Home خاص کالم آن لائن تعلیم ایک عارضی ضرورت-مفتی ابو بکر جابر قاسمی

آن لائن تعلیم ایک عارضی ضرورت-مفتی ابو بکر جابر قاسمی

by قندیل

ناظم ادارہ کہف الایمان ٹرسٹ، حیدرآباد(تلنگانہ)
اُن دوستوں کی ،بزرگوں کی رائے بالکل صحیح اور حق بجانب ہے کہ online تعلیم ہر گز صحبت کا بدل نہیں ہے اور براہ راست، بالمشافہ، فیس ٹو فیس پڑھنے میں جو نورانیت ،برکت اور جو صفات کا منتقل ہونا اور جو تاثیر ہے،وہ online میں ہر گز نہیں ہو سکتی ہے۔ ہمارے اکابر اور سنت و شریعت کا عام طریقہ بھی یہ نہیں رہا اور اس کے کچھ نہ کچھ side effects ہونے کا بھی اندیشہ ہے کہ بچہ فون لے نہیں پا تا تھا لے لے گا ۔ بہت دیر تک بیٹھنے کی وجہ سے اور کان میں head phones لگانے کی وجہ سے صحت کا نقصان ہوگا وغیرہ وغیرہ۔
ان ساری باتوں کا اعتراف کرتے ہوئے،سر آنکھوں پر رکھتے ہوئے،اکابر جواب اجازت دے رہے ہیں اور اس کا رواج ضروری ہو چکا ہے اس کی وجوہات یہ ہیں:
1)ہم تدریس کتنی دیر کرییں گے، ڈھائی گھنٹہ کریں گے یا آٹھ گھنٹے ؟باقی کے اوقات کتنے گھروں میں تعلیم تربیت کے لیے گذر سکتے ہیں؟
2) عام طور پر یہ بات عرض کی جا رہی ہے۔ ہماری طرف سے online تو سبھی ہیں تبلیغی بھی ہیں اور غیر تبلیغی بھی ، مامور بھی ہے امیر بھی، شاگرد بھی ہے استاذ بھی ہے،بالعموم بیوی بھی ہے شوہر بھی ہے، بچے بھی ہیں ماں باپ بھی ہیں، online سبھی ہیں۔اس online ہونے کو تدریس کے لیے استعمال کرنا ہے، online ہوکر متکلم اور مخاطب کا رابطہ کردینا ہے، online ہونے کا ایک صحیح مصرف اور صحیح میدان ان کو بناکر دینا ہے۔
3) تیسرا پہلو جو غور کرنے کا ہے، وہ یہ ہے کہ مستقل حل کے طور پر ہم online نظام کو پیش نہیں کر رہے ہیں،یہ اصلی حل نہیں ہے،اضطراری حل ہے،emergency کا solution ہے،temporary ہے دائمی نہیں ہے، اخف الضررین اور اھون البلیتین اور نہ ہونے سے ہونا بہتر ہے،اس لئے اس کو موجودہ وقت میں رواج دیا جا رہا ہے،کتنے گاؤں، کتنے علاقے،کتنی بستیاں،کتنے گھرانے ایسے ہیں کہ جو خود تعلیم وتعلم کا سلسلہ شروع کرسکتے ہیں اورشروع کریں گے تو کون سی کتاب کتنی دیر پڑھیں گے،یہ سوچا جائے،عملی طور پر تقریباً چھ مہینے ہر آدمی نے تو تجربہ کرلیا، رمضان میں تو کسی قدر نماز، روزہ کا معمول رہا لیکن رمضان کے بعد سب کا وقت کیسے تباہ ہو رہا ہے، سستی، کاہلی،مختلف قسم کے امراض فون کا غلط استعمال،بچوں کے جھگڑے، شرارتیں، بیوی شوہر کے درمیان اُلجھن،خود ہمارے دعوت کے ساتھیوں میں بھی انفرادی ملاقاتوں کے نہ ہونے،ایک دوسرے کے سکھ دکھ میں حصہ نہ لینے کی وجہ سے بزدلی کی کیفیت،پست ہمتی کی کیفیت،مایوسی یا بے حسی کی کیفیت،اس طرح کی کیفیات کے مقابلہ میں بہت ضروری ہے ان کے ہمت و حوصلے کو oxygen دینے کا اور اس کا ایک ذریعہ یہ online تدریس بھی ہو سکتی ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ آقا -صلی اللہ علیہ وسلم- نے خطوط کے ذریعے بھی تعلیم دی ہےاور کسی درجہ میں خطوط کا ایک بدل اس کو بھی سمجھا جا سکتا ہے ، اُن دوستوں کو سوچنا چا ہیے جو اس کا انکار کر رہے ہیں اور ان کی طبیعتیں ابھی تک منشرح نہیں ہوئی ہیں۔ اگر ہم online تعلیم شروع نہیں کریں گے تو باطل افکارکی online اشاعت شروع ہوچکی ہے اور اب ہماری نسلیں اُن سے زیادہ جڑتی جارہی ہیں ،گمراہ فکر کے حاملین کے قریب ہوتی جارہی ہیں۔
ہم نے حج میں خود یہ منظر دیکھا کہ ہمارے خیمے کی عورتیں ہمارے حلقے کو چھوڑ کر وہاں جاکر تفسیر سن رہی ہیں ،میرے محلے میں خود اس قسم کا حلقہ چلتا ہے جس میں لوگ جمع ہوکر online ان گمراہ افراد کے بیانات وغیرہ سنتے ہیں،غامدی صاحب کا فتنہ،گوہر شاہی کا فتنہ،الحاد کے فتنے،خدا بیزاری کے فتنے،کتنے ہزاروں challenges ہیں۔ اگر ہم نے اب شروع نہیں کیا تو یہ فراغت اور فرصت ہماری نسلوں کو ہمارے ہاتھ سے کھودینے کا ذریعہ نہیں بنے گی؟
میں زیادہ گفتگو کرکے اس تحریر کو دراز کرنا نہیں چاہتا لیکن اتنے پہلو ایک سمجھ دار آدمی کے لیے کافی ہیں ۔
اب تک ایسی emegency کی صورت حال ،عالمی وبا کی صورت حال پچھلے ساٹھ ستر سال میں پیش نہیں آئی اس لئے یہ طریقہ سوچا نہیں گیا،اب یہ وبا پیش آئی ہے،اب ہمارے اکابر اسے نظر تحسین سے دیکھ رہے ہیں۔ مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے خود فرمایاکہ: اب میں خود بھی online پڑھنے پڑھانے کا طریقہ سوچ رہا ہوں اور اسی طریقے سے ہمارے شہر کے بزرگان اور دوسرے لوگ کئی اس موضوع پر آ چکے ہیں۔
ایک اور پہلو سوچنے کا ہے جب ہر گھر اسکول بن چُکا ہے تو ہر گھر مدرسہ کیوں نہیں بن سکتا ہے؟ یا ہر گھر فحاشی کا اڈہ ،عریانیت کا اڈہ، فضولیات کا اڈہ اور گیمز کی مصروفیت کا ٹھکانہ بن سکتا ہے، تو مدرسہ اور دینی تعلیم کا ٹھکانہ آن لائن طریقے سے کیوں نہیں بن سکتا؟
یہ لوگ خود ہی اپنے دلوں پر ہاتھ رکھ کر سوچیں کہ گھر میں جس ماحول کے بنانے کی بات کہی جا رہی ہے، وہ بات بھی کیسے کہی جائے گی؟ اور اس بات کو لے کر چلنے والا عوام میں کتنابڑا طبقہ ہے؟ جب حالات کھلے تھے تب کتنے تھے؟ اب کتنے لوگ رہیں گے؟زمینی صورت حال سے نا واقفیت،میدانی صورت حال سے نا واقفیت کے نتیجے میں اس قسم کے شبہات ہیں۔ حضرت مولانا پیر ذو الفقار صاحب دامت برکاتہم کی ویب سائٹ” E-MAHAD "دیکھیے ۔ امریکہ اور مختلف دنیا کے چپے چپے کی عورتوں نے کیسے کیسے اُن کے courses سے استفادہ کیا ہے۔ online عالم کورس کرنے والے دسیوں، سیکڑوں شاگرد ہیں، جو دنیا بھر سے حضرت سے اور کئی onlineاداروں سے جڑے ہوئے کام کر رہے ہیں۔آپ ہمت وحوصلے کے ساتھ آگے بڑھیے۔

You may also like

Leave a Comment