Home تجزیہ خواتین اور نوجوانوں کے لئے مسجدوں میں جم کھولیں!- نقی احمد ندوی

خواتین اور نوجوانوں کے لئے مسجدوں میں جم کھولیں!- نقی احمد ندوی

by قندیل

مساجد کے اندر جم کی سہولیات فراہم کرنا، مسجد کے کسی کمرہ کو ورزش کے لیے خاص کرنا یا نماز کے بعد مسجد ہی کے اندر تھوڑی سی ورزش کرنا نہ صرف جائز ہے، بلکہ بعض حالات میں مطلوب اور عین ثواب کا کام ہے تو بعض حالات میں فرض بھی ہے۔ مسلم قوم یوں بھی معاشی طور پر بیک وارڈ ہے، لہٰذا جن علاقوں اور محلوں میں مسلمانوں کی اکثریت رہتی ہے، ان محلوں میں نہ تو سرکار کی طرف سے پارک ہوتے ہیں اور نہ ہی کسی انجمن کی طرف سے کوئی ورزش گاہ، نوجوان مردو عورت اپنے آفسوں میں آٹھ گھنٹہ گزارنے کے بعد پھر آکر ایک فلیٹ میں قید ہوجاتے ہیں، جہاں کی گلیاں تنگ ہوتی ہیں، صاف ہواؤں کا گزر بھی نہیں ہوتا، بوڑھے اپنی چارپائیوں پرمقید اور بچے اپنی گیلریوں تک محصور رہتے ہیں اورعورتوں کی تو بات ہی چھوڑ دیجیے! ان کی صحت کے بارے میں تو کوئی سوچتا ہی نہیں، نہ تو ورزش کا ان کو موقع فراہم کیا جاتا ہے اور نہ ہی ان کو اسکی ترغیب دی جاتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ خواتین میں سے بیشتربہت سی خطرناک بیماریوں جیسے ہارٹ اٹیک، شوگر اور بلڈ پریشر وغیرہ کا شکار ہوجاتی ہیں۔ اگر ایسے محلہ کی مسجدوں میں ورزش اور ایکسرسائز کا انتظام کردیا جائے تو بوڑھے، بچے، نوجوان اور خواتین تمام کی صحت کا بہترین نظم ونسق بخوبی کیا جاسکتا ہے۔
جم کا تصور جو عام طور پر ہے کہ جم خانہ میں میوزک بجتا رہتاہے، پردہ کا انتظام نہیں ہوتا، انسٹرکٹر بیشتر مرد حضرات ہوتے ہیں، ایسا آپ مت کیجیے، بلکہ جم خانہ کا اصل ہوں۔
آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوگا کہ جم خانے مسجدوں میں کیوں کھولے جائیں، اس کے لیے محلہ میں کوئی اورجگہ کیوں خاص کردی جائے۔ اس کے دو فائدے ہیں۔ پہلا فائدہ یہ ہے کہ ہمارے نوجوان، بچے اور خواتین مسجدوں میں آنا جانا شروع کریں گے اور وہ اللہ کے گھر سے جب رشتہ جوڑیں گے تو دیگر دینی فوائد بھی حاصل ہوں گے۔ دوسرا فائدہ یہ ہے کہ ہم ان کو اسلامی ماحول اکسرسائز کے لیے فراہم کریں گے جو باہر مفقود ہے، تیسرا فائدہ یہ ہے کہ مسجد کو مالی نفع بھی حاصل ہوگا جسے دیگر خیر کے کاموں میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا مسجدوں کے اندر جم کھولنا جائز ہے یا نہیں، اس پر دنیا کے مشہور علماء کے فتوے نقل کرنا طوالت کا باعث ہوگا۔ صرف ایک فتویٰ یہاں نقل کیا جاتا ہے جو سعودی عرب کے مفتی اعظم شیخ عبدالعزیزؒ بن باز نے اردن کے چند حوصلہ مند نوجوانوں کے ایسے ہیسوال پر دیا تھا۔ اردن کے علماء نے مسجد میں جم کھولنے کو جائز اور مناسب قرار دیا ہی تھا اس کی توثیق شیخ ابن باز نے بھی کی تھی اور یہی تقریباً سارے مسالک اور مذاہب کے بیشتر علماء کا خیال ہے۔

 

 

آپ یہ سوچ رہے ہوں گے کہ اگر واقعی ایسا کیا جاسکتا ہے تو کیا ہمارے اس دور میں بھی کسی مسجد میں جم موجود ہے، کیا آج کسی مسجد میں اکسرسائز اور ورزش کرائی جاتی ہے، اگر ایسا ہے تو ہم بھی اپنی مسجدوں میں بھی اس نیک کام کو شروع کرینگے تو آئیے ہم دیکھتے ہیں کہ کہاں کہاں مسجدوں کے اندر ایکسرسائز کا انتظام موجود ہے۔
ٹائمز آف انڈیا نے حیدرآباد کی ایک مسجد کی رپورٹ شائع کی ہے اس رپورٹ کے مطابق پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ تلنگانہ کی ایک مسجد میں عورتوں کے لیے جم کھولا گیا ہے۔ جس میں ایکسپرٹ خواتین بھی ہونگی جو اکسرسائز کی ٹریننگ دیں گی۔ اس جم کا مقصد جھونپڑیوں میں عورتوں کے درمیان پنپنے والی بیماریوں کے خدشات کو کم کرنا ہے۔ چنانچہ تلنگانہ کی ایک مسجد نے جس کا نام مسجد مصطفی ہے جم کی سہولتوں کے ساتھ ایک فٹنس سینٹر کھولا ہے۔ جم کے اندر فٹنس صلاحکار اور ڈاکٹر بھی ہیں۔یہ راجندر نگر کے وادی محمود میں واقع ایک مسجد کے اندر ہے جس کی فنڈنگ امریکہ کے ایک این جی او SEEDنے کی ہے۔ حیدرآباد کی Helping Hand Foundationاس سلسلہ میں مسجد کی کمیٹی کے ساتھ مل کر کام کررہی ہے۔ (۹)
یہ تو رہی ہندوستان کی بات، اگر آپ یوروپ کے ممالک اور امریکہ وغیرہ کی مساجد کی ویب سائٹ پر جاکر ان کی مسجدوں میں ہونی والی سرگرمیوں کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ مسجدوں میں اس نوعیت کا انتظام وہاں عام سی بات ہے۔ چنانچہ یورپ کی ایک مشہور مسجد جامع عمر کے ویب سائٹ پر آپ کویہ لکھا ہوا ملے گا: ”خوش آمدید ہماری مسجد کے جم میں!“
شام کے وقتہمارے جم کے اندر مختلف قسم کے تفریحی اور ورزشی پروگرام کرائے جاتے ہیں۔ کچھ مقبول کھیلوں اور سرگرمیوں میں ہاکی بال، باسکٹ بال، بیٹ منٹناور والی بال وغیرہ ہیں جو مسجدکے احاطہمیں ہوتے ہیں۔ روایتی ورزش کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ ہم آپ سے اپیل کرتے ہیں کہ ہمارے جم خانہ سے فائدہ اٹھائیں جو جدید آلات سے مکمل لیس ہے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ دوسرے لوگ اپنی مسجدوں میں صحت کے متعلق وہ تمام کام کررہے ہیں جو ان کے اطراف کی ضرورت ہیں۔ لہٰذا اگر ہم بھی اپنے محلہ میں اس نوعیت کا چھوٹا بڑا پروگرام یا جم کھولنے کی شروعات کریں تو یقینا ملک و ملت کی ایک بڑی خدمت ہوسکتی ہے۔
اس سے مسجد کا فائدہ یہ ہوگا کہ جم یا اکسرسائز کی مشینیں لگانے اور ورزش کی سہولیات فراہم کرنے کے عوض مسجد مناسب فیس بھی وصول کرسکتی ہے، جس سے مسجد کو مالی فائدہ حاصل ہوگا۔ دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ ہمارے معاشرہ کے بوڑھے، بچے اور خواتین سبھی مسجد سے جڑتے چلے جائیں گے، تیسرا فائدہ یہ ہوگا کہ ہم مسلمانوں کی صحت کے میدان میں بہت ہی غیر معمولی تبدیلی لانے میں کامیاب ہوسکتے ہیں، چوتھا فائدہ یہ ہوگا کہ ہمارے اس قدم سے دوسروں کو اپنے مساجد میں اسی  نوعیت کی سرگرمیاں کرنے میں دلچسپی پیدا ہوگی اور ایک مثبت تبدیلی نظر آنی شروع ہوجائے گی۔

 

 

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کا طریقہ کارکیا ہوگا؟ سب سے پہلی بات کہ یہ کوئی ضروری نہیں کہ تمام مساجد کو ورزش گاہ بنادیا جائے۔ بلکہ جس مسجد میں اس قسم کی سرگرمیوں کے انعقاد کا امکان ہو وہاں شروع کیا جائے۔ لہٰذا اگر آپ کی مسجد میں صحت کا شعبہ کھولنے کی گنجائش ہے تو اس کے کئی طریقے ہوسکتے ہیں۔ اگر مسجد کے اندر ہال ہے یا بڑا کمرہ ہے یا مسجد کی مناسب چھت ہے تو وہاں پر دوڑنے کی مشین، اور دیگر ایکسرسائز مشینیں رکھی جاسکتی ہیں اور اگر کسی مسجد میں جگہ اورکمروں کی فراوانی ہے تو وہاں پر انڈور گیمس کی سہولیات بھی مہیا کرائی جاسکتی ہیں۔ کھیل، ایکسرسائز اور ورزش سے پہلے یا بعد میں پانچ منٹ کا دینی درس بھی دیا جاسکتا ہے۔ جو آہستہ آہستہ نئی نسل اور خاص طور پر اسکول اور کالج کے بچوں کے اندر بنیادی دینی معلومات پہچانے کا ایک اچھا وسیلہ بن سکتا ہے۔
کسی بھی قوم اور ملک کا مستقبل اس کی نوجوان نسلوں پر منحصر ہوا کرتاہے اور نوجوان نسل کا صحت مند اور طاقت ور ہونا کسی بھی قوم اور ملک کے روشن مستقل کی ضمانت  ہے۔ چنانچہ ورزش کے ساتھ ساتھ ہم اگر اپنی مساجد میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے کراٹے اور باکسنگ وغیرہ کی ٹریننگ کا انتظام کریں تو اس کے بھی کئی فائدے حاصل ہوسکتے ہیں، خاص طور پر اس زمانہ میں خواتین اور لڑکیوں کو اپنی مدافعت کی ٹریننگ دینا بہت ضروری ہے۔اور مسجدوں سے زیادہ محفوظ اور پرامن ماحول خواتین کے لیے اور کون سی جگہ ہوسکتی ہے جہاں انکی ٹریننگ کا انتظام کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا جن مساجد میں اس قسم کی ٹریننگ کے امکانات موجود ہیں وہاں اگر اس کا انتظام ہوجائے تو صحت کے میدان میں ایک مثبت تبدیلی لانے میں ہم لوگ کامیاب ہوسکتے ہیں۔

You may also like

Leave a Comment