور مسلمانوں کے لیے فی الحال کام بھی ضروری ہے اور آواز کا اٹھانا بھی ۔ لوگ جمعیتہ پر انگلی اٹھاتے ہیں کہ فسادات کے بعد حرکت میں آتی ہے ! بات سچ نہیں ہے ، میں ایک جرنلسٹ کے طور پر جانتا ہوں کہ یہ جماعت فسادات سے قبل ، کشیدگی کے دوران بھی تشدد روکنے کے لیے کوشاں رہتی ہے اور فسادات کے دوران بھی ۔ فسادات کے بعد جب لوگ اجڑتے ہیں ، اور جب وہ لوگ جن کے پیارے مارے جاتے ہیں اور وہ غم کے سمندر میں ڈوبے ہوتے ہیں اور جب پولیس مقدمات کی بھرمار کر دیتی ہے اور خانماں بربادوں کو دور دور تک اندھیرا نظر آتا ہے تب بھی یہ جماعت ( اور بڑی حد تک جماعت اسلامی) سرگرم رہتی ہے ۔ یہ کام کھیل نہیں ہے ۔ گجرات اور میوات کی مثال سامنے ہے ، آج بھی یہ جماعت مقدمے لڑ رہی اور بازآبادکاری کر رہی ہے ۔ دہشت گردی میں ملوث کیے گیے افراد کے مقدمے لڑنا کھیل نہیں ہے ، لیکن یہ کام بھی یہ جماعت کر رہی ہے ۔ مدارس و مساجد کے معاملات ، شہریت کا مقدمہ اور نہ جانے کتنے مسائل ہیں جن پر یہ جماعت توجہ دے رہی ہے ۔ ہاں مگر شکایت ہے کہ اس جماعت نے اسکول اور کالج بنانے پر توجہ نہیں دی ، اسپتال اور مسافروں کے لیے ہوسٹلوں کا قیام نہیں کیا اور نہ ہی ایسے منصوبے تیار کیے جو مسلم نوجوانوں کو روزگار دلانے میں مدد دیں ، یہانتک کہ روزگار ورک شاپ بھی یہ نہیں کراتے ۔ لیکن جو کام یہ کرتے ہیں اور اس جماعت کے اکابروں نے کیا ہے وہ اور کوئی نہ کرتا ہے اور نہ کر سکتا ہے ۔ مولانا محمود مدنی سے ایک بڑی شکایت ان بیانات کے لیے ہے جو لگتا ہے کہ حکومت کے دفاع میں ہیں ، لیکن یہ بھی سچ ہے کہ جب وہ حکومت کی پالیسیوں کے خلاف بولتے ہیں تو خوب بولتے ہیں ۔ اسدالدین اویسی ان سیاست دانوں میں سے ہیں جو آواز اٹھاتے ہیں، پارلیمنٹ میں بھی اور سڑک پر بھی اور زوردار آواز اٹھاتے ہیں ۔ مسلم مسائل پر آواز اٹھنی بھی چاہیے ، لیکن اعتدال کے ساتھ ۔ ان کے بھائی اکبرالدین اویسی کا یہ کہنا کہ پندرہ منٹ کے لیے پولیس کو ہٹالو ، یا اسدالدین اویسی کا یہ کہنا کہ یوگی اور مودی ہمیشہ نہیں رہیں گے ، اعتدال سے ہٹ کر ہیں ۔ پولیس ہٹے یا یوگی اور مودی نہ رہیں ، کیا ہوجائے گا ! تشدد ہی ہوگا ! اور تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں ہے ۔ مسلمانوں کا محفوظ رہنا ضروری ہے ۔ اویسی کی آواز کا خیر مقدم ہے مگر ان کے ایسے جملوں کا نہیں جو کسی مسلمان کی جان جانے کا سبب بنیں ۔ اویسی مسلمانوں کے مسائل اٹھائیں ، ان کے کام کریں ، ان کی روزی روٹی کے لیے حکومت پر دباؤ بنائیں اور انہیں محفوظ بنانے کے لیے ان کے آئینی حقوق انہیں دلوائیں ۔ یہ سب کریں کہ ایک سیاست داں کے یہ کام ہیں، بھلے وہ عام مسلمانوں کے مقدمے نہ لڑیں اور فسادات کے دوران بازآبادکاری کے لیے سرگرم نہ رہیں ۔ اور الیکشن بھی لڑیں لڑوائیں مگر جیتنے کے لیے ہارنے کے لیے نہیں ۔ ہارنے کے لیے لڑیں گے تو فرقہ پرست تو جیت جائیں گے مگر وہ مسلم لیڈر جو ایوانوں میں رہ کر کچھ کام کرتے رہے ہیں وہ ضرور ہار جائیں گے ۔
(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)