Home تجزیہ ایک ملک، ایک الیکشن: ہندستان کے وفاقی نظام پر حملہ-صفدر امام قادری

ایک ملک، ایک الیکشن: ہندستان کے وفاقی نظام پر حملہ-صفدر امام قادری

by قندیل

شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ

بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کے بارے میں صحافتی حلقے میں یہ بات عام ہے کہ یہاں جملہ بازی اور نعرے گڑھنے پر بنیادی توجہ صرف ہوتی ہے۔ اِ س لیے جب وزیرِ اعظم نے کچھ بَرس پہلے ’وَن نیشن وَن الیکشن‘ کی بات کہی تو سیاسی حلقے میں اسے اُن کی جملے بازی اور قافیہ پیمائی ہی سمجھا گیا تھا۔ اِس قوافی میں اُنھوں نے ایک کانسٹی ٹیوشن کا بھی تذکرہ کیا تھا۔ اکثر لوگوں نے اِس بات کو زیادہ سنجیدگی سے لینے کی ضرورت نہیں سمجھی کہ یہ عملی طور پر مشکل بھی ہے اور ہندستان کے لیے زیادہ ممکن بھی معلوم نہیں ہوتا۔ پارلیمانی انتخاب کے ساتھ ساتھ اسمبلی انتخابات بھی ہوں اور اِسی کے ساتھ کارپوریشن، منیوسپلٹی اور پنچایت سطح کے بھی انتخابات ہو جائیں، یہ ناممکنات میں معلوم ہوتا تھا مگر گذشتہ بَرس سابق صدرِ جمہوریہ رام ناتھ کووند کی قیادت میں جب ایک اعلا سطحی کمیٹی کے قیام کا اعلان ہوا جسے ’ایک ملک ایک الیکشن‘ کے موضوع پر نہ صرف یہ کہ غور و فکر کرنا تھا بل کہ یہ بھی تھا کی دنیا بھر کے لوگوں سے اُن کی رائے شماری بھی کرا لی جائے اور پھر یہ فیصلہ ہو۔

سابق صدرِ جمہوریہ کی رپورٹ مدت معینہ کے گزرتے ہوئے موصول ہو گئی اور حکومت نے بھی اُس رپورٹ کو مرکزی کابینہ میں رکھ کر نفاذ کے سلسلے کو دراز کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اب حالت یہ ہے کہ سیاسی خیموں میں رفتہ رفتہ یہ سوال زور پکڑتا جا رہا ہے اور عام لوگوں کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے افراد بھی اپنی بے لاگ رائے سے میڈیا کے مختلف ذرائع کو آگاہ کر رہے ہیں۔ ایک قابلِ ذکر طبقہ وہ ہے جسے محسوس ہوتا ہے کہ اِس سے ہندستانی آئین میں موجود وفاقی ڈھانچے پر ضرب پڑے گی۔ اُن کا کہنا ہے کہ ہندستان مختلف صوبوں کا ایک وفاق ہے۔ موجودہ عہد کا سیاسی منظر نامہ یہ بات واضح کر رہا ہے کہ ملک کے گوشے گوشے میں مرکزی حکومت سے الگ سیاسی جماعتوں کا نہ صرف یہ کہ حکومتیں قائم ہیں بل کہ یہ بات بھی قابلِ توجہ ہے کہ ہندستانی جمہوریت کی نیرنگی اور رنگا رنگی کے مظاہر بھی اِس سے ظاہر ہوتے ہیں۔ ہندستان کا آئین بھی یہی بات پیشِ نظر رکھتا ہے جس میں وفاقی ڈھانچے اور تکثیری نظام کی شد و مد کے ساتھ وکالت ملتی ہے۔

نریندر مودی یا آر۔ایس۔ایس کے افراد آخر ایسا نظام کیوں چاہتے ہیں کہ تمام طرح کے انتخابات ایک ہی دن یا ایک ہی موقعے سے منعقد کیے جائیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی یا آر۔ ایس۔ایس کا کھلا مقصد ہے کہ جب وہ سیاسی فَضا کو انتخابی دَور میں مکدر کر دیں، اور اُسی دکّا مکّی میں ایک ساتھ پارلیمنٹ اور اسمبلی ہی نہیں مقامی سطح کے کام بھی ہو سکیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کو معلوم ہے کہ وہ کسی سوال کو زیادہ سے زیادہ جذباتیت کے سہارے اُٹھا کر عوام کو گمراہ کرنا ضروری سمجھتی ہے۔ اِسی مرحلے میں وہ محنت ایک کام کے لیے کریں گے اور اُنھیں مختلف گوشوں سے انعامات حاصل ہوتے رہیں گے۔ اِس کے مخالفین کا واضح فیصلہ ہے کہ یہ عمل ہندستان کے وفاقی نظام کو تحس نحس کر دے گا اور ملک میں حزبِ اختلاف کی پارٹیوں کو تباہ و برباد کرنے میں اُنھیں کامیابی حاصل ہوگی۔ ابھی تک تو ایسا ہوتا آیا ہے کہ مرکزمیں جس کی حکومت ہے بہت سارے صوبوں میں حزبِ اختلاف کی پارٹیوں کی حکومتیں کام کر رہی ہیں۔ بار بار صاحبِ اقتدار جماعت کو ہارنا پڑتا ہے تب جا کر کہیں ہندستان کا وفاقی نظام نہ صرف یہ کہ قائم ہے بل کہ اپنی رنگا رنگیوں کی وجہ سے عالم میں مثال ہے۔ حکومت کو معلوم ہے کہ ایک زہر افشانی کی بہ دولت نریندر مودی یا امت شاہ جیسے افراد پورے معاشرے کو جذباتی ہیجان میں مبتلا کریں گے اور اُسی گیدڑ بھبکی میں پارلیمنٹ کے ساتھ ساتھ اسمبلی اور پنچایت کے انتخابات بھی جیت کر اس جملے کو مزید توسیع دینے کا خوفیہ ارادہ ہے۔ ایک ملک ایک الیکشن ایک آئین اور ایک صاحبِ اقتدار پارٹی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی جیسے جیسے طاقت بڑھی ہے، ہندستان کو ہندو راشٹرا میں تبدیل کرنے کے قانونی اور آئینی جواز کے کبھی پوشیدہ اور کبھی کھلے اعلانات سننے کو ملتے ہی رہے ہیں۔ بہت سارے لوگوں کو اِس بات کا خدشہ ہے کہ یہ فیصلہ ملک کو اُنھی اندھیروں تک پہنچانے کی مہم کا حصّہ ہے۔

حکومت ہند کا جواز بڑا معصومانہ ہے کہ بار بار انتخابات ہونے سے سیاسی پارٹیوں، حکومت اور بالآخر عوام کے اخراجات بڑھتے ہیں اور اس کے چلتے بار بار لا آن ارڈر کے شدید قسم کے مسائل سامنے آتے ہیں۔ دنیا کے سب سے ترقی یافتہ ممالک کے انتخابات پر نظر ڈالیں تو وہاں بھی ایک دن یا چار دن میں انتخابات کا عمل مکمل نہیں ہوتا۔ امریکا میں تو مہینوں اس کیفیت میں پوری قوم اور حکومتی مشینری لگی رہتی ہے مگر وہاں ایسی کھلی شکایت نہیں آتی ہے۔ جب کہ وہاں اِ س بات کی آسانی ہے کہ صدارتی نظام میں قومی سطح پر ایک دن میں انتخابات مکمل کر لیے جائیں کیوں کہ بہ راہِ راست انتخاب کے لیے ہر شہری کو اُنھی امید واروں کو ووٹ دینا ہے۔ مگر ہندستان میں ہم پارلیمنٹ یا اسمبلی کے ارکان کو چنتے ہیں اور وہ پھر اپنے قائدین کو منتخب کرتے ہیں۔ گذشتہ پارلیمانی انتخاب میں ہندستان کے الیکشن کمیشن کی نا اہلی اور غیر پروفیشنل رویے پر اخباروں میں بہت کچھ لکھا گیا تھا۔ انتخابات کی تاریخ اور فیز کے تعین میں اس بات کو سب نے محسوس کیا کہ کہیں نہ کہیں مرکزی حکومت کی معاونت کے لیے پوری اسکیم کھڑی کی جا رہی ہے۔ بڑے صوبے میں ایک ہی دن میں انتخابی عمل مکمل ہو گیا اور چھوٹے صوبے میں پانچ اور ساتھ مراحل میں انتخابات کرائے گئے۔ اِس سے پہلے پارلیمانی انتخاب کو دس مراحل میں مکمّل کیا گیا تھا۔ہمیشہ حکومتِ ہند اور الیکشن کمیشن اتنے زیادہ مراحل کے پیچھے یہ بات کہتے نظر آتے ہیں کہ دفاعی عملوں کی کمی اور الیکشن مشینری کی سرگرمیوں میں توازن بٹھانے میں ایسے مراحل بڑھتے جاتے ہیں۔ کم وبیش پہلے مرحلے سے لے کر آخر مرحلے تک اور پھر انتخاب کے نتائج آنے اور سرکار بننے تک ڈھائی سے تین مہینے وقت ہمارا الیکشن کمیشن ایک پارلیمانی انتخات کے لیے ضائع کرتا ہے۔ اب اگر اُسی دَروانیے میں اُسے اسمبلی کے انتخابات اور لوکل باڈیز کے انتخابات کی ذمّہ داری دے دی جائے تو اِ س بات کی قیاس آرائی کی جا سکتی ہے کہ ہندستان کا الیکشن کمیشن تین مہینے کے بجائے چھے مہینے میں یہ عمل مکمل کرے گا۔ ایسی حالت میں وقت، پیسے اور عوام کو پیش آنے والی پریشانیوں میں اضافی تو ہو سکتا ہے، تخفیف کا معاملہ ہر گز ہرگز سامنے نہیں آئے گا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی یہ بہانہ بنا رہی ہے کہ نہرو کے زمانے میں پارلیمنٹ اور اسمبلی کے انتخاب ایک ساتھ ہوتے تھے۔ اُسے یہ بات یاد نہیں رہتی کہ اُس وقت ہندستان کی آبادی ۳۵؍ کروڑ تھی اور آج اُس سے چوگنی آبادی ہو چکی ہے۔ یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ اُس زمانے میں ۳۰؍ فی صد سے کم ووٹنگ کے اعداد و شمار ملتے ہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جنگِ آزادی کے بعد گانگریس کے لیے ایک مددگار ماحول تھا جس کے سبب انتخابات میں آج کے انداز کی ہمہ ہمی اور گرم جوشی نہیں تھی۔ آج کی صورتِ حال یہ ہے کہ ساٹھ سے ستّر فی صد ووٹنگ ایک عام بات ہے اور الیکشن کمیشن ہی نہیں پورا ملک یہ چاہتا ہے کہ ووٹنگ کا تناسب بڑھے۔ ایسی حالت میں اسمبلی اور پارلیمنٹ یا مقامی انتخابات ایک ساتھ ہونے میں جو کچھ گَڈ مَڈ ہوگا، اس کا لوگوں کو ابھی اندازہ نہیں ہے۔ ہندستان کی جہالت اپنی جگہ پر ہے۔ لوگ نشانات دیکھ کر ووٹنگ کرتے ہیں۔ ایک ساتھ تین یا چار ای وی ایم اور اُن پر چھوٹے چھوٹے نشانات کو دیکھ کر پڑھے لکھے اور تجربہ کار لوگ تو غلطیاں کریں گے ہی مگر غریب اور اَن پڑھ سماج کے افراد اپنے ووٹ کو ضائع کرنے کے لیے مجبور ہوں۔ ابھی ہمیں موقع ملتا ہے کہ صوبائی انتخاب میں کسی ایک پارٹی کوووٹ ڈالیں، پارلیمانی انتخاب میں قومی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے کسی دوسری پارٹی کو ووٹ دیں مگر ایک ساتھ انتخاب ہونے میں انسان شاید ہی کوئی فیصلہ اِس انداز سے کر سکے گا۔ اندیشہ اِس بات کا ہے کہ ہمارے حق راے دہی کا تیا پانچہ ہو جائے گا اور مرکزی حکومت کی سازش کسی نہ کسی طرح کا میاب ہو جائے گی۔ اصل حملہ تو ہمارے وفاقی نظام پر ہے۔ جمہوریت میں حزبِ اختلاف کی طاقت ور موجودگی سے سب کا بھلا ہوتا ہے مگر وَن نیشن وَن الیکشن میں صوبائی حکومتوں کا آزادانہ وجود خطرے میں نہ پڑ جائے اور ہماری جمہوریت کی سالمیت بکھر کر نہ رہ جائے۔

(مضمون میں پیش کردہ آرا مضمون نگارکے ذاتی خیالات پرمبنی ہیں،ادارۂ قندیل کاان سےاتفاق ضروری نہیں)

You may also like